مسئلہ فلسطین ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ اس مقدس ماہ میں اپنے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو جاری رکھیں۔ غزہ جنگ کے دوران جس طرح عوام نے اپنی بھرپور یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اور سڑکوں پر نکلنے کے معاملہ سے لے کر امریکی و اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو، عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ غزہ جنگ بندی کے بعد دشمن کی جانب سے ایک اور سازش جو کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ غزہ کے مسئلہ کو کم رنگ کر دیا جائے اور دنیا کو غزہ کی یکجہتی سے دور کیا جائے، تاہم ایسے حالات میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ شد و مد کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
مسئلہ فلسطین گذشتہ سات دہائیوں سے عالمی مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ ہے۔ خاص طور پر حالیہ دنوں میں کہ جب سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کا آغاز ہوا اور پندرہ ماہ کی جنگ میں غزہ میں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد ہونے والی جنگ بندی معاہدے نے فلسطین کاز کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ سات اکتوبر سنہ2023ء کے بعد پوری دنیا میں جہاں فلسطین کاز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی، اس کی مثال آج سے پہلے نہیں ملتی ہے۔ دنیا بھر میں خاص طور پر مغربی ممالک میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہوئی، جس نے مغربی حکومتوں کو یہ پیغام دیا کہ دنیا بھر کے عوام فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف متحد کھڑے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کا جانا اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر ممالک کا اس مقدمہ کا حصہ بن جانا یقیناً انقلابی اقدامات ہیں۔
فلسطین کاز کے ساتھ وابستگی کے لئے تمام طبقات کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس عنوان سے دنیا بھر میں اسرائیلی اور ایسی تمام کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمی مہم بھی قابل ذکر ہے کہ جو کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ امریکہ اور اسرائیل کی مددگار ہیں۔ دنیا بھر کے عوام نے ایسی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا عملی ثبوت دیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عوام نے بائیکاٹ مہم میں حصہ لیا اور یہ پیغام دیا کہ ہم جس طرح بھی ممکن ہوگا، مظلوم فلسطینیوں کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔ دنیا بھر میں جاری اس بائیکاٹ کی مہم میں کئی ایک ایسی کمپنیوں کو دیوالیہ کا سامنا کرنا پڑا، جو امریکہ یا اسرائیل کی مدد گار تھیں۔
حالیہ دنوں غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد جاری ہے۔ غاصب صیہونی حکومت جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن فلسطینی مزاحمت حماس اور جہاد اسلامی کی حکمت عملی کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے میدان میں جنگ جیتنے کے بعد میڈیا کے میدان کی جنگ کو بھی احسن انداز سے اپنے حق میں جیت لیا ہے۔ اسرائیل فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کا دن ہو یا پھر 26 جنوری 2025ء کا دن ہو، اس درمیان روز اول سے فلسطینی مزاحمت نے مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کامیابیوں کے حصول کے لئے شہداء نے قربانیاں پیش کی ہیں۔
شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحییٰ سنوار، شہید حسن نصراللہ، شہید ہاشم صفی الدین اور دیگر ہزاروں شہدائے فلسطین و لبنان کہ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، تاکہ فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں کا تحفظ اور فلسطین کی آزادی یقینی ہو۔ یہ قربانیاں یقینی طور پر رائیگاں نہیں جائیں گی۔ غزہ جنگ میں ناکامی کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس جنگ کو مذاکرات کی میز پر اپنے حق میں تبدیل کرے، لیکن فلسطینی عوام نے اپنی استقامت اور صبر کے ساتھ ٹرمپ کی تمام تر سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور فیصلہ سنا دیا ہے کہ غزہ کے لوگ غزہ سے نکل کر کہیں نہیں جائیں گے۔ پوری دنیا کو یہ بات باور کروا دی گئی ہے کہ یاد رکھیں فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے۔
ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ اس مقدس ماہ میں اپنے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو جاری رکھیں۔ غزہ جنگ کے دوران جس طرح عوام نے اپنی بھرپور یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اور سڑکوں پر نکلنے کے معاملہ سے لے کر امریکی و اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو، عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ غزہ جنگ بندی کے بعد دشمن کی جانب سے ایک اور سازش جو کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ غزہ کے مسئلہ کو کم رنگ کر دیا جائے اور دنیا کو غزہ کی یکجہتی سے دور کیا جائے، تاہم ایسے حالات میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ شد و مد کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں۔
ماہ رمضان المبارک میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کیلئے چند ایک اہم اقدامات:
آئیں ہم اس ماہ رمضان المبارک میں عہد کریں کہ ہم مندرجہ ذیل نقاط کو ہر سطح پر اجاگر کریں اور مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ یہ مندرجہ ذیل نقاط ہیں کہ جن کو ہم اپنی محافل اور پروگراموں میں عوام تک پہنچا سکتے ہیں اور فلسطین کاز کی آواز کو مزید مستحکم اور مضبوط بنانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
۱۔ مسئلہ فلسطین کو اس کی اساس یعنی دنیا کو باور کروائیں کہ صیہونی غاصب اور ظالم ہیں اور فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے، یعنی دریائے اردن سے سمندر تک۔
۲۔ غزہ جنگ کا آغاز غاصب صیہونی حکومت کی 77 سالہ انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف فلسطینیوں کا بنیادی حق تھا، جو سات اکتوبر کو شروع ہوا۔
۳۔ غزہ جنگ کے آغاز سے تاحال فلسطینیوں نے مختلف میدانوں میں کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے، یعنی خود سات اکتوبر کو اسرائیل کی ناکامی فلسطینیوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
۴۔ غزہ جنگ کے دوران یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کا دفاعی نظام کمزور ہے، یعنی آئرن ڈوم اور جدید دفاعی نظام اس جنگ میں ناکام رہا ہے۔
۵۔ سات اکتوبر کے بعد سے فلسطین کاز کی ایک کامیابی یہ رہی ہے کہ دنیا بھر کے عوام فلسطین کاز کے ساتھ کھڑے ہوئے اور فلسطین کے خلاف ہونے والی سازشوں کو اپنی عوامی حمایت کے ذریعہ ناکام بنایا۔
۶۔ فلسطینی مزاحمت کا باہمی اتحاد، جس نے غاصب صیہونی حکومت کو مزید کمزور کیا۔ یعنی فلسطین کے دفاع میں حماس اور جہاد اسلامی کے علاوہ لبنان سے حزب اللہ، عراق سے حشد الشعبی اور یمن سے انصار اللہ کی مسلح کارروائیوں نے فلسطینی مزاحمت کے اتحاد اور قوت میں مزید اضافہ کیا۔
۷۔ فلسطینی مزاحمت کی مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ عوامی جدوجہد اور مزاحمت نے دنیا بھر میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ میں اضافہ ہوا، جس کے باعث کئی بڑی کمپنیاں جو صیہونیوں کی مدگار تھیں، انہیں شدید بحران اور نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد کی صورتحال:
جس طرح غزہ جنگ کے دوران متعدد کامیابیوں کا حصول یقینی ہوا، اسی طرح غزہ کی جنگ بندی کے بعد بھی مزاحمتی فورسز سمیت فلسطین کاز کو بے پناہ اہمیت حاصل ہوئی ہے۔
۱۔ جنگ بندی معاہدے میں دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کو فلسطین کے چھوٹے گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے اور ان کی شرائط کے مطابق غزہ جنگ بندی کو تسلیم کرنا پڑا۔
۲۔ غزہ جنگ بندی معاہدے کے نتائج میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل یقینی ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔
۳۔ غزہ جنگ بندی کے بعد ایک مرتبہ پھر فلسطین کاز کو عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہوئی۔
۴۔ غزہ جنگ بندی کے بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل پر مزید دبائو پیدا ہوا ہے، جس کو وہ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یعنی جنگ کے آغاز سے تاحال عالمی سطح پر اسرائیل کو شدید تنقید اور مشکلات کا سامنا ہے۔
۵۔ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے میڈیا کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ یعنی قیدیوں کے تبادلہ کی تقاریب میں شاندار مناظر دیکھنے کو ملے، جس نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطین کی مزاحمت مستحکم اور پائیدار ہے۔
۶۔ غزہ میں تباہی کے باعث جنگ بندی معاہدے سے یہ موقع میسر ہو رہا ہے کہ از سر نو غزہ کی تعمیر کی جائے۔
مستقبل کے خطرات:
۱۔ امریکہ اور اسرائیل اپنی شکست کو چھپانے کے لئے دوبارہ سے جنگ کا آغاز کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ لبنان میں مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطین کے مسئلہ کو فراموش نہ ہونے دیں اور پہلے ہی کی طرح بھرپور قوت کے ساتھ فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھیں۔ عوامی سطح پر جو کام ہم کرسکتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ فلسطین کاز کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ اجتماعات کا انعقاد اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا۔
۲۔ امریکہ سمیت اسرائیل اور ہر اس کمپنی کی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنا، جو براہ راست یا بالواسطہ غزہ میں جاری نسل کشی کی ذمہ دار ہیں۔
۳۔ غزہ کے عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے ہر ممکن مالی امداد کو یقینی بنانا۔
۴۔ مزید ایسے تمام اقدامات، جن کے ذریعے فلسطین کاز کو اجاگر کرنے کا موقع ملے، بغیر کسی سستی اور کوتاہی کے جاری رکھنا۔
امید ہے کہ ہم ان تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے اپنے طور پر بھرپور کوشش کریں گے۔ اس عنوان سے علمائے کرام اور مشائخ سے گزارش ہے کہ اپنے تمام تر اجتماعات میں مسئلہ فلسطین سے متعلق ان اقدامات کو خصوصی اہمیت دیں اور عوام تک اس پیغام کو پہنچا کر اپنا دینی اور انسانی فریضہ انجام دیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غزہ جنگ بندی کے بعد ماہ رمضان المبارک ہم سب کی ذمہ داری مظلوم فلسطینیوں غزہ جنگ کے دوران جنگ بندی معاہدے فلسطینی مزاحمت فلسطین کاز کو فلسطین کاز کی صیہونی حکومت مسئلہ فلسطین دنیا بھر میں غاصب صیہونی سات اکتوبر اور فلسطین جاری رکھیں فلسطین کا فلسطین کے ہوچکا ہے کی حمایت کا ا غاز ہے کہ ہم حصہ لیا دنیا کو نے اپنی کے ساتھ عوام نے کے عوام غزہ کے غزہ کی دیا ہے کے لئے لیا ہے رہی ہے
پڑھیں:
5اگست کے احتجاج کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آرہا،جس نے پارٹی میں گروہ بندی کی اسے نکال دوں گا،عمران خان
راولپنڈی(نیوز ڈیسک) سابق وزیراعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ انہیں ابھی تک 5 اگست کے احتجاج کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ پارٹی میں جس نے بھی گروہ بندی کی اسے میں پارٹی سے نکال دوں گا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر عمران خان کے اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ پوسٹ کی گئی ہے۔ جس میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے اہم پیغام!!! پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جیسا میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی مگر اسے ہر سہولت کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔کسی سیاسی رہنما کی بے گناہ غیر سیاسی اہلیہ کو کبھی ایسے جیل میں نہیں ڈالا گیا جیسے بشرٰی بیگم کے ساتھ کیا گیا ہے۔ میں صرف اور صرف اپنی قوم اور آئین کی بالادستی کے لیے ملکی تاریخ کی مشکل ترین جیل کاٹ رہا ہوں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے اہم پیغام!!! (۲۲ جولائی ۲۰۲۵)
پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جیسا میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی مگر اسے ہر سہولت کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔کسی سیاسی رہنما کی بے گناہ غیر سیاسی…
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) July 23, 2025
جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے اور اس میں مٹی ملی ہوتی ہے، جس سے کوئی انسان وضو نہیں کر سکتا۔ میری کتابیں جو اہل خانہ کی جانب سے جیل حکام تک پہنچائی جاتی ہیں وہ بھی کئی ماہ سے نہیں دی گئیں، ٹی وی اور اخبار بھی بند ہے۔ بار بار پرانی کتب کا مطالعہ کر کے میں وقت گزارتا رہا ہوں مگر اب وہ سب ختم ہو چکی ہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال ہیں۔
قانون اور جیل مینول کے مطابق ایک عام قیدی والی سہولیات بھی مجھے میسر نہیں ہیں۔ بار بار درخواست کے باوجود میری میرے بچوں سے بات نہیں کروائی جا رہی۔ میری سیاسی ملاقاتوں پر بھی پابندی اور ہے صرف “اپنی مرضی” کے بندوں سے ملوا دیتے ہیں اور دیگر ملاقاتیں بند ہیں۔
میں واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت پارٹی کا ہر فرد اپنے تمام اختلافات فوری طور پر بھلا کر صرف اور صرف پانچ اگست کی تحریک پر توجہ مرکوز رکھے۔ مجھے فلحال اس تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا۔ میں 78 سالہ نظام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں، جس میں میری کامیابی یہی ہے کہ عوام تمام تر ظلم کے باوجود میرے ساتھ کھڑی ہے۔ 8 فروری کو عوام نے بغیر نشان کے جس طرح تحریک انصاف پر اعتماد کر کے آپ لوگوں کو ووٹ دئیے اس کے بعد سب کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی آواز بنیں۔
اگر اس وقت تحریک انصاف کے ارکان آپسی اختلافات میں پڑ کر وقت ضائع کریں گے تو یہ انتہائی افسوسناک اور قابل سرزنش عمل ہے۔ پارٹی میں جس نے بھی گروہ بندی کی اسے میں پارٹی سے نکال دوں گا۔ میں اپنی نسلوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہا ہوں اور اس کے لیے قربانیاں دے رہا ہوں ایسے میں پارٹی میں اختلافات پیدا کرنا میرے مقصد اور ویژن کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
فارم 47 کی حکومت نے چھبیسویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے مفلوج کر دیا ہے۔ چھبیسویں ترمیم والی عدالتوں سے ٹاوٹ ججوں کے ذریعے جیسے سیاہ فیصلے آ رہے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں۔ ہمیں عدلیہ کو آزاد کروانے کے لیے اپنی بھر پور جدوجہد کرنی ہو گی کیونکہ عدلیہ کی آزادی کے بغیر کسی ملک و قوم کی بقاء ممکن ہی نہیں ہے۔
Post Views: 7