UrduPoint:
2025-09-18@23:24:38 GMT

جہاں رات کو بھی سورج نکلتا ہے اور مسلمان روزے رکھتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

جہاں رات کو بھی سورج نکلتا ہے اور مسلمان روزے رکھتے ہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) کینیڈا کے آرکٹک علاقے میں واقع اس 'مڈ نائٹ سن‘ مسجد میں جمع ہونے والے مسلمان ایک پُرسکون ماحول میں گھر کے پکے ہوئے سوڈانی کھانوں سے افطار کر رہے ہیں۔ یہ مسجد زمین کے مغربی نصف کرہ کے انتہائی شمال میں واقع واحد مسجد ہے۔

ایسی افطار ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ فلسطینی نژاد لبنانی عبداللہ البکائی گزشتہ 25 برسوں سے یہاں مقیم ہیں اور اب کینیڈا کے شمال مغرب میں واقع اپنی چھوٹی سی مسلم کمیونٹی کو چھوڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں، ''انوئک میں یہ میرا آخری سال ہے۔

‘‘

وہ اس قدر سرد علاقے میں ابھی تک کیوں قیام پذیر ہیں؟ اس بارے میں 75 سالہ عبداللہ بتاتے ہیں، ''خدا میرے جانے کے لیے راضی نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

شاید میں نے اپنی زندگی میں برا کیا، خدا نے مجھے یہاں بھیجا!‘‘

اس علاقے میں کتنے مسلمان آباد ہیں؟

مڈ نائٹ سن مسجد، جسے بڑے پیمانے پر ''ٹنڈرا کی چھوٹی مسجد‘‘ کہا جاتا ہے، کا افتتاح اگست 2010 میں کیا گیا تھا کیونکہ کینیڈا کے اس سخت سرد شمالی علاقے میں کام کے لیے نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

مسجد کا یہ ڈھانچہ مینی ٹوبا صوبے کے شہر ونی پیگ میں بنایا گیا تھا اور اسے ایک بڑے ٹرک کے ذریعے 4,000 کلومیٹر دور اس شمالی علاقے تک پہنچایا گیا۔

شمالی یورپ میں آدھی رات کا سورج: رمضان کے لیے نئے ضابطے

اس مسجد کے امام صالح حسب النبی ہیں اور وہ بھی گزشتہ 16 سال سے انوئک میں ہی مقیم ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد مسلسل تو نہیں بڑھ رہی لیکن تقریباً 100 سے 120 ارکان ہمیشہ اس علاقے میں موجود رہتے ہیں۔

ان مسلمانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے؟

آرکٹک سرکل کے آس پاس رہنے والے مسلمانوں کو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کے لیے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب سورج کی پوزیشن سے منسلک نماز کے شیڈول پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انوئک میں سال کے 50 دن تو سورج 24 گھنٹے نکلا رہتا ہے اور رات کو وہاں قطبی روشنیاں رہتی ہیں۔

یا سال میں کم از کم 30 دن کے لیے وہاں سورج کی براہ راست روشنی نہیں پہنچتی۔

امام مسجد صالح حسب النبی انوئک میں اپنی پہلی گرمیوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ''پہلی بار جھٹکا سا لگا۔ میں اس بات پر یقین نہیں کر سکا کہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ پانچ وقت کی نماز پڑھی اور سورج موجود تھا۔‘‘

نمازیں مکہ کے مقامی وقت کے حساب سے

یہاں کی کمیونٹی نے ایک اصول نافذ کیا ہے کہ وہ نمازیں اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ کے مقامی وقت کے حساب سے ادا کریں گے۔

محمد اسد بہرور اکاؤنٹنگ میں کام کرتے ہیں اور حال ہی میں انوئک منتقل ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہاں کی سفید راتوں کو ایڈجسٹ کرنا بہت زیادہ مشکل نہیں تھا کیونکہ وہ پہلے البرٹا صوبے کے دارالحکومت ایڈمنٹن میں مقیم تھے، جہاں گرمی کے دن بھی طویل ہوتے ہیں۔

تاہم 36 سالہ اسد کا کہنا ہے، ''لیکن اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنا مشکل ہے، یہ سخت قسم کا ہے۔

‘‘

اس مسجد میں بیٹھے یہ مسلمان سرد موسم کو برداشت کرتے ہوئے آدھی رات کو رمضان کا تیسرہ روزہ افطار کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ سبھی کھانے کے لیے چکن اور چاول جیسی کوئی نہ کوئی ڈش ساتھ لے کر آئے ہیں۔ ان میں عبداللہ البکائی بھی شامل ہیں، جو کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کھانے کے وقت خوشی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے ہیں۔

انوئک کی آبادی تقریباً 3,400 افراد پر مشتمل ہے اور مڈنائٹ سن کمیونٹی میں زیادہ تر وہ مسلمان شامل ہیں، جو مہاجرین کے طور پر کینیڈا آئے اور بالآخر زیادہ آمدنی کی تلاش میں شمال کی طرف چلے گئے۔ کئی لوگ بطور ٹیکسی ڈرائیور کام کرتے ہیں۔

ایڈمنٹن سے آنے والے ایک 37 سالہ اسلامی اسکالر عبدالوہاب سلیم نے انوئک میں مسلمانوں کو ''واضح اقلیت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''آپ باہر گھومتے پھرتے ہیں آپ کو ہر وقت مسلمان نظر آئیں گے، جب بھی آپ کو ٹیکسی ملے گی، زیادہ امکان یہی ہے کہ ڈرائیور مسلمان ہی ہو گا۔‘‘

ا ا/ا ب ا (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علاقے میں کے لیے

پڑھیں:

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خلافت و ملوکیت کا فرق
اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِ جنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔
خلافتِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔
مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے (خلافت اور ملوکیت کا فرق، ترجمان القرآن، ستمبر 1965)۔
٭—٭—٭

سانحۂ مسجدِ اقصیٰ
اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں (سانحۂ مسجدِ اقصیٰ)۔

متعلقہ مضامین

  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • مسجد، اسپتال اور رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر، 83 فلسطینی شہید
  • 1965 جنگ کا 18واں روز؛ پاک فوج نے دشمن کو کتنا نقصان پہنچایا؟
  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • غزہ پر اسرائیلی بمباری: مسجد، اسپتال اور رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر، 83 فلسطینی شہید
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے دھماکوں میں ماں بیٹی سمیت 3 افراد جاں بحق
  • ڈیرہ بگٹی، بارودی سرنگ کے دھماکے، ماں بیٹی سمیت 3 افراد جاں بحق
  • مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
  • اسرائیل پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا، تمام مسلمان ممالک پالیسی مرتب کریں گے، سعید غنی