نئی دہلی (نیوز ڈیسک) بھارتی ریاست اتر پردیش میں شادی کے دو دن بعد ہی دلہن کے ہاں بچے کی پیدائش کے بعد ہنگامہ برپا ہوگیا۔ دولہا کی بہن نے الزام لگایا کہ دلہن نے جان بوجھ کر اپنا بیبی بَمپ ایسے لہنگے میں چھپایا کہ اسے پہچاننا ممکن نہ ہو۔ دولہے کی بہن کے مطابق دلہن نے لہنگا کمر سے اوپر اس طریقے سے پہنا ہوا تھا کہ جس سے کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ حاملہ ہے۔

بھارتی خبررساں ادارے کے مطابق شادی کے بعد صرف دو دن کے اندر ہی دلہن کو شدید تکلیف ہونے لگی اور جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ زچگی کے مراحل میں ہے۔ اس خبر نے دولہا اور اس کے اہل خانہ کو صدمے میں مبتلا کر دیا، جن کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ دلہن پہلے سے حاملہ تھی۔
دولہا کی بہن نے الزام لگایا کہ دلہن نے شادی کے دوران اپنا بیبی بمپ چالاکی سے لہنگے کے ذریعے چھپایا تھا، جس کی وجہ سے کسی کو بھی شک نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ دلہن نے لہنگا کمر سے اوپر تک پہن رکھا تھا اور انہیں لگا کہ شاید وہ سردی کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے، اس لیے کسی نے اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔

یہ شادی 24 فروری کو ہوئی تھی اور اگلے دن دلہن کو سسرال لے جایا گیا جہاں روایتی “مُنہ دکھائی” کی رسم ادا کی گئی۔ 26 فروری کی صبح دلہن نے گھر کے افراد کو چائے پیش کی لیکن شام ہوتے ہی اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ وہ حاملہ ہے اور زچگی کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ صرف دو گھنٹے کے اندر ہی دلہن نے ایک بچے کو جنم دیا۔

دولہا کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے شادی سے پہلے دلہن کے ماضی کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا تھا، جبکہ دلہن کے والدین کا دعویٰ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے درمیان پہلے سے رابطہ تھا اور ان کی شادی مئی 2023 میں طے ہو چکی تھی۔ تاہم دولہا نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ شادی اکتوبر میں طے پائی تھی اور اس نے دلہن کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی۔

اب دولہا کے خاندان نے مطالبہ کیا ہے کہ دلہن بچے کے والد کے بارے میں سچ بتائے، جبکہ دولہا نے اس شادی کو مسترد کرتے ہوئے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
مزیدپڑھیں:بھارت آسٹریلیاکو 4 وکٹوں سے شکست دیکر پانچویں بار چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچ گیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: شادی کے کہ دلہن ہی دلہن دلہن کے دلہن نے تھا کہ

پڑھیں:

دو عورتیں دو دنیائیں

بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے مگر اس کی سنگینی اور بے رحمی نے ہر حساس دل کو مضطرب کردیا ہے۔

ایک عورت جس نے اپنی پسند سے شادی کر لی، اس کو اور اس کے شوہر کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور یہ فیصلہ اجتماعی طور پر جرگہ میں کیا گیا اور اس سفاکانہ عمل میں پچاس لوگ ملوث تھے۔ یہ محض کوئی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ صدیوں پر محیط جبر، جاہلیت اور قبائلی غیرت کے نام پر قائم ایک گھناؤنے کلچر کی بھیانک تصویر ہے۔

وہ عورت جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے شاید جینے کی خواہش کی ،کسی مرد کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ کیا ،کسی کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا، اُسے ایک سبق بنانے کے لیے ظلم کی اس انتہا سے گزارا گیا جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

یہ واقعہ اونر کلنگ کے نام پر ہوا، ایک ایسا لفظ جو مہذب دنیا میں کبھی قابلِ فخر نہ ہو سکتا تھا، مگر یہاں اسے غیرت کی چادر میں لپیٹ کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس لفظ میں نہ عزت ہے نہ غیرت اور نہ ہی انصاف۔ یہ ایک ایسا سفاک عمل ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہے تاکہ ان پر اختیار باقی رکھا جا سکے تاکہ وہ ہر فیصلہ کسی مرد کے حکم سے جوڑ کر دیکھیں اور اپنی مرضی کو گناہ سمجھ کر اس کا گلا گھونٹ دیں۔

وہ پچاس مرد جو اس عورت کے گرد جمع تھے، وہ افراد نہ تھے، وہ اس سماج کی نمایندگی کر رہے تھے جو عورت کو انسان نہیں سمجھتا۔ ان کی آنکھوں میں خون تھا مگر افسوس کہ کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ اس عورت کا خون بھی سرخ ہے، اس کی چیخیں بھی انسان کی چیخیں ہیں اور اس کے وجود کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے وجود کا۔

 اس واقعہ کی سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک فرد کی ہلاکت نہیں بلکہ ایک پوری سوچ ،ایک پوری نسل کے گلے میں خوف کا طوق ڈالنے کی کوشش ہے۔ یہ اعلان ہے کہ عورت اگر زبان کھولے گی تو اسے دفن کر دیا جائے گا۔ وہ زبان جو زندگی سے محبت کرے، جس میں سوال پیدا ہوں، جس میں آزادی کا خواب جنم لے، اسے نوچ کر باہر نکال دیا جائے گا اور یہ سب کچھ اس سماج کی خاموشی کی چھاؤں میں ہوتا ہے جہاں لوگ حقیقت دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ سچ سن کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ظالم کی طاقت سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

یہ معاملہ قانون سے کہیں زیادہ اخلاق کا ہے، یہ جنگ عدالتی نظام سے پہلے ضمیر کی ہے، اگر ایک سماج میں پچاس مرد مل کر ایک عورت کو مار سکتے ہیں اور کوئی شخص آواز نہیں اٹھاتا تو یہ صرف قاتلوں کی سزا کا سوال نہیں بلکہ پورے سماج کے ضمیرکی موت ہے۔ اس عورت کا جسم جس پر ظلم ہوا اب تو مٹی تلے ہے، مگر سوال زندہ ہے۔ کیا عورت مرد کی ذاتی ملکیت ہے؟ کیا اس کی زندگی کا فیصلہ صرف وہی کرسکتے ہیں جن کے ہاتھ میں طاقت ہے؟ کیا اس کے خواب، اس کی خواہشیں، اس کی شناخت بے معنی ہے؟ ہم کب تک ان سوالوں سے منہ موڑتے رہیں گے؟

یہ واقعہ بلوچستان کا ہے مگر اس کی گونج پورے ملک میں سنی جانی چاہیے۔ یہ ایک علاقائی مسئلہ نہیں، یہ ایک قومی المیہ ہے۔ اگر ہم اسے صرف ایک قبائلی رسم کے طور پر دیکھ کر نظر انداز کریں گے تو ہم ظلم کے شریک ہوں گے۔ جب بھی کسی عورت پر ظلم ہوتا ہے پوری انسانیت زخمی ہوتی ہے اور جب انسانیت کو چپ کرا دیا جائے تو صرف قبریں آباد ہوتی ہیں، زندگی نہیں۔

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو ترقی کا زینہ تو بنایا مگر وہ تعلیم کہاں ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے؟ وہ شعور کہاں ہے جو ظلم کو ظلم کہنے کی جرات دیتا ہے؟ ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں کس لیے ہیں، اگر وہاں سے ایسے لوگ نکلتے ہیں جو غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھتے ہیں؟ ہمیں اپنے بچوں کو صرف مضامین نہیں پڑھانے بلکہ انصاف، برابری اور احترامِ انسانیت کا شعور بھی دینا ہوگا۔ جب تک ہم ان بنیادوں کو نہیں چھیڑتے تب تک صرف قانون بنانے یا مذمت کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔

ہمیں اس عورت کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی، کیونکہ اگر ہم آج نہ بولے تو کل یہ خاموشی ہمارے گھروں تک پہنچے گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت کا وقار اس کی آزادی، اس کی حفاظت صرف عورتوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کا معاملہ ہے۔ اگر ایک عورت کی عزت محفوظ نہیں تو کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اگر ایک عورت کی آزادی پامال ہوتی ہے تو پورا سماج قید ہے۔ ہمیں عدالتوں میں صرف انصاف نہیں سماج میں تبدیلی بھی لانی ہے۔

ہمیں اس سوچ کو دفن کرنا ہوگا، جو غیرت کو قتل سے جوڑتی ہے جو مردانگی کو جبر سمجھتی ہے، جو عورت کو جسم، عزت یا صرف خاندان کی ناموس مانتی ہے۔ عورت انسان ہے، مکمل انسان اور اس کی زندگی، اس کے فیصلے، اس کے خواب، اسی قدر اہم ہیں جتنے کسی مرد کے۔ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم صرف تحریریں لکھتے رہیں گے، بینرز اٹھاتے رہیں گے مگر کچھ بدلے گا نہیں۔

آخر میں صرف ایک سوال رہ جاتا ہے وہ پچاس مرد اب کہاں ہیں؟ کیا وہ اب بھی آزاد ہیں؟ کیا وہ فخر سے اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں؟ اور ہم کہاں ہیں؟ کیا ہم اب بھی اپنی مصروف زندگیوں میں گم ہیں یا اس عورت کی تکلیف کو اپنا دکھ سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ یہ واقعہ صرف ایک فرد کی موت نہیں، ایک سماج کی روح پر لگنے والا زخم ہے، اگر ہم نے اس زخم پر مرہم نہ رکھا تو کل یہ زخم ناسور بن جائے گا جو ہمارے پورے سماج کو چاٹ جائے گا۔

ایک طرف ہم اس جوڑے اور اپنے سماج کی جہالت کو رو رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا کی ریاست لوزیانا کی الیسہ کارسن ہے جس کا نام نہ صرف سائنسی دنیا میں ابھر کر سامنے آیا ہے بلکہ وہ لاکھوں نوجوانوں خصوصاً لڑکیوں کے لیے ایک امید، ایک خواب اور ایک مثال بن چکی ہے، اس کی عمر ابھی بیس کے پیٹے میں ہے مگر وہ دنیا کے ان چند لوگوں میں شامل ہے جو ناسا کی مستقبل کی خلائی مہمات کے لیے خصوصی تربیت حاصل کر رہی ہے اور یہ امکان ظاہرکیا جا رہا ہے کہ وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بنے گی۔

الیسہ کی کہانی صرف خلا میں جانے کی خواہش سے شروع نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسے بچپن سے شروع ہوتی ہے جہاں اس نے محض تین سال کی عمر میں خلا نورد بنے کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ وہ لمحہ اس کی زندگی کا رخ متعین کرنے والا بن گیا۔ اُس نے کم عمری سے ہی فلکیات، فزکس اور خلا سے متعلق علوم میں دلچسپی لینا شروع کردی اور سات سال کی عمر میں ناسا کے اسپیس کیمپ میں شرکت کی۔ بعد ازاں وہ واحد انسان بنی جس نے دنیا کے تمام بڑے اسپیس کیمپس میں شرکت کی ہے۔

 الیسہ نے اپنی تعلیم کا رخ بھی انھی خوابوں کے مطابق رکھا۔ اس نے فلکیات، بیالوجی، فزکس اور دیگر سائنسی مضامین میں مہارت حاصل کی اور مختلف زبانیں سیکھیں تاکہ کسی بھی بین الاقوامی مشن میں آسانی سے شامل ہو سکے۔ الیسہ ناسا کی جانب سے مریخ پر بھیجے جانے والے مشن کا حصہ ہونا چاہتی ہے۔

 یہ حقیقت قابل غور ہے کہ مریخ پر جانے کا مشن کوئی سیر و تفریح کا سفر نہیں ہوگا۔ یہ ایک نہایت کٹھن، خطرناک اور غیر یقینی سفر ہوگا جس میں واپسی کا کوئی وعدہ نہیں۔ یہ مشن کئی مہینوں پر محیط ہوگا جس میں انسان کو ایک ایسی دنیا میں جانا ہوگا جہاں سختیاں ہوں گی اور زمین سے مختلف ماحول ہوگا۔ وہاں جانے کے لیے جسمانی طاقت سے بڑھ کر ذہنی طاقت درکار ہوگی اور الیسہ ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

الیسہ نہ صرف سائنسی میدان میں خود کو منوا رہی ہے بلکہ وہ نوجوان نسل خاص طور پر لڑکیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ خواب بڑے دیکھو اور ان کے پیچھے لگے رہو۔ وہ اکثر تعلیمی اداروں سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کرتی ہے جہاں وہ اپنی کہانی سنا کر دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک خاص کشش ہے جو نوجوانوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ کچھ بھی ممکن ہے بشرطیکہ ارادہ پختہ ہو اور محنت مسلسل ہو۔

الیسہ کی زندگی کا ہر لمحہ اس مقصد کے گرد گھومتا ہے کہ وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرے۔ مریخ پر قدم صرف ایک ذاتی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ یہ پوری انسانیت کی فتح ہوگی۔ اگر وہ اس سفر میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ نہ صرف سائنس میں ایک نیا سنگِ میل عبور کرے گی بلکہ زمین سے باہر زندگی کی تلاش میں بھی ایک نئی راہ کھولے گی۔الیسہ کارسن کا سفر اس بات کی علامت ہے کہ اگر خواب سچے ہوں اور ارادے مضبوط تو آسمان بھی چھوٹا پڑ سکتا ہے۔ اس کی کہانی اس دنیا کے ہر اس بچے لڑکی یا نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے جو کسی بڑی منزل کی خواہش رکھتے ہیں۔ مریخ پر انسان کے قدم رکھنے سے پہلے ہی الیسہ نے ہمارے دلوں پر اپنی سوچ عزم اور جدوجہد سے جگہ بنا لی ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے اور دنیا اس کی کامیابی کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔

کیسا تضاد ہے ہم اپنی بیٹیوں کو اپنی مرضی سے زندگی کا ساتھی نہیں چنے دیتے اور ایسا کرنے پر جان سے مار دیتے ہیں اور مہذب معاشرے اپنی بیٹیوں کو خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس پر فخر کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: شوہر کے مبینہ بدترین تشدد سے کوما میں جانے والی نوبیاہتا دلہن انتقال کرگئی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!
  • دو عورتیں دو دنیائیں
  • کراچی، فائرنگ کے واقعات میں 4 افراد زخمی ہو گئے
  • اجے دیوگن کی اسٹیڈیم میں شاہد آفریدی سے ملاقات، بھارت میں ہنگامہ مچ گیا
  • مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا، اب جو بھی ہوگا بانی ہدایات دیں گے، بیرسٹر گوہرکا اعلان
  • شادی شدہ اداکاروں کا نامناسب رویہ؛ علیزہ شاہ نے ڈراموں میں کام بند کردیا
  • مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا، اب جو بھی ہوگا بانی ہدایات دیں گے: بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا، اب وہی ہوگا جو عمران خان ہدایات دیں گے: بیرسٹر گوہر