دہشتگردی صرف کے پی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک میں پھیلے گی، وزیراعلیٰ کا انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
پشاور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 مارچ 2025ء ) وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں دہشتگردی نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے، یہ دہشت گردی صرف کے پی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک میں پھیلے گی، ہمارے صوبے کے پیسے نہیں دیئے جا رہے، حیران ہوں وفاق تو ہم پر سیاسی مقدمات قائم کر رہا ہے لیکن امن و امان کی صورتحال پر توجہ نہیں دے رہا۔
پشاور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا تھا لیکن رجیم چینج میں ساری توجہ پی ٹی آئی پر مرکوز کی گئی جس کی وجہ سے دہشت گردی اب پھیلنا شروع ہوگئی ہے، افغانستان کے ساتھ تمام مسائل کا حل مذاکرات میں ہے، فیصلہ سازوں کو ملک میں بدترین حالات کا اندازہ نہیں، افغانستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ٹی او آرز بنا کر وفاق کو بھیجے ہیں، وفاق کی جانب سے دو بار یاد دہانی کے باوجود مذاکرات کیلئے بنائے گئے ٹی او آرز پر جواب نہیں دیا گیا ہے۔(جاری ہے)
وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ ضلع کرم کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کر رہے، قافلوں پر حملے اور امن خراب کرنے والے دہشتگرد ہے، کرم میں امن و امان قائم رکھنےکیلئے کام کر رہے ہیں، کرم میں جن لوگوں نے حملہ کیا ان کو نہیں چھوڑا جائے گا، پنجاب حکومت کی کارکردگی خیبرپختونخواہ کے مقابلے میں ایک فیصد بھی نہیں ہے، وفاقی حکومت کیا کارکردگی رپورٹ جاری کرے گی، وفاق کی کارکردگی صرف باتیں اور اشتہارات پر مبنی ہے، یہ دہشتگردی روکنے کیلئے پالیسی نہیں بنا رہے، ان کو کوئی پرواہ ہی نہیں، قرضوں پر قرضے لیے جا رہے ہیں، ان کی کیا کارکردگی ہے؟۔ علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ عمران خان کو طرح طرح کے لوگ ملتے ہیں اور غلط رپورٹ پیش کرتے ہیں، ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کا نام اپنی مرضی سے نہیں بلکہ عوام کی خواہش سے رکھا تھا، سٹیڈیم نیا بنا تھا اس لئے ان کے نام سے منسوب کیا گیا، علم نہیں بانی کو کس طرح بات کی گئی اس لیے انہوں نے سٹیڈیم کا نام واپس کرنے کا حکم دیا ہے، میں عمران خان سے خود مل کر بات کروں گا، اس کے بعد جو بانی چیئرمین کا حکم ہوگا اسی پر عمل کیا جائے گا، اس کے علاوہ ہم خیبرپختونخواہ کی اپنی الگ کرکٹ لیگ بھی جلد شروع کریں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملک میں
پڑھیں:
عید الاضحی کا اہم پیغام
مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے دعا کروائی کہ ’’ اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرمائے اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والے ظالموں کو برباد کردے اور ان کے قدم اکھیڑ دے، انھوں نے مزید کہا کہ والدین سے صلہ رحمی، نرمی اور وعدوں کی تکمیل بھی دین کا حصہ اور حیا ایمان کی شاخ ہے ۔ ہمسایوں کا خیال رکھیں، یتیموں، بیواؤں اورکمزور طبقات سے ہمدردی اور شفقت کا برتاؤ کریں۔
بلاشبہ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید نے حجاج اور امت مسلمہ کو نہایت اہم اور جامع پیغام دیا ہے۔ حج اور عید الاضحیٰ صرف انفرادی عبادات نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے عظیم پیغامات کے حامل مواقع ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مادیت، مفاد پرستی اور مطلق العنانیت غالب ہے، عید الاضحی اور حج ایثار، قربانی، اتحاد اور انسانی فلاح و بہبود کے کئی سبق لے کر آتے ہیں۔
درحقیقت عید الاضحی صرف جانور کی قربانی کا نام نہیں، بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت، ایثار اور قربانی کی وہ روشن یاد ہے جس نے ہمیں یہ سبق دیا کہ اللہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کی جا سکتی ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یہ دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ قربانی کا اصل مقصد صرف رسمی عبادت ادا کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا انسانی، معاشرتی اور روحانی پیغام ہے۔
اسلامی فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو خالق و مالک کے حکم اور مرضی و منشاء پر قربان کر دے۔ عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لیے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔فلسطینی عوام کے لیے یہ دن خوشیوں کے بجائے آنسوؤں، ملبوں، شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد کے گراف میں اضافے کا پیغام لے کر آیا ہے۔ غزہ کی گلیاں خون سے رنگین ہیں، بچے عید کی نئی پوشاکوں کے بجائے کفن میں لپیٹے جا رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے مینار ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی گواہی دے رہے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس انسانی المیے پر عالم اسلام کا کیا رویہ ہے؟ فلسطینیوں کے لیے ہر عید ایک نیا امتحان لے کر آتی ہے۔ رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں حتیٰ کہ عبادت گاہوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ مگر عالم اسلام کا اجتماعی ردِ عمل صرف زبانی بیانات اور چند علامتی احتجاجی جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، جو مسلمانوں کے اجتماعی فیصلوں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے، اپنی موجودگی کو ثابت کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ جب امت کا ایک حصہ بدترین نسل کشی کا شکار ہو، تو او آئی سی کا خاموش رہنا یا رسمی بیانات جاری کرنا نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ یہ اس کی افادیت پر بھی ایک بڑا سا سوالیہ نشان ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے جہاں معصوم فلسطینیوں کے لیے قیامتِ صغریٰ برپا کر دی ہے، وہیں عالمی سطح پر امن اور انصاف کے اداروں کی مکمل ناکامی کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔
یہ صورت حال نہ صرف فلسطینیوں کے لیے المیہ ہے بلکہ بحیثیت مجموعی پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ بن چکی ہے۔ معصوم بچوں کے خون سے سرخ ہوتی گلیاں اور زخمی خواتین کی درد ناک چیخیں عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی ادارے، مسلم ممالک اور دیگر بڑی قوتیں اسرائیل کو غزہ کے بے قصور و بے بس عوام پر ظلم سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی حالت بدترین ہو چکی ہے۔ بھوک و افلاس سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نسل پرستی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اپنی تہذیب و ثقافت کو کمزور اقوام پر تھوپا جا رہا ہے۔ آج جو لوگ انسانیت کا راگ الاپتے ہیں، وہ درحقیقت انسانیت سے عاری ہیں۔ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات نے انسان کو انسان ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
دولت کی ہوس اور عالمی نظام نے ہمدردی، محبت اور انسان شناسی کے جذبات کو ختم کر دیا ہے۔ طاقتور قوموں کی توسیع پسندانہ پالیسیاں سمندروں کو خون سے رنگین کر رہی ہیں۔ عالمی امن کے علم بردار ادارے سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونے بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال عورتوں کی ہے۔ آزادی اور مساوات کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سب سے زیادہ ظلم و تشدد کی شکار خواتین ہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک اگر اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی منشور پر صدقِ دل اور دیانت داری سے عمل کرتے تو کسی حد تک دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی تھی۔ ظلم و ستم کے بازار بند ہو جاتے، صنفِ نازک کے استحصال کا سلسلہ تھم جاتا اور سامراجی و استعماری قوتیں خود بخود مٹ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ جن قوتوں نے اس منشور کے نفاذ کی ذمے داری لی، ان کی نیت صاف نہ تھی، اور وہ اس منشور کی آڑ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل چاہتے تھے۔آج افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اہم فریضے کو محض ایک دنیاوی تہوار سمجھ کر ایسے کام شروع کردیے ہیں، جس سے اس اہم فریضے کے ادائیگی کا مقصد پورا نہیں ہوتا، روحِ عبادت پر نمود و نمائش غالب آگئی ہے۔
ہرکوئی قربانی کے نام پر اپنی حیثیت اور استطاعت کی شیخی بگاڑتا نظر آتا ہے۔ اور قربانی کا گوشت جس پر سب سے پہلا حق مستحقین کا ہوتا ہے انھیں اُن کا حق اول تو ملتا ہی نہیں اور جو ملتا ہے تو وہ جو بچ جاتاہے رشتے داروں، ہمسائیوں وغیرہ سے وہ اُن کے حصے میں آتا ہے جسے بڑے حقیرانہ انداز میں، عجیب سے تیور دکھا کر انھیں دیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت احسان کر رہے ہوں اور جو سفید پوش ہیں انھیں یہ دن بھی ایسے ہی فاقے میں گزارنا پڑتا ہے، کیونکہ ہاتھ وہ نہیں پھیلا سکتے۔ جو نعمتیں خدا نے ہمیں عطا کی ہیں وہ خدا کے دیے ہوئے میں سے بے بس، لاچار، مستحقین اور خاص کرکے سفید پوش لوگوں پر خرچ کرنا ہمارا فرض ہے۔ بہت سے والدین ایسے مواقعوں پر اپنے بچوں کی حسرتوں کو پورا نہیں کرسکتے اُن کی معصومیت کا خاص خیال رکھیں۔ گوشت دیتے ہوئے کوئی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جن سے اُن کی دل آزاری ہو۔
کسی کے دیے ہوئے گوشت میں سے اُن کو حصہ نہ دیں بلکہ اپنے حصے میں سے اُنکا حق انھیں دیں۔ ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انھیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔ آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کر کے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں۔ اسی روش کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ معاشرہ کے مستحق افراد کی فکر بڑی حد تک مفقود ہے۔ جب ہم قریب ترین عزیزوں کے علاوہ کسی کو جانتے ہی نہ ہونگے تو اُس کے مشکل وقت کا علم کیسے ہوگا اور استطاعت کے باوجود اُس کی مشکل آسان کرنے کی ہمیں توفیق کیسے ہوگی؟ ہمارے اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ دوسرے وقت کے لیے کچھ بچا کر نہیں رکھتے تھے۔
بعض افراد سب کچھ تو کیا تھوڑا بہت بھی ضرورتمندوں کو دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ جو لوگ فراخدل واقع ہوئے ہیں اُن کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہے کہ دست تعاون اُس کی جانب دراز کرتے ہیں جو دست سوال دراز کرتا ہے، اُن لوگوں کی کیفیت جاننے کی کوشش نہیں کرتے جنھیں، ضرورتمند ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرنے کی عادت نہیں یا وہ اشارے کنائے میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا مذہب ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی اور تقسیم ِ دولت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اگر ہم ضرورتمندوں کی اُس طرح مدد کریں جس طرح مدد کرنے کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس قوم کی مالی حالت دگرگوں رہے، اس کے نوجوان تعلیم سے بے بہرہ رہیں اور اس کی مجموعی شبیہ پر سوال اُٹھے۔ آج انسانیت درد سے کراہ رہی ہے۔
ایک طرف کچھ لوگ زندگی کی بلند ترین سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں انسان بھوک، پیاس، غربت، جہالت، بے شعوری، بے روزگاری، غلامی اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ طاقتور اقوام آج بھی غریب ملکوں کو زیر نگیں رکھنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔اگر آج کی دنیا 1400 سال قبل حجۃ الوداع کے موقع پر محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے دیے گئے پیغام جس میں انسانیت، بقائے باہمی اور حقوقِ انسانی پر زور دیا گیا تھا، پر عمل کرے تو جنگ و تباہی سے بچ سکتی ہے اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔