وفاقی حکومت نے پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے تحت کونسل آف کمپلینٹس، پنجاب کا چیئرپرسن مقرر کر دیا۔

ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر، ایک ممتاز میڈیا ماہر، سیاسی تجزیہ کار، اور سینئر ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت، میڈیا گورننس، اور ریگولیٹری امور میں وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔

ان کی تقرری میڈیا کے اصول و ضوابط اور ضابطۂ اخلاق کے تحت نشریات کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلم اور نشریات کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر ظہیر لبنٰی نے میڈیا کی تعلیم اور پالیسی کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے میڈیا کی اخلاقیات، گورننس اور آزادی اظہار میں اپنی مہارت کو کامل بناتے ہوئے مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ جس میں میڈیا ریگولیشن اور پریس کی آزادی پر عالمی مباحثوں میں شرکت بھی شامل ہے۔

پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس پنجاب کی چیئرپرسن جیسے اہم ریگولیٹری عہدے کے لیے ان کی تعیناتی سے  عوامی شکایات کو دور کرنے، ذمہ دارانہ صحافت کو یقینی بنانے اور پنجاب میں میڈیا کے متوازن اور منصفانہ منظر نامے کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

 

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) مالدیپ کی پارلیمان نے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو ضابطہ کار میں لانے کے لیے ایک ایسا متنازع قانون منظور کر لیا ہے، جس پر مقامی اور بین الاقوامی حلقوں نے سخت تشویش ظاہر کی ہے۔

منگل کی شب منظور ہونے والے 'میڈیا اینڈ براڈکاسٹنگ ریگولیشنز بل‘ کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔

اس قانون کے تحت ایک ریگولیٹری کمیشن قائم کیا جائے گا، جسے میڈیا اداروں کو معطل، اخبارات کی ویب سائٹس بلاک کرنے اور بھاری جرمانے عائد کرنے کا اختیار ہو گا۔

یہ بل صدر محمد معیزو کی توثیق کے بعد نافذ العمل ہوگا۔ مقامی روزنامہ ''محارو‘‘ کے مطابق بیس سے زائد ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے اس قانون کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پارلیمان نے ان خدشات کو نظرانداز کر دیا۔

(جاری ہے)

پیرس میں قائم تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نے خبردار کیا ہے کہ اس بل میں مبہم زبان استعمال کی گئی ہے، جسے حکومت سینسرشپ کے لیے استعمال کر سکتی ہے، خاص طور پر طاقت کے غلط استعمال کی کوریج کو محدود کرنے کے لیے۔

مجوزہ کمیشن سات اراکین پر مشتمل ہو گا، جن میں سے تین کا تقرر پارلیمان کرے گی جبکہ چار کا انتخاب میڈیا کی صنعت سے ہو گا، تاہم پارلیمان کو انہیں برطرف کرنے کا اختیار ہوگا۔

کمیشن کو 25 ہزار روفیہ (تقریباً 1625 ڈالر) تک صحافیوں اور 100 ہزار روفیہ (6500 ڈالر) تک اداروں پر جرمانہ کرنے، لائسنس منسوخ کرنے اور ایک سال قبل شائع شدہ مواد پر بھی کارروائی کرنے کا اختیار ہو گا۔

وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ نئے ضوابط کا مقصد میڈیا پر عوامی اعتماد قائم کرنا اور جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، تاہم یہ قانون سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لاگو نہیں ہو گا۔

آر ایس ایف کے ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں مالدیپ کا نمبر 180 ممالک میں سے 104ہے، جو کہ قریبی جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان (158) سری لنکا (139) اور بھارت (151) سے کہیں بہتر ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • سپیکر قومی اسمبلی کا حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بھٹ کے انتقال پر اظہار تعزیت
  • کرغیزستان: نئے میڈیا قانون کے تحت دو صحافیوں کو قید کی سزا
  • سابق چیئرمین کل جماعتی حریت کانفرنس پروفیسر عبدالغنی بٹ انتقال کرگئے
  • عائشہ عمر کا نازیبا ریئلٹی شو؛ پیمرا نے وضاحت جاری کردی
  • مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات
  • ’لازوال عشق‘ ریئلٹی شو کے خلاف شکایات پر پیمرا کا ردعمل آگیا
  • اسکولوں میں بچوں کے موبائل استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد منظور
  • سکولوں میں بچوں کے موبائل استعمال پر پابندی کی قرارداد منظور
  • آفات کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، پروفیسر ڈاکٹر حسن قادری
  • پروفیسر آفاقی کے اعزاز میںادارہ نورحق میں پروقار تقریب