کراچی:

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے2 لاکھ کم آمدنی والے گھرانوں میں سولر ہوم سسٹم (SHS) کی تقسیم شروع کردی ہے اور چیئرمین بلاول بھٹو مزید 3 لاکھ سولر یونٹس خریدنے کی ہدایت  دے چکے ہیں تاکہ انہیں کم آمدنی والے گھرانوں میں تقسیم کیا جاسکے۔

یہ بات انہوں نے سندھ سولر انرجی پروجیکٹ (SSEP) کے زیر اہتمام کے پی ٹی انٹر چینج، ڈی ایچ اے فیز -I کے قریب ایک بینکوئٹ ہال میں کم آمدنی والے گھرانوں  میں سولر ہوم سسٹمز (SHS) کی تقسیم کے موقع پر کہی۔ تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ نے سندھ حکومت کو قابل تجدید توانائی کے فروغ اور تھر کول منصوبے کی ترقی میں درپیش رکاوٹوں کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے شمسی توانائی کا منصوبہ شروع کیا توونڈ اور شمسی توانائی جیسے قابل تجدید ذرائع پر پابندیاں عائد کی گئیں، جس سے توانائی کے پائیدار حل میں سندھ کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس کے  باوجود سندھ حکومت نے صوبے کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درآمدی کول پاور پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا۔

شمسی توانائی  کے حوالے سے سندھ کے ابتدائی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے مرادعلی شاہ نے کہا کہ 2014 میں حکومت نے ننگرپارکر میں 600 اسکولوں کو سولرائز کیا اور سکھر میں 25 میگاواٹ کی دو سولر پاور اسکیمیں شروع کیں۔  وزیراعلیٰ سندھ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کوششوں کے باوجود وفاق نے اضافی بجلی کی پیداوار کے لیے منظوری دینے سے انکار کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں پہلے ہی کافی بجلی  موجود ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے سوال کیا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر کراچی سمیت پورا سندھ لوڈ شیڈنگ کا شکار کیوں ہے؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مسئلہ بجلی کے سرپلس کا نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے میں ناکامی کا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کےلیے سندھ حکومت گرین انرجی کے نئے ذرائع کی کھوج میں ہے مگر وفاقی حکومت نے درآمدی کوئلے پر مبنی پاور پلانٹس کو ترجیح دی اس کی واضح مثال ساہیوال ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت ایسا تھا جب وفاق نے تھر کے کوئلے کو بجلی کی پیداوار کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے مسترد کیا  جس سے سندھ کے توانائی کے منصوبوں میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو ئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ  نے کہا کہ 14-2013 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے تھر کول پراجیکٹ کی منظوری دی تھی لیکن وفاقی گارنٹی نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد کے لیے قرضوں کا حصول مشکل رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ 2016 کے منصوبے کے معاہدے کے بعد بھی تھر کول کی فزیبلٹی پر بدگمانیاں قائم رہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ ان ساری کاوشوں کا سہرا جناب صدرآصف علی زرداری  کے سر ہے جنہوں نے  اس منصوبے کے افتتاح کے لیے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو تھر لانے میں اہم کردار ادا کیا اور  وفاقی سطح پر تعاون کو یقینی بنایا گیا۔2015 میں مالی مشکلات کے باوجود سندھ حکومت نے سخت شرائط میں قرضے حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔

مراد علی  شاہ نے کہا کہ انہوں نے ہمیں خبردارکیا کہ اگر پروجیکٹ ناکام ہوا تو وہ سندھ کے این ایف سی ایوارڈ سے ادائیگیوں میں کٹوتی کریں گے لیکن ہم نے پھربھی پروجیکٹ پر کام جاری رکھا۔ تھر کول کے منصوبے نے 2018 میں نتائج دینا شروع کیے جب بلاول بھٹو زرداری نے ذاتی طور پر کان کنی کے مقام کا  دورہ کیا۔ تھر کے کوئلے  کےپہلےمرحلے یعنی 230 میگاواٹ پاور پلانٹ کا افتتاح بلاول بھٹو زرداری نے کیا جب کہ آخری مرحلے کا افتتاح سابق وزیر داخلہ بلاول بھٹو اور وزیراعظم شہباز شریف نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں تھر کے کوئلے سے سب سے سستی بجلی پیدا کی جاتی ہے جو سندھ کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔مرادعلی شاہ نے کہا کہ وہ لوگ جو کبھی تھر کے کوئلے کے قابل عمل ہونے پر شک کرتے تھے، اب اس  میں  اضافے کی مانگ  کر رہے ہیں۔ مزید برآں مہنگے درآمدی ایندھن کے مقابلے  میں پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری کے لیے تھر کے کوئلے کو استعمال کرنے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے سندھ حکومت اب وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر تھر کے کوئلے کی نقل و حمل کے لیے ایک مخصوص ریلوے لائن بچھا رہی ہے جس سے صوبے کی توانائی کی خودمختاری کو مزید تقویت ملے گی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ  2022 کے سیلاب  نے خطے پر اپنے واضح نقوش چھوڑے ہیں ۔ سندھ سولر پراجیکٹ توانائی  میں خودکفیل ہونے  کی جانب ایک اہم قدم ہے، جو خاندانوں کوان  کی زندگی، بچوں کے بہتر تعلیم اور کاروبار کو پھلنے پھولنے کے قابل بناتا ہے ۔ ہم ایک زیادہ لچکداراور پائیدار سندھ بنا رہے ہیں ۔ایس ایس ای پی  کا جزو III اہل گھرانوں کو معمولی قیمت پر بھاری سبسڈی والی SHS کٹس فراہم کرے گا۔

ہر 6000 ویرا سول کٹ میں مضبوط سولر پینل،80W سولر پینل، اسمارٹ پاور مینجمنٹ اور ایک چارج کنٹرول یونٹ، ایک دیرپا بیٹری، ایک 18اے ایچ  لیتھیم آئرن فاسفیٹ بیٹری، موثر لائٹنگ (3 ایل ای ڈی بلب)، ضروری کنیکٹیویٹی(موبائل چارجنگ فیسیلیٹی ، کولنگ کمفرٹ۔ 18 انچ ڈی سی  پیڈسٹل فین  اور سیکیور اسٹالیشن (سولر ماؤنٹنگ فریم) شامل ہیں۔

سندھ حکومت چینی کمپنیوں کے ساتھ ونڈ سولر ہائبرڈ انرجی کے منصوبے تیار کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، جس میں 350 میگاواٹ اور 75 میگاواٹ کے منصوبے شامل ہیں، جنہیں صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورہ چین کے دوران حتمی شکل دی گئی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کم آمدنی والے خاندانوں کو 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا  جوکہ پی پی پی کے منشور کا وعدہ اور پائیدار ترقی کے اہداف  کے حصول کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ سندھ حکومت جولائی 2025 تک تمام 200,000 ایس ایچ ایس کٹس کی تقسیم کو مکمل کر نے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہر ہفتے 400 کٹس فی ضلع کا ہدف مقرر کیا گیاہے۔ ٹائم لائن کا مقصد جلد سے جلد ضرورت مند خاندانوں کی مدد کرنا ہے۔

اس موقع پر وزیر توانائی ناصر شاہ نے کہا کہ سندھ کے تمام 30 اضلاع میں ایس ایچ ایس کی تقسیم یکساں طور پر کی جا رہی ہے، جس میں ہینڈز، ایس آر ایس او اور سیفکو جیسی قائم کردہ این جی اوز کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ترسیل کے عمل کو جلد سے جلد یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ڈیٹا بیس سے فائدہ اٹھانے والوں کا انتخاب احتیاط سے کیا گیا تاکہ سب سے زیادہ ضرورت مند خاندانوں کو ترجیح دی جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر توانائی سید ناصر حسین شاہ اور ان کی ٹیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کلین توانائی کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور سندھ عالمی بینک اور دیگر ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے اس تبدیلی میں ایک رہنما بننے کے لیے پرعزم ہے۔ سندھ سولر انرجی پراجیکٹ ایک سرسبز، زیادہ مساوی مستقبل کی جانب ایک اہم قدم ہے، جو معیار زندگی کو بلند کرنے اور پائیدارسندھ کی ضمانت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علی شاہ نے کہا کہ والے گھرانوں سندھ حکومت بلاول بھٹو توانائی کے کے منصوبے کہا کہ ان مراد علی انہوں نے کی تقسیم حکومت نے کرنے کے ایک اہم سندھ کے کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان

اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔

یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔

وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔

ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔

عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔

انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔

آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔

صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔

نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔

صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔

صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔

Post Views: 9

متعلقہ مضامین

  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • سندھ ہائیکورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کیخلاف نیب انکوائری ختم کردی
  • آن لائن سسٹم تاخیر کا شکار، پراپرٹی ٹیکس وصولی شروع نہ ہو سکی
  • (سندھ بلڈنگ ) ڈائریکٹر جنرل شاہ میر بھٹو ،کھوڑو سسٹم کا مہر ہ ثابت
  • کے الیکٹرک نے سندھ حکومت کے واجبات کی ادائیگی شروع کر دی
  • کے الیکٹرک نے سندھ حکومت کے واجبات کی ادائیگی شروع کر دی، سوا اب روپے جمع کرا دیئے
  • چین نے دریائے براہمپترہ پر ڈیم کی تعمیر شروع کردی، بھارت میں تشویش
  • مراد علی شاہ کی کے فور اور بی آر ٹی کے کام کو ستمبر میں شروع کرنیکی ہدایت
  • برطانیہ نے نئے ایٹمی پلانٹ کی منظوری دے دی
  • ماہانہ 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بُری خبر آگئی