امریکا غزہ کے مسلمانوں کے قتل عام کا براہ راست ذمہ دار ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
جیکب میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ پوری دنیا کے مسلمان مسجد اقصٰی اور فلسطین کے وارث ہیں۔ ہم کسی غدار کو غزہ، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کا سودا کرنے نہیں دینگے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ ماہ مبارک رمضان نزول قرآن کریم کا مہینہ ہے اور قرآن کریم نے ماہ مبارک رمضان کا تعارف نزول قرآن مجید سے کرایا ہے۔ ہمیں قرآن مجید اور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متمسک رہنا چاہئے یہی راہ نجات ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعۃ المصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیکب آباد میں ماہ مبارک رمضان اور شہدائے آزادی فلسطین سے تجدید عہد کے عنوان سے منعقدہ تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں حاجی شاہ مراد ڈومکی، انجینیئر عید محمد ڈومکی، احمد علی ٹالانی، زوار دلدار حسین گولاٹو، علامہ حاجی سیف علی ڈومکی، استاد عبدالفتاح، صحافی محمد صدیق ٹالانی و دیگر شریک ہوئے۔
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو پوری دنیا کے غیرت مند مسلمان یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمان مسجد اقصٰی اور فلسطین کے وارث ہیں۔ ہم کسی غدار کو غزہ، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کا سودا کرنے نہیں دیں گے۔ امریکا غزہ کے 47 ہزار مسلمانوں کے قتل عام کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر قبضے کا شیطانی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ و دیگر شیطانی طاقتوں نے شیعہ سنی کو لڑانے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے۔ مگر شیعہ سنی کو لڑانے کا شیطانی منصوبہ ناکام ہو گیا۔ آج بھی شیعہ سنی مسلمان متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہدائے راہ حق شہید اسماعیل ہانیہ، سید حسن نصر اللہ اور شہید یحیٰ سنوار سے عہد کرتے ہیں کہ ان کے راستے پر چلیں گے۔ ان کا راستہ عزت و وقار اور کامیابی کا راستہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ماہ مبارک رمضان علامہ مقصود اور فلسطین نے کہا کہ
پڑھیں:
اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپین: میڈرڈ کی قدامت پسند حکومت نے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت پر خاموشی سے پابندی عائد کردی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپین کے دارالحکومت نے مختلف اسکولوں کو فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے تمام نشانات، جن میں فلسطینی پرچم بھی شامل ہیں، ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی موقف یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور فلسطین کی حمایت ایک سیاسی معاملہ ہے، یہ ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں کیونکہ اس سے قبل میڈرڈ ریجن کے کئی اسکول مہینوں تک فلسطین کے حق میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اسی حکومت نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تعلیمی اداروں میں یوکرین کی حمایت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس سے اس فیصلے پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اسپین کی قومی سیاست میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے، گزشتہ دنوں میڈرڈ ریجن کی پاپولر پارٹی کی سربراہ ایزابیل دیاس اییوسو نے وزیراعظم پیڈرو سانچیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے ملکی آزادی اور کھیلوں کے تقدس پر حملہ ہیں۔
اسی دوران پاپولر پارٹی کے قومی سربراہ البیرتو نونیز فیخوو نے بھی حکومت کی فلسطین نواز پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سانچیز اپنی ناکامیوں اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،میں آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ غزہ میں ہونے والی اموات کو ہسپانوی عوام کے خلاف استعمال کریں۔”
جواب میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے فیخوو کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حالیہ سروے کے مطابق 82 فیصد اسپین کے عوام غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت یورپی یونین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے مؤثر آواز رہی ہے۔ 2024 میں اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر مستقل اسلحہ پابندی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے درآمدات پر بھی پابندی عائد کی۔
میڈرڈ ریجن کی حکومت کی اس پالیسی نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید بحث کو جنم دیا ہے اور یہ واضح تضاد اجاگر کیا ہے کہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ فلسطین کی حمایت کو دبایا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔