پاکستان کا صنعتی شعبہ چین، بھارت اور امریکا کے مقابلے میں بجلی کی قیمتوں سے تقریباً دوگنا اور یورپی یونین سے بھی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے، جس سے اس کی برآمدی مسابقت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیرس میں قائم انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کی تازہ ترین ’الیکٹریسٹی 2025- اینالسز اینڈ فارکاسٹ ٹو 2027‘ رپورٹ کے مطابق امریکا اور بھارت میں 2024 میں بجلی کی اوسط قیمت 6.

3 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ، چین میں 7.7 سینٹ، ناروے میں 4.7 سینٹ اور یورپی یونین میں 11.5 سینٹ تھی۔

اس کے مقابلے میں پاکستان میں توانائی سے بھرپور صنعتوں کے لیے بجلی کی اوسط قیمتیں 2024 میں 13.5 سینٹ فی یونٹ رہیں۔

اگرچہ پاکستان میں بجلی کی قیمت کو خاص طور پر رپورٹ نہیں کیا گیا، کیونکہ وہ آئی ای اے کا رکن نہیں ہے، لیکن اس میں یورپی یونین کو درپیش چیلنجز کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے، جہاں 2024 میں بجلی کی اوسط قیمت 11.5 سینٹ تھی جو پاکستان کے مقابلے میں تقریباً 18 فیصد کم تھی۔

اس سے جزوی طور پر پاکستانی صنعتوں کو اندرون ملک اور بیرون ملک مصنوعات برآمد کرنے میں درپیش مشکلات کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ کو ڈی انڈسٹریلائزیشن کا سامنا ہے، کیونکہ توانائی کی زیادہ لاگت نے صنعتوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے، سستی بجلی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے. بجلی کی بلند قیمتیں یورپی توانائی سے بھرپور صنعتوں کی مسابقت کو مسلسل کمزور کر رہی ہیں۔

2023 میں نرمی کے بعد 2024 کے ابتدائی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یورپی یونین میں توانائی سے بھرپور صنعتوں کے لیے بجلی کی اوسط قیمتوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں صرف 5 فیصد کی کمی ہوئی ہے، تاہم یہ اب بھی 2019 کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ ہے۔

2022 میں ریکارڈ بلند ترین سطح سے گرنے اور 2023 کے مقابلے میں قدرے کم ہونے کے باوجود 2024 میں یورپی یونین میں توانائی پر مبنی صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتیں اوسطاً امریکا کے مقابلے میں دوگنا اور چین کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی زائد قیمتوں نے یورپی صنعتوں کو زیادہ تر یورپی یونین کے ممالک میں کھپت کی سطح پر غیر مساوی طور پر متاثر کیا ہے، کم سے درمیانی بجلی کی کھپت والے کاروباری اداروں نے 2021 اور 2024 کے درمیان زیادہ مستحکم ٹیرف کا لطف اٹھایا، جس کے نتیجے میں بڑے صارفین کے مقابلے میں قیمتوں میں اتار چڑھاؤ میں کمی ہوئی۔

2019 کے مقابلے میں 2022 میں یورپی یونین کی توانائی سے بھرپور صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اوسطاً 160 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ درمیانے صارفین کو 80 فیصد اور کم کھپت والے کاروباری اداروں کے لیے قیمتوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ ایک نئے ’بجلی کے دور‘ کا آغاز کر رہا ہے، جس کی مانگ 2027 تک بڑھنے والی ہے۔

آئی ای اے نے کہا کہ اس رپورٹ کی 2027-2025 کی پیشگوئی کی مدت کے دوران عالمی سطح پر بجلی کی کھپت میں تیز ترین رفتار سے اضافے کی توقع ہے، جس میں بڑھتی ہوئی صنعتی پیداوار ، ایئر کنڈیشننگ کے بڑھتے ہوئے استعمال، بجلی کی رفتار میں تیزی اور دنیا بھر میں ڈیٹا سینٹرز کی توسیع شامل ہے۔

2024 میں عالمی سطح پر بجلی کی طلب میں 4.3 فیصد اضافہ ہوا، 2027 میں اس میں 4 فیصد کے قریب اضافے کی پیشگوئی کی گئی ہے، اگلے 3 سال میں، عالمی سطح پر بجلی کی کھپت میں 3500 ٹیرا واٹ گھنٹے (ٹی ڈبلیو ایچ) کا غیر معمولی اضافہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

یہ ہر سال دنیا کی بجلی کی کھپت میں جاپان کے مساوی سے زیادہ اضافے سے مطابقت رکھتا ہے، یہ 2023 میں 2.5 فیصد اضافے کے مقابلے میں بھی تیز رفتار تھا، جب چین، بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں مضبوط ترقی یافتہ معیشتوں میں گراوٹ کی وجہ سے متاثر ہوئی تھی۔

2027 تک بجلی کی زیادہ تر اضافی طلب ابھرتی ہوئی معیشتوں کی طرف سے آئے گی، جن کی ترقی کا 85 فیصد حصہ بننے کی توقع ہے۔

2024 میں عالمی سطح پر بجلی کی طلب میں نصف سے زیادہ اضافہ چین سے آیا، جہاں گزشتہ سال کی طرح 2024 میں 7 فیصد اضافہ ہوا، چین میں بجلی کی طلب میں 2027 تک اوسطاً 6 فیصد سالانہ اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

بھارت، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں بھی معاشی توسیع اور ایئر کنڈیشنر کی بڑھتی ہوئی ملکیت کی وجہ سے طلب میں زبردست اضافہ متوقع ہے، بھارت میں بجلی کی طلب میں اگلے 3 سال میں اوسطاً 6.3 فیصد سالانہ اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو 2024-2015 کی اوسط شرح نمو 5 فیصد سے زیادہ ہے۔

اگرچہ بہت سی ابھرتی ہوئی معیشتیں بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ دیکھ رہی ہیں لیکن افریقہ پیچھے ہے، تاہم حالیہ برسوں میں اہم پیشرفت ہوئی لیکن سب صحارا افریقہ میں 60 کروڑ افراد کو اب بھی قابل اعتماد بجلی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

دوسری جانب چین میں بجلی کی فراہمی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، جہاں توانائی کی حتمی کھپت میں بجلی کا حصہ (28 فیصد) امریکا (22 فیصد) یا یورپی یونین (21 فیصد) کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

چین کی بجلی کی کھپت 2020 کے بعد سے اس کی معیشت کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس سے اس رفتار کی نشاندہی ہوتی ہے جس سے تمام شعبوں میں بجلی کی فراہمی زور پکڑ رہی ہے۔

2022-2024 کے 3 سال کے عرصے میں صنعتوں نے بجلی کی طلب میں تقریباً 50 فیصد اضافہ کیا، جب کہ کمرشل اور رہائشی شعبوں نے مجموعی طور پر 40 فیصد حصہ ڈالا۔

چین میں صنعتی شعبہ زیادہ بجلی پر مبنی ہو گیا ہے، طلب میں ایک تہائی اضافہ شمسی پی وی ماڈیولز، بیٹریوں اور برقی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سے آتا ہے، 2024 میں ان صنعتی شعبوں نے سالانہ 300 ٹی ڈبلیو ایچ سے زیادہ بجلی استعمال کی، یہ اتنی بجلی ہے جتنی اٹلی ایک سال میں استعمال کرتا ہے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: صنعتوں کے لیے بجلی کی عالمی سطح پر بجلی کی بجلی کی اوسط قیمت بجلی کی طلب میں فیصد اضافہ ہوا کے مقابلے میں بجلی کی قیمت یورپی یونین میں بجلی کی قیمتوں میں کی گئی ہے سے زیادہ کھپت میں اضافے کی چین میں گیا ہے

پڑھیں:

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک سال میں 700 ارب ڈالر کا اضافہ، آکسفیم کا انکشاف
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • طلباء کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد زیادہ ضلعی افسر سے وضاحت طلب
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار مچھیرے کے اہم انکشافات
  • امریکا میں آنتوں کی مخصوص بیماری میں خطرناک اضافہ
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی پر اہم پیشرفت
  • 31 اکتوبر تک 59 لاکھ ٹیکس ریٹرنز جمع تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی، ایف بی آر