پاکستانی صنعتوں کیلئے بجلی چین، بھارت، امریکا سے دو گنا مہنگی، مسابقت بری طرح متاثر
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
پاکستان کا صنعتی شعبہ چین، بھارت اور امریکا کے مقابلے میں بجلی کی قیمتوں سے تقریباً دوگنا اور یورپی یونین سے بھی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے، جس سے اس کی برآمدی مسابقت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیرس میں قائم انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کی تازہ ترین ’الیکٹریسٹی 2025- اینالسز اینڈ فارکاسٹ ٹو 2027‘ رپورٹ کے مطابق امریکا اور بھارت میں 2024 میں بجلی کی اوسط قیمت 6.
اس کے مقابلے میں پاکستان میں توانائی سے بھرپور صنعتوں کے لیے بجلی کی اوسط قیمتیں 2024 میں 13.5 سینٹ فی یونٹ رہیں۔
اگرچہ پاکستان میں بجلی کی قیمت کو خاص طور پر رپورٹ نہیں کیا گیا، کیونکہ وہ آئی ای اے کا رکن نہیں ہے، لیکن اس میں یورپی یونین کو درپیش چیلنجز کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے، جہاں 2024 میں بجلی کی اوسط قیمت 11.5 سینٹ تھی جو پاکستان کے مقابلے میں تقریباً 18 فیصد کم تھی۔
اس سے جزوی طور پر پاکستانی صنعتوں کو اندرون ملک اور بیرون ملک مصنوعات برآمد کرنے میں درپیش مشکلات کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ کو ڈی انڈسٹریلائزیشن کا سامنا ہے، کیونکہ توانائی کی زیادہ لاگت نے صنعتوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے، سستی بجلی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے. بجلی کی بلند قیمتیں یورپی توانائی سے بھرپور صنعتوں کی مسابقت کو مسلسل کمزور کر رہی ہیں۔
2023 میں نرمی کے بعد 2024 کے ابتدائی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یورپی یونین میں توانائی سے بھرپور صنعتوں کے لیے بجلی کی اوسط قیمتوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں صرف 5 فیصد کی کمی ہوئی ہے، تاہم یہ اب بھی 2019 کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ ہے۔
2022 میں ریکارڈ بلند ترین سطح سے گرنے اور 2023 کے مقابلے میں قدرے کم ہونے کے باوجود 2024 میں یورپی یونین میں توانائی پر مبنی صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتیں اوسطاً امریکا کے مقابلے میں دوگنا اور چین کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی زائد قیمتوں نے یورپی صنعتوں کو زیادہ تر یورپی یونین کے ممالک میں کھپت کی سطح پر غیر مساوی طور پر متاثر کیا ہے، کم سے درمیانی بجلی کی کھپت والے کاروباری اداروں نے 2021 اور 2024 کے درمیان زیادہ مستحکم ٹیرف کا لطف اٹھایا، جس کے نتیجے میں بڑے صارفین کے مقابلے میں قیمتوں میں اتار چڑھاؤ میں کمی ہوئی۔
2019 کے مقابلے میں 2022 میں یورپی یونین کی توانائی سے بھرپور صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اوسطاً 160 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ درمیانے صارفین کو 80 فیصد اور کم کھپت والے کاروباری اداروں کے لیے قیمتوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ ایک نئے ’بجلی کے دور‘ کا آغاز کر رہا ہے، جس کی مانگ 2027 تک بڑھنے والی ہے۔
آئی ای اے نے کہا کہ اس رپورٹ کی 2027-2025 کی پیشگوئی کی مدت کے دوران عالمی سطح پر بجلی کی کھپت میں تیز ترین رفتار سے اضافے کی توقع ہے، جس میں بڑھتی ہوئی صنعتی پیداوار ، ایئر کنڈیشننگ کے بڑھتے ہوئے استعمال، بجلی کی رفتار میں تیزی اور دنیا بھر میں ڈیٹا سینٹرز کی توسیع شامل ہے۔
2024 میں عالمی سطح پر بجلی کی طلب میں 4.3 فیصد اضافہ ہوا، 2027 میں اس میں 4 فیصد کے قریب اضافے کی پیشگوئی کی گئی ہے، اگلے 3 سال میں، عالمی سطح پر بجلی کی کھپت میں 3500 ٹیرا واٹ گھنٹے (ٹی ڈبلیو ایچ) کا غیر معمولی اضافہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
یہ ہر سال دنیا کی بجلی کی کھپت میں جاپان کے مساوی سے زیادہ اضافے سے مطابقت رکھتا ہے، یہ 2023 میں 2.5 فیصد اضافے کے مقابلے میں بھی تیز رفتار تھا، جب چین، بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں مضبوط ترقی یافتہ معیشتوں میں گراوٹ کی وجہ سے متاثر ہوئی تھی۔
2027 تک بجلی کی زیادہ تر اضافی طلب ابھرتی ہوئی معیشتوں کی طرف سے آئے گی، جن کی ترقی کا 85 فیصد حصہ بننے کی توقع ہے۔
2024 میں عالمی سطح پر بجلی کی طلب میں نصف سے زیادہ اضافہ چین سے آیا، جہاں گزشتہ سال کی طرح 2024 میں 7 فیصد اضافہ ہوا، چین میں بجلی کی طلب میں 2027 تک اوسطاً 6 فیصد سالانہ اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
بھارت، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں بھی معاشی توسیع اور ایئر کنڈیشنر کی بڑھتی ہوئی ملکیت کی وجہ سے طلب میں زبردست اضافہ متوقع ہے، بھارت میں بجلی کی طلب میں اگلے 3 سال میں اوسطاً 6.3 فیصد سالانہ اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو 2024-2015 کی اوسط شرح نمو 5 فیصد سے زیادہ ہے۔
اگرچہ بہت سی ابھرتی ہوئی معیشتیں بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ دیکھ رہی ہیں لیکن افریقہ پیچھے ہے، تاہم حالیہ برسوں میں اہم پیشرفت ہوئی لیکن سب صحارا افریقہ میں 60 کروڑ افراد کو اب بھی قابل اعتماد بجلی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
دوسری جانب چین میں بجلی کی فراہمی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، جہاں توانائی کی حتمی کھپت میں بجلی کا حصہ (28 فیصد) امریکا (22 فیصد) یا یورپی یونین (21 فیصد) کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
چین کی بجلی کی کھپت 2020 کے بعد سے اس کی معیشت کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس سے اس رفتار کی نشاندہی ہوتی ہے جس سے تمام شعبوں میں بجلی کی فراہمی زور پکڑ رہی ہے۔
2022-2024 کے 3 سال کے عرصے میں صنعتوں نے بجلی کی طلب میں تقریباً 50 فیصد اضافہ کیا، جب کہ کمرشل اور رہائشی شعبوں نے مجموعی طور پر 40 فیصد حصہ ڈالا۔
چین میں صنعتی شعبہ زیادہ بجلی پر مبنی ہو گیا ہے، طلب میں ایک تہائی اضافہ شمسی پی وی ماڈیولز، بیٹریوں اور برقی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سے آتا ہے، 2024 میں ان صنعتی شعبوں نے سالانہ 300 ٹی ڈبلیو ایچ سے زیادہ بجلی استعمال کی، یہ اتنی بجلی ہے جتنی اٹلی ایک سال میں استعمال کرتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: صنعتوں کے لیے بجلی کی عالمی سطح پر بجلی کی بجلی کی اوسط قیمت بجلی کی طلب میں فیصد اضافہ ہوا کے مقابلے میں بجلی کی قیمت یورپی یونین میں بجلی کی قیمتوں میں کی گئی ہے سے زیادہ کھپت میں اضافے کی چین میں گیا ہے
پڑھیں:
امریکا کا جنوب مشرقی ایشیا سے سولر پینلز کی درآمد پر 3500 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ
امریکا نے پیر کے روز جنوب مشرقی ایشیا کے سولر پینلز پر 3521 فیصد تک محصولات عائد کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد اس شعبے میں مبینہ چینی سبسڈی اور ڈمپنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق کمبوڈیا، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور ویتنام کی کمپنیوں پر محصولات کی جون میں بین الاقوامی تجارتی کمیشن کے اجلاس میں توثیق کی ضرورت ہوگی۔
یہ فیصلہ تقریباً ایک سال قبل متعدد امریکی اور دیگر سولر مینوفیکچررز کی جانب سے اینٹی ڈمپنگ اور کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹی کی تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
ان کمپنیوں نے ’غیر منصفانہ طریقوں‘ کو نشانہ بنایا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے امریکی مقامی سولر مارکیٹ کو متاثر کیا ہے، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے باہر کام کرنے والی چینی ہیڈکوارٹر والی کمپنیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پیر کو یہ اقدام ایک سال کی طویل تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے لیکن یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر میں محصولات کے ذریعے شدید تجارتی جنگ شروع کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
محکمہ تجارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سولر سیلز پر نئے تجویز کردہ محصولات کی خاص وجہ ’بین الاقوامی سبسڈیز‘ ہے۔
بیان میں کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کمبوڈیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور ویتنام سے متعلق سی وی ڈی تحقیقات میں محکمہ تجارت نے پایا کہ ہر ملک کی کمپنیاں چین کی حکومت سے سبسڈی وصول کر رہی تھیں۔
محصولات کو حتمی شکل دینے کے لیے انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن کے پاس حتمی فیصلہ کرنے کے لیے جون کے اوائل تک کا وقت ہے۔
محکمہ تجارت کے مطابق کمبوڈیا کی مصنوعات پر 3521 فیصد تک ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔
جنکو سولر کو ملائیشیا سے برآمدات پر 40 فیصد اور ویتنام سے مصنوعات پر 245 فیصد ڈیوٹی کا سامنا کرنا پڑے گا، تھائی لینڈ میں ٹرینا سولر پر 375 فیصد سے زیادہ اور ویتنام کی مصنوعات پر 200 فیصد سے زیادہ ڈیوٹی ہوگی۔ 2023 میں امریکا نے ان ممالک سے 11.9 ارب ڈالر کے شمسی سیل درآمد کیے۔
Post Views: 1