پاکستان میں فش فارمنگ مقبولیت حاصل کر رہی ہے.ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 مارچ ۔2025 )پاکستان میں فش فارمنگ نے مقبولیت حاصل کی ہے اور ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے درمیان خوراک کی حفاظت میں معاون بن کر ابھر سکتی ہے، پنجاب فشریز ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرملک رمضان نے ویلتھ پاک کو انٹرویو میں بتایاکہ تالاب میں مچھلی کاشت کاری متعدد سماجی و اقتصادی فوائد فراہم کرتی ہے جس میں ایک پائیدار سمندری غذا کا ذریعہ، روزگار کی تخلیق اور کسانوں اور مقامی کمیونٹی دونوں کے لیے آمدنی پیدا کرنا شامل ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہاکہ چیلنجوں کے باوجود حالیہ برسوں میں میٹھے پانی کی مچھلیوں کی مختلف اقسام کی کاشت کے لیے پاکستان کی مثالی آب و ہوا کی وجہ سے اس شعبے نے ترقی کی ہے موسمی جنگلی ماہی گیری کے برعکس تالاب کی مچھلی کاشتکاری مچھلی کی مسلسل فراہمی فراہم کرتی ہے جس سے جنگلی مچھلیوں کے ذخیرے پر دباﺅکم ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ یہ مچھلی کی پیداوار کے متبادل ذریعہ کے طور پر کام کرتا ہے پنجاب میں تالاب میں مچھلی کاشت کاری 90,000 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے خاص طور پر آبی علاقوں میں، مظفر گڑھ، سرگودھا اور گوجرانوالہ میں بڑے کاشتکاری والے علاقوں کے ساتھ تاہم یہ بتدریج مناسب حالات کے ساتھ دوسرے اضلاع تک پھیل رہا ہے. انہوں نے تجویز پیش کی کہ پنجاب کے دریاوں میں پائی جانے والی اعلی قیمت والی دریائی مچھلیوں کی اقسام جیسے سول اور سنگھاری کو بھی آبی زراعت میں شامل کیا جانا چاہیے انہوں نے کہا کہ ان انواع میں کاشتکاری کی بڑی صلاحیت ہے اور افزائش نسل کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جانی چاہیے پاکستان بنیادی طور پر سمندری ماہی گیری پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے مچھلی برآمد کرتا ہے تاہم فارمی مچھلی بھی برآمد کی جاتی ہے. ڈائریکٹر فشریز نے بتایا کہ تالاب کی مچھلی کی فارمنگ میں پانی کے کنٹرول والے ماحول میں مچھلیوں کی افزائش اور کٹائی شامل ہے جو بیماریوں اور قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کرتی ہے انہوں نے کہا کہ اگرچہ بہت سے ممالک میں مچھلی کی کاشت کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن یہ صرف پاکستان میں 1970 کی دہائی میں چھوٹے پیمانے پر متعارف کرایا گیا تھا 1980 کی دہائی تک لوگ اس سے زیادہ واقف ہو گئے اور 2010 کے بعد اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تاہم صنعت کو حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی ان پٹ لاگت کی وجہ سے کچھ دھچکے کا سامنا کرنا پڑا ہے تالابوں میں پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے بجلی اور ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویل چلانے کی لاگت بڑھ گئی ہے. انہوں نے تجویز دی کہ حکومت آسان فنانسنگ کے ذریعے کسانوں کو سولر سسٹم لگانے میں مدد کرے انہوں نے کہا کہ درآمد شدہ فیڈ اجزا زیادہ مہنگے ہو گئے ہیں جبکہ مچھلی کی قیمتوں میں اس کے مطابق اضافہ نہیں ہوا اس لیے کسانوں کے منافع کا مارجن کم ہو گیا ہے رمضان نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اس شعبے کو عام طور پر نئے کاروباروں کو پیش کردہ چھوٹ اور مراعات نہیں ملی ہیںجس کے نتیجے میں درآمدی مشینری پر زیادہ ڈیوٹی عائد ہوتی ہے. انہوں نے کہا کہ پنجاب کا محکمہ ماہی پروری مچھلیوں کی کھیتی کے تمام مراحل بشمول تالاب کے ڈیزائن، تعمیرات، پانی اور مٹی کے تجزیہ اور کٹائی سمیت مفت مشاورتی خدمات پیش کر کے کسانوں کی مدد میں فعال کردار ادا کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ محکمہ بیماری کی تشخیص کے لیے مرکزی اور ڈویژنل لیبارٹریز بھی چلاتا ہے انہوںنے کہا کہ پانی کا معیار مچھلی کی صحت اور نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ پانی کی خراب صورتحال ان کی صحت کو براہ راست متاثر کرتی ہے. انہوں نے کہا کہ مچھلیوں کو زندہ رہنے کے لیے ایک مخصوص درجہ حرارت کی حد، پی ایچ کی سطح اور کافی مقدار میں تحلیل شدہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پانی میں امونیا اور نائٹریٹ کی زیادہ مقدار مچھلی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے اور اسے کم سے کم رکھا جانا چاہیے مچھلی کی افزائش مارچ اور نومبر کے درمیان ہوتی ہے جس کے بیج مارچ میں تالابوں میں ڈالے جاتے ہیں اور نومبر میں کاٹے جاتے ہیں ملک نے کہا کہ ترقی کی پوری مدت میں تالاب کی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کسان باقاعدگی سے کھاد ڈالتے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ میں مچھلی ہے انہوں مچھلی کی کرتی ہے کے لیے
پڑھیں:
کینال تنازع پروزیر اعظم بے بس ہیں تواقتدار چھوڑ دیں،پیپلزپارٹی کا مطالبہ
غریب کسان کا پانی چھین کر چولستان کارپوریٹ سیکٹر دینا چاہتے ہیں،پنجاب میں پینے کا 90 فیصد پانی زیرزمین سے آتا ہے جبکہ سندھ میں پینے کا90 فیصد پانی دریا اور جھیلوں سے آتا ہے، یہ ان کی حساسیت ہے
یہ اپنے آپ کو پنجاب کے وارث سمجھتے ہیں مگر یہ جنرل جیلانی ، جنرل ضیا کے وارث تو ہوسکتے ہیں، پنجاب کے نہیں ، ہم آپ کے اتحادی نہیں، اس نظام اور آئین کے اتحادی ہیں، پی پی رہنماؤں کی پریس کانفرنس
پاکستان پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ کینالوں کے معاملے پروزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، چولستان کینال کو پنجاب کی کون سی نہر کا پانی دیں گے؟ غریب کسانوں کا پانی چھین کر چولستان مین کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتے ہیں، حکومت کو ایک سال ہوگیا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔ندیم افضل چن سمیت پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے پانی کے مسئلے پر وزیراعظم کے سامنے 4،5 سوالات اٹھائے تھے جن میں سے صرف ایک کا جواب آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے پہلا سوال وزیراعظم سے کیا تھا کہ ارسا ایکٹ میں لکھا ہے جب بھی پانی کا کوئی مسئلہ سامنے آئے گا تو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس بلایا جائے گا، حکومت کو آئے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر مشترکہ مفادات کونسل کا ایک بھی اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا۔انہوں نے کہا کہ بہت شور ہوتا ہے کہ صدر پاکستان نے منظوری دے دی، میں نے سوال اٹھایا تھا کہ صدر پاکستان دو چیزوں کی منظوری دیتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کوئی قانون منظور کرے یا حکومت انہیں کوئی آرڈیننس بھیجتی ہے۔چوہدری منظور نے کہا کہ رانا ثنااللہ نے گزشتہ روز اس سوال کا جواب دیا ہے کہ نہ تو یہ منصوبہ ایکنک نے منظور کیا ہے، نہ مشترکہ مفادات کونسل نے منظور کیا ہے اور نہ ہی صدر پاکستان نے اس کی منظوری دی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صدر پاکستان کے پاس کسی بھی انتظامی کام کی منظوری دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ غریب کسانوں کا پانی چھین کر کارپوریٹ سیکٹر پر لگانا چاہ رہے ہیں، تمام آبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ ناممکن ہے، عام نہر سے 7 سے 14 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑجاتا ہے جبکہ اس نہر سے 30 سے 40 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا، آپ اگر اسپرنکل یا ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے جدید فارمنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ پانی سے نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سے نوزل بند ہوجائیں گے۔انہوںنے کہاکہ جدید فارمنگ کے لیے نہر کے بجائے بڑے بڑے تالاب بنانے ہوں گے، ڈی سلٹنگ کے لیے پانی کھڑا کرنا پڑے گا، وہاں کے موسم میں 3، 4 دن کھڑے رہنے والے پانی میں کائی جم جائے گی، جب کائی جمے گی تو وہ بھی نوزل بند کردے گی۔رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سیلاب کا پانی دیں گے، سیلاب تو جولائی، اگست اور ستمبر میں دو سے تین مہینے تک ہوتا ہے، باقی 9 ماہ آپ کیا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ریورس انجینئرنگ ہورہی ہے، دنیا بھر میں نہر جہاں سے نکلتی ہے وہاں سے تعمیر شروع ہوتی ہے، انہوں نے چولستان سے تعمیر شروع کی ہے۔چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال کیا تھا مگر ابھی تک جواب نہیں آیا کہ کس نہر کا پانی بند کرکے چولستان کینال کو دیں گے؟انہوں نے کہا کہ ارسا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کو پانی کی 43 فیصد کمی کا سامنا ہے، پنجاب میں پینے کا 80 سے 90 فیصد پانی زیرزمین سے آتا ہے جبکہ سندھ کا یہ مسئلہ ہے کہ وہاں پینے 80 سے 90 فیصد پانی دریا اور جھیلوں سے آتا ہے، یہ ان کی حساسیت ہے اور اس مسئلے کو کسی فارمولے کے تحت نہیں انسانیت کی بنیاد پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہاکہ پنجاب حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پنجاب کے کسانوں کے ساتھ جو ظلم کرنے جارہی ہے، پیپلزپارٹی اس پر تمام متاثرہ اضلاع کے مظلوم کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے، اس پانی کے مسئلے پر کسانوں کے ساتھ جہاں مظاہرے کرنے پڑے کریں گے۔اس موقع پر پیپلزپارٹی کے سیکریٹری اطلاعات ندیم افضل چن نے پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ریاست کو مضبوط کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، اس منصوبے میں آپ کی بدنیتی شامل ہے، انہیں چولستان اور ریگستان سے کوئی پیار نہیں ہے نہ یہ کاشتکاروں، ہاریوں اور پڑھے لکھے کسانوں کو زمینیں دینا چاہتے ہیں۔ندیم افضل چن نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو پنجاب کے وارث سمجھتے ہیں مگر یہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کے وارث تو ہوسکتے ہیں، لیکن یہ پنجاب کے وارث نہیں ہیں، یہ بتادیں کہ انہوں نے پنجاب کے کسی ایک کاشتکار کو بھی ایک ایکڑ زرعی زمین دی ہو، اگر آپ کسی سرمایہ دار یا کسی بیورو کریٹ کو زمین دے رہے ہیں تو یہ پنجاب کا مقدمہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کا وارث محکمہ آبپاشی ہے، اس کے ریسٹ ہاؤس کس نے بیچے؟ کیونکہ آپ 40، 50 سال حکمران رہے ہیں، یہ ریسٹ ہاؤس مراد علی شاہ نے نہیں بیچے جسے آپ طعنہ دے رہے ہیں نہ پیپلزپارٹی نے بیچے، کیا وارث زمینیں بیچتے ہیں یا جائیداد بڑھاتے ہیں؟ آپ خریدار ہوسکتے ہیں، وارث نہیں ہوسکتے، آپ بیچنے والے ہوسکتے ہیں۔رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) غریبوں کی ایک سہولت ہوا کرتی تھی، آپ نے پنجاب میں حکمرانی کی اور وہ بس بیچ دی، اب آپ سبسڈائزڈ میٹرو، سبسڈائزڈ پیلی بس، نیلی بس چلارہے ہیں، اربوں کی گاڑیاں بیچ دیں اور اب پھر عوام کے پیسے سبسڈائزڈ ٹرانسپورٹ چلا رہے ہیں، آپ کی وہ پالیسی ٹھیک تھی یا یہ پالیسی ٹھیک ہے؟ندیم افضل چن نے کہا کہ کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، ہم آپ کے اتحادی نہیں، اس نظام، ملک اور آئین کے اتحادی ہیں، ہم پارلیمانی نظام کے اتحادی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ نے بنیادی صحت کے مراکز پر اربوں روپے لگانے کے بعد انہیں پرائیویٹائز کردیا، غریب کا بچہ نجی اسکولوں میں نہیں پڑھ سکتا، وہ سرکاری اسکولوں میں پڑھتا تھا، آپ نے آج سرکاری اسکول بیچنا شروع کردیے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا وارث اسکول، ہسپتال، آبپاشی کی زمینیں اور اپنی ٹرانسپورٹ بیچتا ہے؟ اپنے گھر کے برتن بیچنے والا وارث نہیں ہوتا، وہ ڈنگ ٹپاؤ ٹھگ ہوتا ہے، ہم حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں،کینالز کے مسئلے پر صوبوں کو آپس میں نہ لڑائیں۔