جب بات اپوزیشن کی ہو تو آئین و قانون یاد آ جاتا ہے: سینیٹر منظور کاکڑ
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
---فائل فوٹو
سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے کہا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے حالات سب کے سامنے ہیں۔
سینیٹ کے اجلاس کے دوران ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ محسن عزیز نے بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے متعلق بل پیش کیا تھا، آپ اگر اس وقت بھی آئین و قانون کے مطابق کارروائی کرتے تو سمجھ آتی، جب بات اپوزیشن کی ہوتی ہے تو آپ کو آئین و قانون یاد آجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب بات آپ پر آتی ہے تو آپ کسی آئین و قانون کو یاد نہیں رکھتے، سینیٹر عون عباس بپی کو گرفتار کیا گیا، میں اس پر بات کرنا چاہتا تھا، تمام سینیٹر یہاں عزت کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور سینیٹر منظور کاکڑ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان کو بدنام اور کمزور کر رہی ہے۔
سینیٹر منظور کاکڑ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا رکن ہو تو ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں، یہ ایوان سب کے لیے برابر ہے، ہم حکومت میں ہیں مگر حکومت کا یہ رویہ ٹھیک نہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے بھی لوگ ہوں گے جن کے بڑے گناہ ہوں گے مگر ادھر کوئی نہیں دیکھے گا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن
ملتان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے، پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام جنوبی پنجاب کے ملحقہ دینی مدارس کا عظیم الشان اجتماع خدماتِ تحفظِ مدارسِ دینیہ کنونشن کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے چار ہزار سے زائد مدارس و جامعات کے مہتممین اور ذمہ داران نے شرکت کی۔ کنونشن میں کہا گیا کہ مدارس کے خلاف ہتھکنڈے بند کریں ورنہ کفن پہن کر اسلام آباد کا رخ کرلیں گے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے لئے پنجاب والے اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم سڑکوں پر آکر اسلام آباد کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانا ہے۔ لیکن وفاق المدارس اور جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کو امن و استحکام کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ان اداروں سے خائف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں ایسے ماہرینِ شریعت نہیں دیکھنا چاہتیں جو شریعت کے مطابق قانون سازی کر سکیں۔ انہوں نے حقوقِ نسواں، نکاح کی عمر، گھریلو تشدد، اور وقف قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بیرونی دباو کے نتیجے میں بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت پنجاب کے آئمہ کرام کو دیے جانے والے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقوم ضمیر خریدنے کی کوشش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔