Islam Times:
2025-07-27@03:44:40 GMT

30واں یومِ شہادت، ڈاکٹر صاحب ہمیں معاف کرنا

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

30واں یومِ شہادت، ڈاکٹر صاحب ہمیں معاف کرنا

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب، بے شک کچھ کوتاہیاں، سُستیاں، نالائقیاں بھی سرزد ہوئیں، کچھ سازشوں کا شکار بھی ہوئے، کچھ مشکلات اور دشواریاں بھی حائل ہوئیں، لیکن بزرگان، برادران اور عزیزان آپ کی وراثت کے تحفظ اور بقا کیلئے اپنی بساط سے بڑھ کر مخلصانہ کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ بس آپ خدا کے حضور انکی کامیابی کیلئے دعا کرنا۔ ڈاکٹر صاحب ایک بار پھر پوری شرمندگی سے اعتراف کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ہم شرمندہ ہیں، ڈاکٹر صاحب ہمیں معاف کرنا۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر

ڈاکٹر صاحب
30 برس بیت گئے
اور آپ کے بغیر بیت گئے
ڈاکٹر صاحب
لگتا ہے کہ فراز نے سچ ہی کہا تھا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اور شاید یہ بھی سچ کہا تھا کسی نے کہ
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی

ڈاکٹر صاحب
بہت سچ ہے کہ آپ کے نظریاتی وارث کہ
جنہیں آپ نے اپنی آفاقی و ملکوتی وصیت میں یاد رکھا تھا
وہ تمام تر مشکلات، رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود
آپ کی سوچ اور آپ کے افکار کے راستے کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں
ڈاکٹر صاحب
آپ کے ان بہت ہی عزیز فرزندان نے آپ کی وراثت یعنی آپ کے نظریئے پر ایک لمحے کے لیے بھی نہ کسی مصلحت سے کام لیا، نہ کبھی کوئی لچک دکھائی اور نہ ہی کبھی پیچھے ہٹے

ڈاکٹر صاحب
ان جوانوں نے مردہ باد امریکہ کے نعرے کو آپ کے نام کے ساتھ کچھ اس طرح زندہ رکھا کہ آج پوری قوم اس نعرے میں آپ کی پاکیزہ روح کے ساتھ ہم آواز ہوچکی ہے
ڈاکٹر صاحب
آپ کے کچھ مخلص رفقاء تو کچھ محلاتی سازشوں کے نتیجے میں ملک سے ہجرت پر مجبور کر دیئے گئے ہیں
کچھ راہ سُرخ پر چلتے ہوئے آپ کے پاس پہنچ چکے ہیں
ڈاکٹر صاحب
کچھ ابھی تک عہدِ وفا پر یوں باقی ہیں کہ اپنی سفید ریش، سفید بالوں، کمزور جسموں کے ساتھ اپنی دوسری یا تیسری نسل کا ہاتھ پکڑے اسی راستے پر گامزن ہیں کہ جس راستے پر آپ انہیں چھوڑ آئے تھے

ڈاکٹر صاحب
کچھ جوان بھی ہیں کہ جنہوں نے شاید آپ کو دیکھا تو نہیں، آپ کے ساتھ کام تو نہیں کیا، لیکن آپ کے ملکوتی کردار سے متاثر ہو کر آپ کے افکار اور نظریات کو درک کر لیا اور پھر آپ کے راستے پر اسی طرح چل رہے ہیں، جیسے آپ خود انہیں چلتا چھوڑ آئے ہوں
ڈاکٹر صاحب
نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ خبریں آپ تک پہنچانا بہت ضروری ہیں
ڈاکٹر صاحب
یہ بتاتے ہوئے شرمندہ ہوں کہ آپ کی تنظیم کچھ تھوڑی سُکڑ سی گئی ہے
ڈاکٹر صاحب
تنظیم کا ترجمان مجلہ اب ہارڈ کاپی کی بجائے Pdf کی شکل میں شائع ہو رہا ہے

ڈاکٹر صاحب
زیادہ تر عزیزان تنظیم میں آتے ہیں، اپنا دورانیہ گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، بہت کم ایسے ہیں کہ جن میں تنظیم آتی ہے
ڈاکٹر صاحب
ایک سچ یہ بھی ہے کہ وہ دوست اور بزرگان کہ جنہیں ہم سینیئرَ یا سابقین کہتے ہیں، ان میں سے بھاری اکثریت اپنے فرزندان کو تنظیم کے ساتھ منسلک کرنے سے ہچکچاتے ہیں
ڈاکٹر صاحب
تنظیم کا مرکزی کنونشن کچھ پاکیزہ نما سازشوں کے نتیجے میں پہلے جامعہ سے آپ کے مرقد پر منتقل ہوا، پھر ایک اور جامعہ بلکہ جامعہ کے ساتھ ملحقہ کھیتوں میں گیا اور اب لاہور سے اسلام آباد آگیا

ڈاکٹر صاحب
اس سب کچھ کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ آپ کے روحانی فرزندان آپ کی وراثت، یعنی آپ کے افکار، آپ کے نظریات اور آپ کی تنظیم کی بقاء اور مضبوطی اور خود مختاری کے لیے کوشاں ہیں
مرکزی دفتر کی انتہائی نفاست کے ساتھ تزئین و آرائش کرکے ایک انتہائی خوبصورت اور مثالی قسم کا مرکزی دفتر بنا دیا گیا ہے
لاہور میں ایک وسیع قطعہ اراضی خرید کر تنظیم کے پروگراموں اور مستقبل کو دوسروں کا دستِ نگر بننے سے محفوظ کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں

ڈاکٹر صاحب
بے شک کچھ کوتاہیاں، سُستیاں، نالائقیاں  بھی سرزد ہوئیں، کچھ سازشوں کا شکار بھی ہوئے، کچھ مشکلات اور دشواریاں بھی حائل ہوئیں، لیکن بزرگان، برادران اور عزیزان آپ کی وراثت کے تحفظ اور بقا کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر مخلصانہ کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ بس آپ خدا کے حضور ان کی کامیابی کے لیے دعا کرنا۔
ڈاکٹر صاحب ایک بار پھر پوری شرمندگی سے اعتراف کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ہم شرمندہ ہیں
ڈاکٹر صاحب ہمیں معاف کرنا

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ہیں ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی وراثت رہے ہیں کے ساتھ کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)

اسلام ٹائمز: چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ انکا دین، انکا مسلک اور انکا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ظالم اور جابر کی پرستش بھی کچھ لوگوں کا مذہب ہے۔ کچھ کے بقول منصبِ اقتدار پر زبردستی قابض ہونے والا غاصب حکمران بھی ظلِّ الٰہی بن جاتا ہے۔ اس کی تعظیم واجب اور اس کی اطاعت ثواب کا درجہ جبکہ اس کی مخالفت معصیت و گناہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ ایک طرف بہت سارے لوگ ظالموں کو مقدس ثابت کرنے کیلئے تقاریر اور کتابوں کے انبار لگا رہے ہیں اور دوسری طرف ہر دور میں ظالموں کے تقدس کی نفی کرنے والے بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ انسان ہوں یا الفاظ، جو بھی ظالموں کی اندھی پرستش کے بجائے عقل، عدل، منطق اور شعور کی خاطر کام آیا، وہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔ عظیم اہداف کیلئے استعمال ہونے والی تحریریں بھی عظیم انسانوں کی طرح زندہ رہتی ہیں۔ خورشید احمد چوہان ایڈووکیٹ صاحب کی وصیّت بعنوان "الہیٰ خزانہ" بھی ایسی ہی ایک نادر تحریر ہے۔ وہ 1944ء میں پیدا ہوئے اور 2006ء میں انہوں نے یہ وصیت نامہ مرتب کیا۔ ان کی یہ وصیّت ایک نہایت اہم خزانے کے متعلق ہے اور اسی لئے اس کتاب کا نام بھی انہوں نے "الہیٰ خزانہ" رکھا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ وصیّت نامہ ان کی زندگی کے سماجی مشاہدات اور فکری تجربات کی قلمی صورت ہے۔

محترم  وصیّت نگار نے غوروفکر اور تدبّر کے ساتھ اپنے قلب و ضمیر کا عرق نچوڑ کر ان 541 صفحات میں پیش کر دیا ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کے نزدیک  غور و فکر کے بغیر نہ تو کوئی خزانہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی حفاظت ممکن ہے۔ میں چند دنوں سے اس کتاب کے سحر میں مبتلا ہوں، یہ کتاب جہاں اپنی زبان و بیان کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے، وہیں محققانہ مزاج اور منصفانہ رویّہ رکھنے والوں کے لیے بھی ایک انمول تحقیقی خزانہ ہے۔ چوہان صاحب کا اندازِ نگارش ہمارے ہاں کی وصیّت ناموں کی مروّجہ روایت سے بالکل ہٹ کر ہے۔ عموماً وصیتیں جن کے لیے ہوتی ہیں، انہی کے کام کی ہوتی ہیں اور وہی انہیں محفوظ رکھتے ہیں، لیکن یہ وصیت ان سب سے مختلف ہے۔

مجھے اس وصیت نامے پر ابھی بہت کچھ لکھنا ہے، لیکن فی الحال یہ عرض کافی ہے کہ میں کتاب کی تزئین و آرائش یا اس کی سلیس و دلکش زبان پر تبصرہ نہیں کر رہا، نہ ہی مصنف کی ذات، دینداری، یا مسلک سے کوئی غرض رکھتا ہوں۔ میں تو بین السطور جھانکنے کا عادی ہوں۔ بین السطور محتویٰ کے مطابق مصنّف کو  ظالم لوگ سخت ناپسند ہیں اور شاید یہ خامی ہر انسان کے بچپن میں پائی جاتی ہو۔ کتابوں کی دنیا میں مجھے عہدِ کہن سے لے کر آج تک، کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو ظلم و ظالم کو برا کہے بغیر کسی عظیم منصب پر فائز ہوا ہو۔ گویا ظلم سے نفرت اور ظالم کے تقدس کا انکار، انسانی عقل کی معراج کا پہلا زینہ ہے۔ شریعت کی ابتدا بھی "لا الہ" سے ہوتی ہے اور عرفان و سلوک میں سالک کی یہی پہلی منزل ہے۔ "لا" کہنا آسان نہیں؛ اس ایک حرف میں ہزاروں خداؤں اور ظالموں سے انکار پوشیدہ ہوتا ہے۔

اس وصیّت نامے نے مجھے میرا بچپن لوٹا دیا ہے۔ مجھے بچپن میں خدا اس لیے پسند آیا تھا کہ وہ ظالموں سے نفرت کرتا تھا۔ آسمان پر اُڑتے سفید بادلوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا، جیسے حق و باطل کے لشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں۔ آج بھی میرے نزدیک وہ بچپن کا سادہ اور شفاف تصورِ خدا، تمام فلسفوں پر بھاری ہے۔ ہر دور میں اس  طرح کے کئی لوگ اپنے اسی بے داغ بچپن کے ساتھ بڑے ہو جاتے ہیں اور پوری عمر اپنے تصور، وہم و گمان اور خواب و خیال میں ظالموں سے لڑتے رہتے ہیں۔ چوہان صاحب کا یہ وصیت نامہ سالکینِ راہِ خدا کے اسی شفاف مسلک کی نشان دہی کرتا ہے۔ جیسا کہ صفحہ 50 پر انہوں نے لکھا ہے کہ “بچے کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ وہ ظلم سے نفرت کرتا ہے اور مظلوم سے پیار کرتا ہے۔

خداوند متعال نے مجھ میں یہ خصلت کچھ زیادہ عطا فرمائی تھی کہ میں جب بھی کسی پر ظلم ہوتا دیکھتا (خواہ اپنا و یا بیگانہ ہو، اس کے مقابلہ میں ظالم خواہ کس قدر طاقتور اونچے نصیب والا معزز (Elite) اور خوبصورت گورا چٹا ہی کیوں نہ ہو اور اپنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو) میرا خون کھولنا شروع ہو جاتا۔ رنگ متغیر ہو جاتا اور میں بالکل پکا کا میٹر (Meter) ہو جاتا اور فور ظالم سے مکمل طور پر مظلوم کے حق میں ٹکرا جاتا۔ مجھے کوئی بلکہ قطعاً خوف نہ ہوتا کہ ظالم مجھے بھی مظلوم کے ساتھ پیس کر رکھ دے گا، میں پرائی آگ میں کود پڑتا۔” چوہان صاحب کا یہ احساس دراصل انسانی تاریخ کا مجموعی شعور ہے۔ یہ وہ آواز ہے، جو ہر انسان کے ضمیر اور فطرت کی گہرائی سے ابھرتی ہے کہ اگر مظلوم کے مقابلے میں خدا بھی کھڑا ہو تو اس کا بھی انکار کر دو، باقی شخصیات اور بزرگ تو دور کی بات ہیں۔

ایسے مزاج کے لوگوں کے نزدیک ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا انسانیت کی گمشدہ میراث ہے اور یہی حقیقی سیروسلوک کا پہلا قدم۔ ظلم کے تقدس کا تصور فرعونی تہذیب سے بھی پہلے کا ہے اور آج بھی امتِ مسلمہ کے ایک بڑے حصے میں زندہ ہے۔ نہ سوچنے والی اکثریت آج قرآن مجید کو حفظ کرنے، چھاپنے اور رٹنے کے ساتھ ساتھ  ظالموں کے سامنے سجدہ ریز بھی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  وہ الہیٰ خزانہ کہاں گیا، جو قرآن کے ذریعے انسانوں کو بیدار کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔؟ کیا صاحبِ قرآنﷺ نے اس خزانے کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تھی۔؟

چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ ان کا دین، ان کا مسلک اور ان کا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • رائے عامہ
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • سرینگر میں ٹریبونل کی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی معاملے کی سماعت یکم اگست سے ہوگی
  • تنازعات کا حل: اسلامی تعاون کی تنظیم کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش
  • پریس کانفرنس کرنیوالوں کو معاف کرنا انصاف کے دوہرے معیار کی واضح مثال، اسد قیصر 
  • نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مابین اشتراک پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
  • تمام سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ہمیں ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا ہے؛ محسن نقوی
  • علم ہی نہیں تھا کہ شاہ رخ خان کے ساتھ پرفارم کرنا ہے، ہمایوں سعید نے یادگار واقعہ سنا دیا
  • کرکٹ کی بہتری کے لیے ٹھوس اور مؤثر فیصلے کرنا ہوں گے: محسن نقوی
  • چین کی عالمی تجارتی تنظیم میں یکطرفہ ٹیرف اقدامات کی مخالفت کی اپیل