چترال کا پرامن گاؤں جہاں چیونٹی بھی محفوظ، مگر بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل کیسےہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال میں شندور کے قریب ایک دورافتادہ گاؤں میں شیراز نامی 12 سالہ لڑکے کے قتل کے الزام میں مقتول کے بھائی کو گرفتار کیا ہے، جو قتل کے واقعے کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کررہے تھے۔
اپر چترال پولیس اور مقامی رہنماؤں کے مطابق اپر چترال میں لاسپور کے ایک چھوٹے گاؤں رامن میں ایک ہفتہ قبل 12 سالہ لڑکے کی لاش ملی تھی، گاؤں کی تاریخ میں قتل کے اس پہلے واقعہ نے پورے گاوں کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔
پولیس کو بچے کی گمشدگی کی رپورٹ ملیڈسٹرکٹ پولیس افسر اپر چترال عتیق شاہ نے وی نیوز کو قتل کیس میں پیش رفت اور مبینہ قاتل کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وقوعہ شندور کے قریب ایک دورافتادہ گاؤں میں پیش آیا، جہاں پولیس کو ابتدا میں بچے کے گمشدگی رپورٹ ملی تھی۔
پولیس کے مطابق گمشدگی کی اطلاع کے اگلے روز ہی گھر کے قریب سے بچے کی لاش مل گئی، رامن گاؤں کے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ مقتول کے دکاندار والد نے صبح گھر سے نکلتے ہوئے اپنے مقتول بیٹے کو دکان پر آنے کا کہا۔
تاہم جب شام واپس آکر بیوی نے پوچھنے پر پتا چلا کہ ان کے جانے کے فوراً بعد ہی بیٹا بھی دکان کے لیے نکل گیا تھا، اس انکشاف کے بعد گم شدہ بچے کی تلاش شروع کردی گئی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ ‘کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ بچہ قتل بھی ہوسکتا ہے، سب کا خیال تھا کہ کسی رشتہ دار کے گھر چلا گیا ہوگا۔ ‘
لاش گھر کے قریب ملیڈسٹرکٹ پولیس افسر نے بتایا کہ بچے کی لاش گھر کے قریب سے ملی، جسے جوتے کے تسمے سے پھانسی دے کر قتل کیا گیا تھا، انہوں نے بتایا کہ واقعے کے بعد پورا علاقہ سوگوار ہوگیا کیونکہ گاؤں کی تاریخ میں قتل کی کوئی واردات نہیں ہوئی تھی۔
ڈی پی او عتیق شاہ نے بتایا کہ ابتدائی طور پر اس واقعے کو خودکشی کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی اور اہل خانہ نے پولیس کے ساتھ کچھ خاص تعاون بھی نہیں کیا، انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدائی رپورٹ میں پولیس نے خودکشی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے تفیش جاری رکھی۔
جوتے کے تسمے سے ملزم تک پہنچ گئےڈی پی او عتیق شاہ نے بتایا کہ مقتول بچے کو جوتے کا تسمہ گلے میں ڈال کر قتل کیا گیا تھا جبکہ چہرے پر بھی زخم کے نشانات تھے، انہوں نے بتایا کہ واقعے کی سی سی ٹی وی یا دیگر شواہد اور عینی شاہد نہ ہونے کے باعث ملزم کی گرفتاری میں وقت لگا۔
میڈیکل رپورٹ اور پولیس تفتیش کے بعد ہی مشتبہ ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی، قتل کیس کی تفتیش کرنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ مقتول کا سوتیلا بھائی بھی پولیس سے قاتل کی گرفتاری میں تعاون کی اپیل کر رہا تھا۔
پولیس کے مطابق مقتول کے سوتیلے بھائی کے بیانات میں تضاد تھا جبکہ جس تسمے سے قتل کیا گیا تھا اس کا دوسرا حصہ ان کے گھر سے ملا، جس کی مدد سے ملزم تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔
پورا گاؤں سوگوار12 سالہ بچے کے قتل کے بعد پورا گاؤں سوگوار ہے اور ملزم کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، گاؤں نے ایک عمر رسیدہ باسی نے بتایا کہ قتل کے افسوناک واقعے کے بعد سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوئی ہیں۔
’ہم بہت پرامن لوگ ہیں، قدم بھی پھونک کر رکھتے ہیں کہ کہیں چونٹی قدموں کے نیچے نہ آجائے، ہم انسان کے قتل کا سوچ بھی نہیں سکتے، پتا نہیں بڑا بھائی کیسے بے رحم ہوگیا کہ اپنے ہی چھوٹے بھائی کو پھانسی دے کر قتل کردیا۔‘
ملزم قاتل وراثت کے معاملے پر ناراض تھا، پولیساپر چترال پولیس کے مطابق 12سالہ بچے کے قتل کا واقعہ خاندانی جائیداد کی تقسیم سے جڑے معمولی اختلاف پر پیش آیا، پولیس نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں جو بات سامنے آئی ہے اس میں ملزم جائیداد کی تقسیم میں چھوٹے سوتیلے بھائی کو زیادہ حصہ ملنے کا الزام لگاتا تھا اور اس پر ناراض تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مقتول بچے کی ماں نے سوتیلے بیٹے کیخلاف شک کا اظہار کیا تھا، پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ملزم نے تقسیم کے دوران مقتول کو زیادہ درخت دینے اور دکان بھی اس کے نام کرنے پر ناراض ہوکر انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے سوتیلے بھائی کو قتل کرکے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش تاکہ جائداد انہیں ملے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے جبکہ لاسپور سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی سمیر اللہ شاد نے بتایا کہ گاؤں میں اس سے قبل خودکشی اور دیگر واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن قتل کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اپر چترال پولیس چترال چیونٹی سمیر اللہ شاد سوگوار شندور قتل گاؤں نوجوان صحافی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پولیس چترال سمیر اللہ شاد سوگوار قتل گاؤں نوجوان صحافی نے بتایا کہ کی گرفتاری بھائی کو کے مطابق پولیس کے گیا تھا کے قریب قتل کی قتل کے کے بعد کے قتل بچے کی
پڑھیں:
حافظ آباد: شوہر کے سامنے خاتون کے گینگ ریپ میں ملوث تیسرا ملزم بھی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک
پنجاب کے شہر حافظ آباد میں شوہر کے سامنے خاتون کے مبینہ گینگ ریپ میں ملوث تیسرا ملزم بھی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا جب کہ گھناؤنے فعل میں ملوث 2 ملزمان پہلے ہی مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق پنچ پلہ کے قریب پولیس گشت پر تھی کہ ملزم کے ساتھیوں نے پولیس وین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔
گینگ ریپ کا دوسرا ملزم لئیق عرف لئیقی 2 روز قبل مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا تھا۔
پولیس کے مطابق پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لئے کوٹ نانک کے قریب چھاپہ مارا تو انہوں نے پولیس پر فائرنگ کردی، جواب میں پولیس نے بھی اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کی، فائرنگ کے نتیجے میں ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔
حافظ آباد پولیس کے مطابق ملزم کی لاش کو مردہ خانے منتقل کردیا گیا، ملزم لئیق نے اپنے دو ساتھیوں اکرام مانگٹ اور خاور کے ساتھ مل کر خاتون سے اس کے خاوند کے سامنے باری باری جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا تھا۔
حافظ آباد پولیس کے مطابق ملزمان کا چوتھا ساتھی چاند جنسی زیادتی کی وڈیو بناتا رہا، واقعہ ڈیرھ ماہ قبل مانگٹ اونچا کے علاقہ میں ہوا۔ واقعے کا ۔مقدمہ درج ہونے کے بعد چاروں ملزمان فرار ہوگئے تھے۔
گینگ ریپ کیس کا ایک ملزم خاور گزشتہ روز پولیس ریڈ کے دوران مبینہ طور پر اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا، ایک ملزم لئیق آج مبینہ پولیس مقابلہ میں مارا گیا جب کہ اس کے 2 ساتھی ملزمان فرار ہو گئے۔
حافظ آباد پولیس کے مطابق فرار ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
2 جون کو حافظ آباد کے میں درج ہونے والے مبینہ گینگ ریپ کے مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق خاتون کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد ملزمان نے دونوں میاں بیوی سے بھی مبینہ طور پر اسلحہ کے زور پر جنسی عمل کروایا، اس کی بھی ویڈیو بنائی اور فرار ہو گئے۔
مقامی پولیس نے کہا کہ واقعہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے قبل پیش آیا لیکن گینگ ریپ کا شکار خاتون کے شوہر کے جانب سے مقدمے کا اندراج اس وقت کروایا گیا جب ملزمان کی جانب سے مبینہ گینگ ریپ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی۔
مقدمے کے اندراج کے اگلے ہی دن 4 جون بروز بدھ کو مقامی پولیس نے ایک ملزم کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا اور پھر اسی رات ملزم کی پراسرار حالات میں ہلاکت ہوئی۔
سی ٹی ڈی حافظ آباد کے انچارج اعجاز احمد نے کہا تھا کہ ’ملزم کو حراست میں لینے کے بعد دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیم انھیں اپنے ساتھ لیکر جا رہی تھی کہ راستے میں ملزمان نے اپنے ساتھی کو چھڑانے کے لیے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی۔
اس واقعے سے متعلق حافظ آباد کے تھانہ کسوکی میں درج ایف آئی ار میں مدعی مقدمہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ 25 اپریل کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنی بہن کو ملنے کے لیے موٹر سائیکل پرنوشہرہ ورکاں گئے جب کہ گھر واپسی پر شام ہو گئی تھی اور راستے میں ان کی بیوی ایک شوگر مل کے پاس رفع حاجت کے لیے موٹرسائیکل سے اتریں۔
ایف آئی ار کے مطابق اسی اثنا میں ایک شخص نے مدعی مقدمہ سے شام کے وقت اس جگہ پر رکنے کی وجہ پوچھی جس پر انھوں نے بتایا کہ ان کی بیوی رفع حاجت کے لیے گئی ہے تو اسی وجہ سے وہ یہاں پر رکے ہوئے ہیں۔
مدعی مقدمہ کا مزید کہنا تھا کہ اسی دوران میں ملزم کا ایک اور ساتھی بھی وہاں پر آگیا اور اس کے کچھ دیر بعد ہی ملزمان کا تیسرا ساتھی بھی وہاں پہنچ گیا۔
اس واقعے کی ایف آئی آر میں مدعی مقدمہ نے دعویٰ کیا کہ ملزمان ان دونوں میاں بیوی کو کچھ فاصلے پر واقعہ قبرستان کے پاس لے گئے جہاں پر ان مسلح ملزمان نے دونوں میاں بیوی کو برہنہ کر دیا۔
مدعی مقدمہ نے بتایا کہ ملزمان نے (مدعی مقدمہ) کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی بیوی کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا جبکہ مدعی مقدمہ ایسا نہ کرنے کے حوالے سے ملزمان کی منتیں بھی کرتے رہے لیکن ملزمان باز نہ آئے اور ان کی بیوی کو ریپ کا نشانہ بناتے رہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان جب اس خاتون کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنا رہے تھے تو ان کا ایک ساتھی اس واقعے کی ویڈیو بھی بنا رہا تھا۔