غزہ فلسطینی عوام کا ہے، چین نے ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کا منصوبہ مسترد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
بیجنگ: چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے مصر اور عرب ممالک کے امن منصوبے کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ "غزہ فلسطینی عوام کا ہے اور یہ فلسطینی سرزمین کا ناقابل تقسیم حصہ ہے۔"
چینی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ غزہ کی حیثیت میں کسی بھی زبردستی کی گئی تبدیلی سے خطے میں مزید بدامنی اور انتشار پھیلے گا۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کے حقوق کا احترام کیا جائے اور غزہ میں مستقل جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے۔
وانگ ژی نے ایک بار پھر فلسطینی ریاست کے قیام اور دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ یہی مشرق وسطیٰ کے تنازع کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ انہوں نے تمام فلسطینی گروپوں سے اپیل کی کہ وہ "بیجنگ اعلامیے" پر عمل کریں اور اتحاد قائم رکھیں تاکہ فلسطینی کاز کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین ہمیشہ مشرق وسطیٰ کے عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا اور انصاف، امن اور ترقی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔ انہوں نے عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ اگر وہ واقعی غزہ کے عوام کے خیرخواہ ہیں تو انہیں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد میں اضافہ کرنا چاہیے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
فرانس کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان پر امریکا برہم؛ اسرائیل بھی ناراض
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ ان کا ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں فلسطین کو باضابطہ طور خود مختار ریاست تسلیم کرلے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ایک خط لکھ کر فرانس کے اس ارادے سے آگاہ کیا ہے۔
اپنے خط میں صدر ایمانوئیل میکرون نے لکھا کہ فرانس مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور منصفانہ امن کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے گا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے مزید کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر میں اس کا باضابطہ اعلان کریں گے۔
خیال رہے کہ فرانس اس وقت یورپ میں یہودیوں اور مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک ہے اور پہلی بڑی مغربی طاقت ہوگی جو فلسطین کو تسلیم کرے گی۔
فرانس نے اس اعلان کا وقت جنرل اسمبلی کا آئندہ اجلاس اس لیے منتخب کیا ہے تاکہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر دو ریاستی حل کے لیے نیا سفارتی فریم ورک پیش کرسکے۔
تاہم فرانس کے اس دلیرانہ فیصلے نے اسرائیل اور امریکا دونوں کو برہم کر دیا ہے اور دونوں ممالک نے شدید ردعمل دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اسے "دہشت گردی پر انعام" قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں فلسطینی ریاست اسرائیل کے خاتمے کی بنیاد بن سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے بھی فرانس کے فلسطین کو ایک خودمختار ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے کو "شرمناک" قرار دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فرانس کے اس اقدام کو حماس کے لیے پروہیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس فیصلے کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرانس کا یہ اقدام اُن اسرائیلی متاثرین کی توہین ہے جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں مارے گئے تھے۔
جس پر فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نویل بارو نے واضح کیا کہ ہم حماس کی مخالفت کرتے ہوئے فلسطین کو تسلیم کر رہا ہے کیونکہ حماس دو ریاستی حل کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
ادھر سعودی عرب نے فرانسیسی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے اسی طرح کے "مثبت اقدامات" اٹھائیں۔
سعودی وزارت خارجہ کے مطابق یہ قدم امن کے لیے حمایت اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی تائید ہے۔
اسپین، جو پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکا ہے، نے بھی میکرون کے اعلان کو سراہا۔
ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے کہا کہ دو ریاستی حل ہی واحد حل ہے اور اس میں فرانس کا شامل ہونا خوش آئند ہے۔
کینیڈا نے بھی اسرائیل پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ غزہ کی صورتحال میں بہتری لائے اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں ختم کرے۔
وزیر اعظم مارک کارنی نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
واضح رہے کہ امریکا پہلے ہی ان ممالک کو تنبیہ کر چکا ہے جو یکطرفہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکا نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے اقدامات امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف ہو سکتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے نائب صدر حسین الشیخ نے فرانس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ عالمی قوانین کی حمایت اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی توثیق ہے۔