Daily Ausaf:
2025-07-26@10:48:41 GMT

ڈنکی، خوابوں ، سرابوں اور موت کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

تین دہائیاں قبل ’’ڈنکی‘‘محض ایک جانور کا انگریزی نام سمجھا جاتا تھا ۔ پھر اچانک یہ لفظ کسی پر اسرار مہم کے لئے استعمال ہونے لگا ۔ جوں جوں اس نے زور پکڑا تو ہر خاص و عام کو اس کی پہچان ہو گئی۔ غیر قانونی طریقے سے، چھپ چھپا کر، جان جوکھم میں ڈال کر کسی دوسرے ملک میں داخل ہونے کو ڈنکی لگانا کہتے ہیں۔ اس کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا ۔جب آسانی سے لوگ یورپ پہنچنے لگے تو اس طرز ہجرت کا رحجان اور مقبولیت بڑھنے لگی۔ جب گائوں کے نوجوانوں نے دیکھا کہ ایک شخص باہر جا کر چند سالوں میں عالی شان گھر بنا لیتا ہے، قیمتی گاڑی خرید لیتا ہے، تو سب اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان کے دل میں بھی باہر جانے کی خواہش تڑپنے لگی بس کسی طرح یورپ پہنچنا ہے، چاہے جان پر ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔ یہ رحجان زیادہ تر وسطیٰ پنجاب کے اضلاع گجرات، منڈی بہائو الدین، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے نوجوانوں تک محدود رہا ۔ دلچسپ امر یہ ہے مذکورہ اضلاع کسی طور بھی پسماندہ اور نہ غریب ہیں ۔ زراعت، صنعت اور کاروبار کے کئی مواقع یہاں موجود ہیں ۔دیگر پسماندہ علاقوں کی نسبت یہاں بیروزگاری بھی کم ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے نوجوان ’’باہر‘‘ جانے کے جنون میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وجہ صرف غم روزگار نہیں، بلکہ یورپ کا پر کشش طرزِ زندگی، آزادی اور بہتر مستقبل کی خواہش ہے۔ وہ سمجھتے ہیں یورپ پہنچ کر ہی ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں۔ یہی امید اور اشتیاق انہی ڈنکی جیسے پر خار اور خطرناک راستے پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔
ڈنکی کا سفر کسی فلمی کہانی سے کم نہیں، مگر اس کہانی کا انجام اکثر بھیانک ہوتا ہے۔ جو لوگ اس سفر پر نکلتے ہیں، وہ پہلے ایک انسانی سمگلر سے رابطہ کرتے ہیں، جو ان سے لاکھوں روپے لیتا ہے ، سبز باغ دکھاتا ہے، یقین دلاتا ہے کہ سفر آسان ہوگا، چند ہی روز میں یورپ پہنچ کر وہ گلچھڑے اڑا رہے ہوں گے۔ مگر جیسے ہی سفر شروع ہوتا ہے تلخ اور بھیانک حقائق کے پرت کھلنے لگتے ہیں ۔خوابوں کے آبگینے ٹوٹنے لگتے ہیں ۔ آرمانوں سے دھواں اور دل سے آہوں اور سسکیوں کی درد ناک صدائیں فلک چاک کرنے لگتی ہیں ۔خواب اک بھیانک حقیقت میں بدل جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ ایران کی سرحد پار کرنا ہوتا ہے جہاں ایجنٹ بھیڑ بکریوں کی طرح درجنوں لوگوں کو ایک ساتھ کسی خچر گاڑی یا چھوٹے ٹرک میں ٹھونس دیتے ہیں۔ گرمی، دم گھٹنے اور خوف کی شدت کے باعث کئی لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں، مگر کوئی رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بعض اوقات ایرانی سیکورٹی فورسز انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیتی ہیں، جہاں کئی کئی مہینے اذیت سہنی پڑتی ہے۔ جو خوش نصیب یہاں سے بچ نکلتے ہیں، وہ ترکی کے پہاڑی علاقوں میں ایجنٹوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔یہ پہاڑی راستے سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ مسافر کئی کئی دن بھوکے پیاسے چلتے رہتے ہیں، تھکن سے نڈھال ہو جاتے ہیں، مگر رکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جو گر جائے، وہ پیچھے رہ جائے۔ بعض اوقات برفانی علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے، اور کئی لوگ شدید سردی کے باعث راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کچھ خوش نصیب ترکی پہنچ جاتے ہیں، مگر یہاں ان کے لیے ایک اور خطرہ انتظار کر رہا ہوتا ہے قبائلی گینگ اور انسانی اسمگلرز۔ یہ گروہ مسافروں کو اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اگر پیسہ نہ ملے تو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، یا کسی اور مافیا کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ ترکی اور لیبیا وہ مقامات ہیں جہاں سے آگے جانے والے یا تو یورپ پہنچ جاتے ہیں، یا پھر سمندر کی بے رحم موجوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ترکی سے یونان کا سفر انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔
ایجنٹ مسافروں کو کسی خفیہ مقام پر رکھتے ہیں، اور موقع ملتے ہی انہیں کشتی میں سوار کروا دیتے ہیں۔ زیادہ تر کشتیوں میں حد سے زیادہ لوگ ٹھونس دیے جاتے ہیں، جنہیں کھانے پینے کا مناسب سامان بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ کئی کئی دن سمندر میں بے یار و مددگار رہنے کے بعد، کچھ کشتیاں یونان پہنچ جاتی ہیں، جبکہ کچھ طوفانی لہروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں، انہیں یا تو یونانی سیکورٹی فورسز پکڑ کر ڈی پورٹ کر دیتی ہیں، یا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ملکوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔لیبیا کا راستہ اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ یہاں کے سمگلرز کسی بھی انسانی جان کی قیمت نہیں سمجھتے۔ مسافروں کو ایک جگہ جمع کر کے ان پر بے رحمانہ تشدد کیا جاتا ہے، ان کے لواحقین کو تاوان کے لیے وڈیو بھیجی جاتی ہے، اور جو رقم نہ دے سکے، اسے جانوروں سے بدتر سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیبیا کے ساحل سے روانہ ہونے والی کشتیاں سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ جب سمندری طوفان آتا ہے، یا کشتی کا انجن خراب ہو جاتا ہے، تو مسافر بے بسی سے موت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ سوال ہمیشہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس المیے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ سب سے پہلے تو والدین، جو خود اپنے بچوں کو غیر قانونی راستوں پر بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب ایک گائوں کا نوجوان یورپ جا کر پیسے کمانے لگتا ہے، تو باقی والدین بھی اسی خواب میں کھو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو ڈنکی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔دوسری بڑی ذمہ داری سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے، جو بیرون ملک جانے والے ہر شخص کو ’’ہیرو‘‘بنا دیتی ہے، چاہے وہ غیر قانونی طریقے سے ہی کیوں نہ گیا ہو۔ معاشرے میں یہ سوچ عام ہو گئی ہے کہ باہر جانے والا شخص کامیاب ہے، چاہے وہ وہاں کتنی ہی مشکل زندگی گزار رہا ہو۔ تیسری ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے، جو انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر رہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اور دیگر اداروں کو چاہیے کہ وہ ان ایجنٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔اگر اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنا ہے، تو سب سے پہلے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔ انہیں بتایا جائے کہ یورپ کوئی جادوئی زمین نہیں، جہاں پیسہ درختوں پر لگتا ہے۔ انہیں اس حقیقت سے روشناس کرانا ہوگا کہ غیر قانونی راستے ان کی زندگی کو دا پر لگا سکتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے پروگرامز متعارف کرائے، جو نوجوانوں کو پاکستان میں ہی بہتر روزگار فراہم کریں۔ جو سرمایہ لوگ ڈنکی کے لئے خرچ کرتے ہیں، اگر وہی کاروبار یا تعلیم پر لگائیں، تو ان کے لیے زیادہ محفوظ اور مستحکم راستے کھل سکتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انسانی سمگلرز کے خلاف سخت کارروائیاں کرنی چاہئیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے ممالک سے تعاون کیا جائے، جہاں پاکستانی غیر قانونی طور پر جانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے۔یورپ کا خواب زندگی سے بڑھ کر نہیں۔ ’’ڈنکی‘‘صرف ایک غیر قانونی سرحد پار کرنا نہیں، بلکہ ایک خودکشی کا راستہ ہے، جو زیادہ تر مسافروں کے لئے ’’خوابوں کے قبرستان‘‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر واقعی ایک بہتر مستقبل چاہیے، تو اس کے لیے قانونی اور محفوظ راستے تلاش کریں، ورنہ یہ راستہ صرف بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہو جاتے ہیں یورپ پہنچ دیتے ہیں کرتے ہیں ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے کے لئے

پڑھیں:

رائے عامہ

جب‘ اس خودنوشت کو پڑھنا شروع کیا۔ تو مصنف‘ رائے ریاض حسین کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے لکھاری ہیں۔ اس کتاب کے ورق پلٹتا گیا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ سادہ لفظوں پر مشتمل ‘ دل پر اثر کرنے والی تحریر۔ اب ایسے گمان ہے کہ برادرم ریاض کو بہت بہتر طریقہ سے جانتا ہوں۔ اپنی زندگی پر متعدد لوگ ‘ لکھتے رہتے ہیں۔ مگر جس ایمانداری اور تہذیب سے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔

وہ بہت کم لوگ نباہ پاتے ہیں۔ دراصل اپنی آپ بیتی کو انصاف سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جید لکھاری‘ دوران تحریر ڈول جاتے ہیں۔ مگر ریاض حسین نے حد درجہ ایمانداری سے اپنی سرکاری اور خاندانی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نکتہ قابل ستائش ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ رائے ریاض مجھ سے کافی سینئر ہیں اور ان سے دم تحریر ‘ کبھی بھی ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر ان کی اور میری زندگی میں کافی قدریںمشترک ہیں۔ تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق‘ اپنی جنم بھومی سے عشق‘ ملک سے شدید محبت اور طاقت کے ایوانوں میں زندگی صرف کرنی۔ کہتا چلوں کہ سرکاری ملازم کے تجربات ‘ اس قدر متنوع اور منفرد ہوتے ہیں‘ کہ اگر آپ نے سرکار کی نوکری نہیں کی ہوئی۔ تو شاید اس کینوس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

کبھی آپ اقتدار کی غلام گردشوں میں حد درجہ اہم ہوتے ہیں۔ اور کبھی اسی دربار میں معتوب قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے متعدد المیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک دور میں آپ کو بہترین افسر قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی بھرپور ستائش ہوتی ہے۔ اور جب اس کے بعد‘ کوئی متضاد بادشاہ ‘ تخت نشین ہوتا ہے۔تو آپ کو نکما ‘ نکھٹو اور خزانے پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ‘ بہت مشکل ہوتے ہیں‘ اور ہر سرکاری غلام‘ ان میں سے گزرتا ہے۔ بات ’’رائے عامہ‘‘ کی ہو رہی تھی۔ دونشستوں میں اول سے آخری صفحے تک ورق گردانی کرلی۔ اس خوبصورت تحریر سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

برادرم حامد میر لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گیا تو رائے صاحب بھی وہاں آئے ۔ میں نے کانفرنس کی آرگنائزر راجیت کور کو بتایا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہے۔ رائے صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ رائے ریاض حسین سرکاری ملازمت سے تو ریٹائر ہو گئے لیکن ان کی پاکستانیت ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ایک سچے انسان کی سچی کہانی ہے۔

مصنف آگے لکھتا ہے۔1993کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے۔پریس سیکریٹری سید انور محمود کے پاس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (PIO) کا چارج بھی تھا۔ اس لیے لاہور وزیراعظم کے ساتھ میں جاتا تھا۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا ء نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔

ایک ویک اینڈ پر صبح سویرے جب ہم اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سیکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے۔ جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ’’جی وہ حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا ہے‘‘۔ میاں صاحب پہلے آگے ہوئے لیکن فوراً واپس ہوئے اور مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میںنے کہا کہ اس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ میاں صاحب نے جب یہ سنا تو آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ’’… امریکا کا ایجنٹ ہے‘‘۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا۔ نہ جانے کس مجبوری کے تحت میاں صاحب نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔

دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دورانیہ میں وہاں کی منظر کشی کمال ہے۔12اکتوبر 1999:دہلی ایئرپورٹ جو کہ لاہورکے بادامی باغ بس اسٹینڈ سے بھی بدتر ہے‘ سے اڑ کر آنے والا مسافر جب لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پھر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آتا ہے تو وہ تقریباً بیہوش ہو جاتا ہے۔

’’بیہوشی‘‘ کے اس سفر کی داستان میں کئی بھارتی دوستوں سے سن چکا ہوں جو پہلی دفعہ پاکستان آتے ہیں اور پھر واپس جا کر پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے قصے سناتے ہوئے ان کے منہ سوکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شیوسینا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ‘ بی جے پی کے رہنما پر اس تجربے کا خوشگوار اثر پڑا ہو گا مگر صدیوں کے تجرے کے بعد میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے بھارت کی سوچ بدل جائے گی یا دل بدل (Change of Heart) جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں تین ہزار سال قبل مسیح پہلے پیدا ہونے والا فلسفی‘ جو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا سے منسلک رہا اور چندر گپت موریہ خاندان کی حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کی‘ چانکیہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

محسن پاکستان ہم شرمندہ ہیں:محسن پاکستان مجھے آپ کا کہوٹہ میں دفتر اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب ایک بہت اہم دوست ملک کی خاص شخصیت وہاں کے دورے پر گئی اور میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا تو آپ کے دفتر کے اردگرد چاروں طرف کمرے میں نے خود دیکھے اور سیکیورٹی تو الامان۔ جب آپ پر نیوکلیئر سنٹری فیوجز بیچنے کا الزام لگا تو میں حیران و پریشان تھا کہ اس قسم کی سیکیورٹی میں آپ کس طرح سنٹری فیوجز نہ صرف وہاں سے باہر بلکہ ملک سے باہر بھیج سکتے ہیں یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو انسان اکیلا جیب میں ڈال کر باہر لے جائے۔

مجھے آج تک آپ کے دفتر کے سامنے چھوٹے سے میوزیم میں رکھا ہوا پتھر یاد ہے۔ جاسوسی کرنے والا پتھر ایک چرواہے کی مدد سے منظر عام پر آیا۔ اس ’’پتھر‘‘ کے اندر سے نکلے ہوئے آلات کسی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے مگر آپ نہایت اطمینان اور حد درجہ طمانیت سے مہمانوں کو اس ’’پتھر‘‘ کی داستان سنا رہے تھے ۔ جو آپ کی جاسوسی پر تعینات کیاگیا تھا اور بالآخر وہ بھی ناکام و نامراد ہوا۔

رائے ریاض حسین نواز ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک میں راٹھور صاحب نے سارا دن گزارا تھا انھیں اور ڈرائیور کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی ایک ریسٹورنٹ پر شہباز شریف نے دو برگر خریدے اور وہ دونوں برگرخود ہی کھا لیے ۔

تاج محل آگرہ واقعی دنیا کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار انسان نے تخلیق کیا ہے ۔ مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ہر طرف گائیں ‘ سور اور بندر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

تاج محل تو بس یوں ہے کہ جیسے کسی نے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔ تاج محل کا نظارہ قلعے کی اس کھڑکی سے بہت دلفریب ہے جہاں سے شاہ جہاں بیٹھ کر نظارہ کیا کرتا تھا۔ دریائے جمنا البتہ سوکھ چکا ہے مگر تاج محل اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ محبت کی ایک یادگار کے طورپر اور ممتاز محل اور شاہ جہاں کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی سرزمین پر جگہ جگہ مسلمانوں کی مہر ثبت ہے۔ دہلی کے اندر‘ اورنگ زیب روڈ‘ شاہ جہاں روڈ اور اکبر روڈ وغیرہ جگہ جگہ مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں۔

یہ کتاب اتنی پرتاثیر ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے!

متعلقہ مضامین

  • اسٹارلنک نیٹ ورک میں فنی خرابی، امریکا و یورپ میں انٹرنیٹ سروس گھنٹوں معطل
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • رائے عامہ
  • جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ
  • آنے والوں دنوں میں 5 اہم تہوار جن کا سب کو انتظار ہے
  • چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا
  • پی ٹی آئی نے اپنے گرفتار کارکنان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • واٹس ایپ گروپس میں فحش مواد دکھا کر بلیک میلنگ، نیشنل سرٹ نے الرٹ جاری