Daily Ausaf:
2025-11-03@17:00:21 GMT

ڈنکی، خوابوں ، سرابوں اور موت کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

تین دہائیاں قبل ’’ڈنکی‘‘محض ایک جانور کا انگریزی نام سمجھا جاتا تھا ۔ پھر اچانک یہ لفظ کسی پر اسرار مہم کے لئے استعمال ہونے لگا ۔ جوں جوں اس نے زور پکڑا تو ہر خاص و عام کو اس کی پہچان ہو گئی۔ غیر قانونی طریقے سے، چھپ چھپا کر، جان جوکھم میں ڈال کر کسی دوسرے ملک میں داخل ہونے کو ڈنکی لگانا کہتے ہیں۔ اس کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا ۔جب آسانی سے لوگ یورپ پہنچنے لگے تو اس طرز ہجرت کا رحجان اور مقبولیت بڑھنے لگی۔ جب گائوں کے نوجوانوں نے دیکھا کہ ایک شخص باہر جا کر چند سالوں میں عالی شان گھر بنا لیتا ہے، قیمتی گاڑی خرید لیتا ہے، تو سب اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان کے دل میں بھی باہر جانے کی خواہش تڑپنے لگی بس کسی طرح یورپ پہنچنا ہے، چاہے جان پر ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔ یہ رحجان زیادہ تر وسطیٰ پنجاب کے اضلاع گجرات، منڈی بہائو الدین، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے نوجوانوں تک محدود رہا ۔ دلچسپ امر یہ ہے مذکورہ اضلاع کسی طور بھی پسماندہ اور نہ غریب ہیں ۔ زراعت، صنعت اور کاروبار کے کئی مواقع یہاں موجود ہیں ۔دیگر پسماندہ علاقوں کی نسبت یہاں بیروزگاری بھی کم ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے نوجوان ’’باہر‘‘ جانے کے جنون میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وجہ صرف غم روزگار نہیں، بلکہ یورپ کا پر کشش طرزِ زندگی، آزادی اور بہتر مستقبل کی خواہش ہے۔ وہ سمجھتے ہیں یورپ پہنچ کر ہی ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں۔ یہی امید اور اشتیاق انہی ڈنکی جیسے پر خار اور خطرناک راستے پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔
ڈنکی کا سفر کسی فلمی کہانی سے کم نہیں، مگر اس کہانی کا انجام اکثر بھیانک ہوتا ہے۔ جو لوگ اس سفر پر نکلتے ہیں، وہ پہلے ایک انسانی سمگلر سے رابطہ کرتے ہیں، جو ان سے لاکھوں روپے لیتا ہے ، سبز باغ دکھاتا ہے، یقین دلاتا ہے کہ سفر آسان ہوگا، چند ہی روز میں یورپ پہنچ کر وہ گلچھڑے اڑا رہے ہوں گے۔ مگر جیسے ہی سفر شروع ہوتا ہے تلخ اور بھیانک حقائق کے پرت کھلنے لگتے ہیں ۔خوابوں کے آبگینے ٹوٹنے لگتے ہیں ۔ آرمانوں سے دھواں اور دل سے آہوں اور سسکیوں کی درد ناک صدائیں فلک چاک کرنے لگتی ہیں ۔خواب اک بھیانک حقیقت میں بدل جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ ایران کی سرحد پار کرنا ہوتا ہے جہاں ایجنٹ بھیڑ بکریوں کی طرح درجنوں لوگوں کو ایک ساتھ کسی خچر گاڑی یا چھوٹے ٹرک میں ٹھونس دیتے ہیں۔ گرمی، دم گھٹنے اور خوف کی شدت کے باعث کئی لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں، مگر کوئی رکنے کا نام نہیں لیتا۔ بعض اوقات ایرانی سیکورٹی فورسز انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیتی ہیں، جہاں کئی کئی مہینے اذیت سہنی پڑتی ہے۔ جو خوش نصیب یہاں سے بچ نکلتے ہیں، وہ ترکی کے پہاڑی علاقوں میں ایجنٹوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔یہ پہاڑی راستے سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ مسافر کئی کئی دن بھوکے پیاسے چلتے رہتے ہیں، تھکن سے نڈھال ہو جاتے ہیں، مگر رکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جو گر جائے، وہ پیچھے رہ جائے۔ بعض اوقات برفانی علاقوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے، اور کئی لوگ شدید سردی کے باعث راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کچھ خوش نصیب ترکی پہنچ جاتے ہیں، مگر یہاں ان کے لیے ایک اور خطرہ انتظار کر رہا ہوتا ہے قبائلی گینگ اور انسانی اسمگلرز۔ یہ گروہ مسافروں کو اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اگر پیسہ نہ ملے تو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، یا کسی اور مافیا کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ ترکی اور لیبیا وہ مقامات ہیں جہاں سے آگے جانے والے یا تو یورپ پہنچ جاتے ہیں، یا پھر سمندر کی بے رحم موجوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ترکی سے یونان کا سفر انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔
ایجنٹ مسافروں کو کسی خفیہ مقام پر رکھتے ہیں، اور موقع ملتے ہی انہیں کشتی میں سوار کروا دیتے ہیں۔ زیادہ تر کشتیوں میں حد سے زیادہ لوگ ٹھونس دیے جاتے ہیں، جنہیں کھانے پینے کا مناسب سامان بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ کئی کئی دن سمندر میں بے یار و مددگار رہنے کے بعد، کچھ کشتیاں یونان پہنچ جاتی ہیں، جبکہ کچھ طوفانی لہروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں، انہیں یا تو یونانی سیکورٹی فورسز پکڑ کر ڈی پورٹ کر دیتی ہیں، یا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ملکوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔لیبیا کا راستہ اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ یہاں کے سمگلرز کسی بھی انسانی جان کی قیمت نہیں سمجھتے۔ مسافروں کو ایک جگہ جمع کر کے ان پر بے رحمانہ تشدد کیا جاتا ہے، ان کے لواحقین کو تاوان کے لیے وڈیو بھیجی جاتی ہے، اور جو رقم نہ دے سکے، اسے جانوروں سے بدتر سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیبیا کے ساحل سے روانہ ہونے والی کشتیاں سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ جب سمندری طوفان آتا ہے، یا کشتی کا انجن خراب ہو جاتا ہے، تو مسافر بے بسی سے موت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ سوال ہمیشہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس المیے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ سب سے پہلے تو والدین، جو خود اپنے بچوں کو غیر قانونی راستوں پر بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب ایک گائوں کا نوجوان یورپ جا کر پیسے کمانے لگتا ہے، تو باقی والدین بھی اسی خواب میں کھو جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو ڈنکی کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔دوسری بڑی ذمہ داری سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے، جو بیرون ملک جانے والے ہر شخص کو ’’ہیرو‘‘بنا دیتی ہے، چاہے وہ غیر قانونی طریقے سے ہی کیوں نہ گیا ہو۔ معاشرے میں یہ سوچ عام ہو گئی ہے کہ باہر جانے والا شخص کامیاب ہے، چاہے وہ وہاں کتنی ہی مشکل زندگی گزار رہا ہو۔ تیسری ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے، جو انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر رہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اور دیگر اداروں کو چاہیے کہ وہ ان ایجنٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔اگر اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنا ہے، تو سب سے پہلے نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔ انہیں بتایا جائے کہ یورپ کوئی جادوئی زمین نہیں، جہاں پیسہ درختوں پر لگتا ہے۔ انہیں اس حقیقت سے روشناس کرانا ہوگا کہ غیر قانونی راستے ان کی زندگی کو دا پر لگا سکتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے پروگرامز متعارف کرائے، جو نوجوانوں کو پاکستان میں ہی بہتر روزگار فراہم کریں۔ جو سرمایہ لوگ ڈنکی کے لئے خرچ کرتے ہیں، اگر وہی کاروبار یا تعلیم پر لگائیں، تو ان کے لیے زیادہ محفوظ اور مستحکم راستے کھل سکتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انسانی سمگلرز کے خلاف سخت کارروائیاں کرنی چاہئیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے ممالک سے تعاون کیا جائے، جہاں پاکستانی غیر قانونی طور پر جانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے۔یورپ کا خواب زندگی سے بڑھ کر نہیں۔ ’’ڈنکی‘‘صرف ایک غیر قانونی سرحد پار کرنا نہیں، بلکہ ایک خودکشی کا راستہ ہے، جو زیادہ تر مسافروں کے لئے ’’خوابوں کے قبرستان‘‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر واقعی ایک بہتر مستقبل چاہیے، تو اس کے لیے قانونی اور محفوظ راستے تلاش کریں، ورنہ یہ راستہ صرف بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہو جاتے ہیں یورپ پہنچ دیتے ہیں کرتے ہیں ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے کے لئے

پڑھیں:

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا

میرا لاہور ایسا تو نہ تھا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں لاہور سے ہوں، اس شہر سے جو دنیا بھر میں زندہ دلوں کے شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے:”جنّے لاہور نئیں ویکھیا، اوہ جمیا نئیں”— جس نے لاہور نہیں دیکھا، گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور صرف ایک شہر نہیں، ایک احساس ہے، ایک ترنگ ہے، ایک دھڑکن ہے جو کبھی نہیں رُکتی۔ یہاں کی زندگی دریا کی طرح رواں دواں ہے، جو دن رات بہتی رہتی ہے، رنگوں، گرمیِ جذبات اور توانائی سے لبریز۔ لاہوری لوگ حیرت انگیز طور پر ہر حالت میں خود کو ڈھالنے اور مطمن رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسرت پاتے ہیں، تہواروں، شادیوں یہاں تک کہ کرکٹ کی کامیابیوں کو بھی بے پناہ جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ وہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ لاہور کے لوگ مہمان نواز، کشادہ دل اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ باغوں، پارکوں اور خوشگوار محفلوں سے محبت کرتے ہیں۔ مالی حیثیت چاہے جیسی بھی ہو، لاہوری لوگ اچھے کھانوں، صاف ستھرے لباس اور کشادہ دلی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔


مگر دل کی گہرائیوں سے ایک دکھ بھری بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ وہ لاہور جس میں میں پلا بڑھا — پھولوں اور خوشبوؤں کا شہر —اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹیں تشویش ناک ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور اکثر 300 سے تجاوز کر جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے ”انتہائی خطرناک” درجے میں آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لاہور میں سانس لینا خود ایک خطرہ بن چکا ہے۔ وہ ”سموگ” جو کبھی لاہوریوں کے لیے اجنبی لفظ تھا، اب ہر سال اکتوبر سے فروری تک شہر کو سیاہ چادر کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، پروازیں ملتوی ہو جاتی ہیں، اور اسپتالوں میں سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کے مریضوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔


مگر لاہور ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب لاہور کی صبحیں دھند سے روشن ہوتی تھیں، سموگ سے نہیں۔ جب شالامار باغ، جہانگیر کا مقبرہ، مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سورج کی کرنوں میں چمک اٹھتے تھے، نہ کہ گرد آلود دھوئیں کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ کبھی لاہور اور اس کے نواحی علاقے سرسبز و شاداب ہوا کرتے تھے۔ شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ، رائے ونڈ اور جلو اور برکی کے ارد گرد کھیت لہلہاتے تھے، درختوں کی چھاؤں تھی، اور ہوا میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو بستی تھی۔ راوی کا پانی اگرچہ کم تھا، مگر شہر کے لیے زندگی کا پیغام لاتا تھا۔ ان دنوں جب کسان فصل کٹنے کے بعد بھوسہ جلاتے بھی تھے تو شہر کی فضا پھر بھی صاف رہتی تھی۔ دھواں ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا، کیونکہ فضا میں سبزہ اور درخت اس کا بوجھ جذب کر لیتے تھے۔


پھر کیا بدلا؟ بدلاو? آیا بے لگام شہری توسیع اور غیر ذمہ دارانہ منصوبہ بندی کے ساتھ۔ پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی اور اب ایک کروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو شہر کبھی کوٹ لکھپت اور مغلپورہ پر ختم ہو جاتا تھا، وہ اب بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس فیز ٨ اور اس سے بھی آگے تک پھیل چکا ہے۔ زرعی زمینیں رہائشی اسکیموں میں تبدیل ہو گئیں۔ ہر نئی اسکیم کے ساتھ سڑکیں، گاڑیاں اور پلازے تو بڑھ گئے مگر درخت، کھیت اور کھلی جگہیں کم ہوتی گئیں۔ منافع کے لالچ میں منصوبہ سازوں نے ماحولیاتی توازن کا خیال نہیں رکھا۔ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا کوئی مؤثر نظام نہ بن سکا، صنعتوں کو بغیر کسی اخراجی کنٹرول کے چلنے کی اجازت دی گئی، اور شہر کے ”سبز پھیپھڑوں” کو آہستہ آہستہ بند کر دیا گیا۔


ہمارے ترقی کے مظاہر جیسے میٹرو بس یا اورنج لائن ٹرین عام شہری کی نقل و حمل کے لیے سہولت تو ہیں، مگر ان کی قیمت ماحول نے ادا کی۔ کنکریٹ کے بڑے ڈھانچے تو تعمیر ہوئے مگر ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ سڑکوں کی توسیع کے لیے درخت کاٹے گئے مگر دوبارہ لگائے نہیں گئے۔ ماہرین کے مطابق راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ، اگرچہ بلند نظر منصوبہ ہے، مگر اس نے لاہور کے قدرتی ماحولیاتی توازن کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ پانی کے قدرتی راستے سکڑنے سے ہوا کی گردش متاثر ہوئی اور سموگ میں اضافہ ہوا۔


آج لاہور کے لوگ — خصوصاً بچے اور بزرگ — اس بگاڑ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، برونکائٹس اور الرجی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ میو، سروسز اور جناح اسپتالوں کے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سردیوں میں فضائی آلودگی سے متعلق مریضوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ طلبہ ”سموگ ڈیز” پر گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ وہ شامیں جو کبھی فوڈ اسٹریٹ، گلشنِ اقبال یا ریس کورس پارک میں ہنسی خوشی گزرتی تھیں، اب گھروں کے اندر بند کھڑکیوں کے پیچھے گزر رہی ہیں تاکہ آلودہ فضا سے بچا جا سکے۔
یہ درست ہے کہ ترقی اور جدیدیت بڑھتی آبادی کے لیے ضروری ہیں، مگر بے منصوبہ ترقی ایک سست زہر ہے۔ دنیا میں لاہور سے کہیں پرانے اور زیادہ آباد شہر جیسے لندن، پیرس اور بیجنگ کبھی شدید آلودگی کا شکار تھے مگر انہوں نے نظم و ضبط اور بصیرت سے حالات بدل دیے۔ مثال کے طور پر بیجنگ نے صنعتوں پر سخت قوانین لاگو کیے، فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا اور برقی ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا۔ نتیجتاً وہاں کی فضا میں نمایاں بہتری آئی۔ سنگاپور اور سیول نے بھی شہری منصوبہ بندی میں فطری سبزے کو شامل کیا، تاکہ ہر نئی تعمیر کے ساتھ پارک اور سبز علاقے بھی قائم ہوں۔


لاہور بھی ایسا کر سکتا ہے۔ شہر کو ایک جامع ماحولیاتی حکمتِ عملی درکار ہے — جو عملی، مستقل اور قابلِ عمل ہو۔ سال میں ایک بار درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی، اسے شہری عادت بنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دے، صنعتی اخراج کے لیے سخت قوانین بنائے، اور شہر کے قریب کھیتوں میں بھوسہ جلانے پر مکمل پابندی لگائے۔ صنعتی علاقے رہائشی آبادیوں سے دور منتقل کیے جائیں۔ راوی اور دیگر آبی گزرگاہوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ فطری توازن بحال ہو۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا — کوڑا کم پیدا کریں، توانائی بچائیں، اور صفائی کو شعار بنائیں۔


لاہور محض ایک جگہ نہیں، تاریخ کا ایک زندہ باب ہے۔ اس نے مغلوں کی شان، صوفیوں کی دانش اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں دیکھی ہیں۔ یہ پاکستان کا ثقافتی دل ہے جہاں شاعری، فن، اور مہمان نوازی ایک ہی روح میں ڈھل جاتے ہیں۔ مگر آج وہ روح سانس لینے کو ترس رہی ہے۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ لاہور زندہ دلوں کا شہر بنا رہے تو سب سے پہلے اسے صاف ہوا اور کھلے آسمانوں کا شہر بنانا ہوگا۔ لاہور کے باغوں کی خوشبو، گلیوں کی لے اور لوگوں کی مسکراہٹیں دھوئیں کے پردوں میں گم نہیں ہونی چاہیئں۔ عمل کا وقت آ چکا ہے — نہ کل، نہ اگلے سال، بلکہ ابھی — تاکہ آنے والی نسل فخر سے کہہ سکے:
”ہاں، ہم نے لاہور دیکھا ہے، اور یہ اب بھی وہی شہر ہے جو کبھی مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔”

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کیلئے عرب اور مسلم ممالک کا اجلاس پیر کو ہوگا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • کیا حکومت نے یوم اقبال پر عام تعطیل کا اعلان کردیا؟
  • نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
  • آپ جو انڈہ کھا رہے ہیں وہ اصلی ہے یا نقلی؟ فیکٹری میں بنے جعلی انڈوں کی ویڈیو وائرل
  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • کراچی کے منصوبے شروع ہو جاتے‘ مکمل ہونے کا نام نہیں لیتے: حافظ نعیم
  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • ای چالان یورپ جیسا اور سڑکیں کھنڈر، کراچی کے شہریوں کی تنقید
  • متحدہ عرب امارات کے طیاروں کے ذریعے سوڈان میں جنگی ساز و سامان کی ترسیل کا انکشاف