Express News:
2025-06-09@16:06:13 GMT

صنفِ نازک، ایک تحفہ نایاب ہے!

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

اللہ تعالیٰ نے ہر روپ میں عورت کو گویا ایک قیمتی نگینہ بنا کر بھیجا ہے۔

وہ ہر روپ اور ہر رنگ میں خوب سجتی ہے۔ ماں ہے تو فخر کی عظیم داستان سمیٹتی ہے۔ بیوی ہے تو پاکیزگی کا احساس دلاتی ہے۔ بہن ہے تو محبتیں بانٹتی دکھائی دیتی ہے اور بیٹی ہے تو دل کا سکون محسوس ہوتی ہے۔ اماں، ابا کے گھر میں وہ ننھی سی بچی کھیلتی اٹھکھلیاں کرتی پھرتی ہے۔ ناز اٹھواتی، لاڈ جتاتی سب کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے۔ اس رنگ میں لاڈلی بیٹی ایسے سجتی ہے کہ ماں، باپ کا دل اس کے لیے صرف اچھے نصیب کی دعا کرتا ہے۔

بھائیوں کی راج دلاری ہوتی ہے۔ ابا کی تو اس میں جان ہوتی ہے۔ شرارتوں اور بھاگم دوڑ میں معلوم ہی نہیں ہوا کہ ماں نے کب اسے سرخ دوپٹہ اوڑھایا اور باپ نے خاموش آنسوؤں کے ساتھ اسے گھر کی دہلیز سے رخصت کر دیا۔ زندگی کا اصل باب تو اب شروع ہوا۔ اسے تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ زندگی میں کس قدر تلخیاں پنہاں ہیں۔ خواہشات کے گلے کیسے گھونٹے جاتے ہیں۔ اسے تو اب معلوم ہوا تھا  کہ اصل میں ’برتن کیسے مانجھے‘ جاتے ہیں۔

اسے تو زندگی نے اب ہی سمجھایا تھا کہ کیسے کیسے لوگوں کے رنگ ہوتے ہیں۔ سسرال میں کیسے کیسے تنقید نگار‘ ہوتے ہیں۔ اپنی ماں کے پڑھائے گئے سارے سبق اسے بھولنے لگتے ہیں، لیکن وہ صبر کا ایسا پیکر بنتی ہے کہ ایک مثال بن جاتی ہے۔ شوہر کو یہی فکر تھی کہ وہ صرف اس کے گھر والوں کا خیال رکھے۔ اس کی ماں جی کے سامنے ’ہاتھ جوڑ‘ کر کھڑی رہے۔ بہنیں آئیں، تو پھر وہ کمرے میں اپنی کمر سیدھی کرنے کے لیے بھی نہ جائے۔

’وہ کیا سوچیں گی؟ انھیں برا لگے گا۔ اماں غصے ہوں گی۔‘ شوہر کی نصیحتیں جاری رہتیں۔ جب اس نے ہفتے بعد کہہ دیا کہ مجھے امی کی طرف جانا ہے، تو اس کی سختی کا وقت شروع ہو جاتا۔ ساس کا رویہ عجیب، شوہر بھی کھچا کھچا۔ نندیں الگ منہ بنائے ہوئے۔ بیٹیوں کے لیے وقت غیر مقرر اور بہوؤں کے لیے مقررہ کہ ’’یہ کون سا وقت ہے گھر سے باہر جانے کا۔۔۔؟‘‘ جب کہ ایک بیٹی گھر میں داخل ہو رہی تھی اور ایک ابھی گھر سے نکل رہی تھی لیکن بہو کے لیے ’’یہ وقت ممنوع ہوگیا اور وہ وقت غلط ہو گیا!‘‘ اب یہ پوچھیں کہ بھئی پھر وہ کس وقت نکلے۔۔۔؟

صبح ناشتا بناتے بناتے کھانے کا وقت ہو جاتا ہے۔۔۔ کسی نے ناشتا نہیں کیا تو کھانے میں کچھ مزے کا بن جانا چاہیے۔۔۔ ساری دوپہر گزر جاتی ہے اور شام ہی باقی بچتی ہے اور وہ بھی انھیں برا لگتا ہے کہ ’’بہو اپنی ماں کے گھر جائے۔‘‘ اگر چلی بھی جائے، تو شوہر کی ہزار نصیحتیں سننے کو ملتی ہیں اور آخر میں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ’امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، کوشش کرنا کہ کل شام تک گھر آجاؤ!‘

ماں کے گھر میں ذرا سی بات پر طوفان اٹھانے والی یہ ’نازک سی لڑکی‘ ہر طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کر لیتی ہے۔۔۔ ’’مجھے یہ نہیں کھانا، وہ چاہیے۔ یہ نہیں پہننا، اس جیسا چاہیے۔‘‘ یہ سارے قصے پرانے بننے لگتے ہیں۔ اسے بس یہی فکر رہتی کہ ساس کا رویہ اس کے ساتھ خراب نہ ہو جائے، کسی نند کا اس کی وجہ سے دل نہ دکھے۔ دیور اور سسر کو وقت پر کھانا دینا نہ بھولے۔ شوہر کی ایک آواز پر وہ سب چھوڑکر چلی آتی۔ اسے بس اپنا ہی خیال نہ تھا۔ وقت پر کھانا پینا سب چُھوٹ گیا تھا۔ کبھی کبھار تو اس کے اماں، ابا بھی خاموشی سے اس کا منہ تکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی لاڈلی بیٹی نے دل میں نہ جانے کیا کیا کہانیاں چھپا لی ہیں اور انھیں بتانے سے کتراتی ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان سے ملنے سے بھی گریزاں رہنے لگی ہے۔‘‘

ان کا بہت دل چاہتا ہے، تم سے ملنے کو، اماں جب اسے فون پر ابّا کا پیغام پہنچاتی ہیں، تو وہ کچھ بہانے بنا دیتی ہے کہ گھر میں مصروفیت بہت ہے۔ وہ تو اپنی بے بسی کے آنسوؤں کو چُھپانا چاہتی ہے۔ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ دل کی باتیں انھیں نہیں بتانا چاہتی۔ مصنوعی ہنسی کا پیکر بنی فون پر بے اختیار انھیں ادھر ادھر کی کہانیاں ہی سناتی چلی جاتی ہے۔

’’ تم خوش ہو ناں!‘‘

ماں آخر تک تسلی کرتی رہتی اور اس کا ایک ہی جواب ’’جی بہت!‘‘ پھر جب اس نے اپنے جگر گوشے کو ہاتھوں میں تھاما تو اسے اپنے ماں ہونے کا خوب صورت احساس ہوا۔ اپنی ماں کی محبتیں بے تحاشا یاد آئیں۔ وہی تڑپ اور پیار اسے اپنے بچے کے لیے محسوس ہوئی۔ وہ صبر کے ساتھ ساتھ ہمت کی ہم جولی بھی بن گئی۔

ماں، باپ اپنی اولاد کے لیے کتنی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، اسے آج اندازہ ہوا تھا۔ اپنے بچے کی خوشیوں میں اسے اپنے دکھ بھولنے لگے تھے۔ وہ اس کی چھوٹی چھوٹی مسکراہٹوں میں الجھ کر رہ گئی تھی۔ اپنے بچے کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتی تھی۔ اب اس نے دوسروں کی تنقید پر کان دھرنے چھوڑ دیتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آنکھیں نم کرنے والی اب حالات سے نبٹنے کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔ اب اس نے اپنی حق تلفی کے لیے بولنے کی ہمت پیدا کرلی تھی۔ وہ خوش رہنے کی کوشش کرنے لگی تھی، لیکن بیتے لمحوں کی یادیں اس کی آنکھوں کے کاجل کو پھیلانے میں لگی رہتی تھیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتی ہے گھر میں کے گھر

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • جرمن چانسلر کی ٹرمپ سے ملاقات، ان کے دادا کی جائے پیدائش کا سرٹیفکیٹ بطور تحفہ پیش
  • بھارت کو بڑا جھٹکا، چین نے نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی عائد کردی
  • عید کا تحفہ: پاکستانی ریسلر اطہر زاہد کی بھارتی حریف کو شکست
  • کولمبیا کے صدارتی امیدوار انتخابی مہم کے دوران فائرنگ سے شدید زخمی، حالت نازک
  • پاکستانی ریسلر کا پاکستانیوں کوعید کا بڑا تحفہ ، بھارتی حریف کو ہرا کر عالمی چیمپئن شپ ٹائٹل کا دفاع
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • انکار کیوں کیا؟
  • وزیراعلیٰ سندھ کا قیدیوں کو عیدالاضحیٰ کا تحفہ، سزا میں خصوصی معافی کا اعلان
  • ’’یہ وقت ہرچند کہ بہت نازک ہے مگر مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم اس پر غالب آئیں گے‘‘۔۔۔قائداعظمؒ کا پیغام عیدالاضحیٰ
  • بس اب بہت ہو چکا