صنفِ نازک، ایک تحفہ نایاب ہے!
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اللہ تعالیٰ نے ہر روپ میں عورت کو گویا ایک قیمتی نگینہ بنا کر بھیجا ہے۔
وہ ہر روپ اور ہر رنگ میں خوب سجتی ہے۔ ماں ہے تو فخر کی عظیم داستان سمیٹتی ہے۔ بیوی ہے تو پاکیزگی کا احساس دلاتی ہے۔ بہن ہے تو محبتیں بانٹتی دکھائی دیتی ہے اور بیٹی ہے تو دل کا سکون محسوس ہوتی ہے۔ اماں، ابا کے گھر میں وہ ننھی سی بچی کھیلتی اٹھکھلیاں کرتی پھرتی ہے۔ ناز اٹھواتی، لاڈ جتاتی سب کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے۔ اس رنگ میں لاڈلی بیٹی ایسے سجتی ہے کہ ماں، باپ کا دل اس کے لیے صرف اچھے نصیب کی دعا کرتا ہے۔
بھائیوں کی راج دلاری ہوتی ہے۔ ابا کی تو اس میں جان ہوتی ہے۔ شرارتوں اور بھاگم دوڑ میں معلوم ہی نہیں ہوا کہ ماں نے کب اسے سرخ دوپٹہ اوڑھایا اور باپ نے خاموش آنسوؤں کے ساتھ اسے گھر کی دہلیز سے رخصت کر دیا۔ زندگی کا اصل باب تو اب شروع ہوا۔ اسے تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ زندگی میں کس قدر تلخیاں پنہاں ہیں۔ خواہشات کے گلے کیسے گھونٹے جاتے ہیں۔ اسے تو اب معلوم ہوا تھا کہ اصل میں ’برتن کیسے مانجھے‘ جاتے ہیں۔
اسے تو زندگی نے اب ہی سمجھایا تھا کہ کیسے کیسے لوگوں کے رنگ ہوتے ہیں۔ سسرال میں کیسے کیسے تنقید نگار‘ ہوتے ہیں۔ اپنی ماں کے پڑھائے گئے سارے سبق اسے بھولنے لگتے ہیں، لیکن وہ صبر کا ایسا پیکر بنتی ہے کہ ایک مثال بن جاتی ہے۔ شوہر کو یہی فکر تھی کہ وہ صرف اس کے گھر والوں کا خیال رکھے۔ اس کی ماں جی کے سامنے ’ہاتھ جوڑ‘ کر کھڑی رہے۔ بہنیں آئیں، تو پھر وہ کمرے میں اپنی کمر سیدھی کرنے کے لیے بھی نہ جائے۔
’وہ کیا سوچیں گی؟ انھیں برا لگے گا۔ اماں غصے ہوں گی۔‘ شوہر کی نصیحتیں جاری رہتیں۔ جب اس نے ہفتے بعد کہہ دیا کہ مجھے امی کی طرف جانا ہے، تو اس کی سختی کا وقت شروع ہو جاتا۔ ساس کا رویہ عجیب، شوہر بھی کھچا کھچا۔ نندیں الگ منہ بنائے ہوئے۔ بیٹیوں کے لیے وقت غیر مقرر اور بہوؤں کے لیے مقررہ کہ ’’یہ کون سا وقت ہے گھر سے باہر جانے کا۔۔۔؟‘‘ جب کہ ایک بیٹی گھر میں داخل ہو رہی تھی اور ایک ابھی گھر سے نکل رہی تھی لیکن بہو کے لیے ’’یہ وقت ممنوع ہوگیا اور وہ وقت غلط ہو گیا!‘‘ اب یہ پوچھیں کہ بھئی پھر وہ کس وقت نکلے۔۔۔؟
صبح ناشتا بناتے بناتے کھانے کا وقت ہو جاتا ہے۔۔۔ کسی نے ناشتا نہیں کیا تو کھانے میں کچھ مزے کا بن جانا چاہیے۔۔۔ ساری دوپہر گزر جاتی ہے اور شام ہی باقی بچتی ہے اور وہ بھی انھیں برا لگتا ہے کہ ’’بہو اپنی ماں کے گھر جائے۔‘‘ اگر چلی بھی جائے، تو شوہر کی ہزار نصیحتیں سننے کو ملتی ہیں اور آخر میں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ’امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، کوشش کرنا کہ کل شام تک گھر آجاؤ!‘
ماں کے گھر میں ذرا سی بات پر طوفان اٹھانے والی یہ ’نازک سی لڑکی‘ ہر طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کر لیتی ہے۔۔۔ ’’مجھے یہ نہیں کھانا، وہ چاہیے۔ یہ نہیں پہننا، اس جیسا چاہیے۔‘‘ یہ سارے قصے پرانے بننے لگتے ہیں۔ اسے بس یہی فکر رہتی کہ ساس کا رویہ اس کے ساتھ خراب نہ ہو جائے، کسی نند کا اس کی وجہ سے دل نہ دکھے۔ دیور اور سسر کو وقت پر کھانا دینا نہ بھولے۔ شوہر کی ایک آواز پر وہ سب چھوڑکر چلی آتی۔ اسے بس اپنا ہی خیال نہ تھا۔ وقت پر کھانا پینا سب چُھوٹ گیا تھا۔ کبھی کبھار تو اس کے اماں، ابا بھی خاموشی سے اس کا منہ تکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی لاڈلی بیٹی نے دل میں نہ جانے کیا کیا کہانیاں چھپا لی ہیں اور انھیں بتانے سے کتراتی ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان سے ملنے سے بھی گریزاں رہنے لگی ہے۔‘‘
ان کا بہت دل چاہتا ہے، تم سے ملنے کو، اماں جب اسے فون پر ابّا کا پیغام پہنچاتی ہیں، تو وہ کچھ بہانے بنا دیتی ہے کہ گھر میں مصروفیت بہت ہے۔ وہ تو اپنی بے بسی کے آنسوؤں کو چُھپانا چاہتی ہے۔ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ دل کی باتیں انھیں نہیں بتانا چاہتی۔ مصنوعی ہنسی کا پیکر بنی فون پر بے اختیار انھیں ادھر ادھر کی کہانیاں ہی سناتی چلی جاتی ہے۔
’’ تم خوش ہو ناں!‘‘
ماں آخر تک تسلی کرتی رہتی اور اس کا ایک ہی جواب ’’جی بہت!‘‘ پھر جب اس نے اپنے جگر گوشے کو ہاتھوں میں تھاما تو اسے اپنے ماں ہونے کا خوب صورت احساس ہوا۔ اپنی ماں کی محبتیں بے تحاشا یاد آئیں۔ وہی تڑپ اور پیار اسے اپنے بچے کے لیے محسوس ہوئی۔ وہ صبر کے ساتھ ساتھ ہمت کی ہم جولی بھی بن گئی۔
ماں، باپ اپنی اولاد کے لیے کتنی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، اسے آج اندازہ ہوا تھا۔ اپنے بچے کی خوشیوں میں اسے اپنے دکھ بھولنے لگے تھے۔ وہ اس کی چھوٹی چھوٹی مسکراہٹوں میں الجھ کر رہ گئی تھی۔ اپنے بچے کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتی تھی۔ اب اس نے دوسروں کی تنقید پر کان دھرنے چھوڑ دیتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آنکھیں نم کرنے والی اب حالات سے نبٹنے کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔ اب اس نے اپنی حق تلفی کے لیے بولنے کی ہمت پیدا کرلی تھی۔ وہ خوش رہنے کی کوشش کرنے لگی تھی، لیکن بیتے لمحوں کی یادیں اس کی آنکھوں کے کاجل کو پھیلانے میں لگی رہتی تھیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتی ہے گھر میں کے گھر
پڑھیں:
گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔
بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔
یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔
کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔
داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔
جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔
اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔
اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی