WE News:
2025-04-25@10:30:04 GMT

کابل، طالبان، حقانیہ: پرانے ساز نئے نغمے (دوسرا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

اس مطمئن بزرگ کا نام حامد کرزئی ہے۔ یہ اس لیے مطمئن تھے کہ وہ جانتے تھے کہ جو ہو رہا ہے وہ ’لوح ازل‘ پہ لکھا جا چکا ہے۔  سو فائدہ مزاحمت میں ہے اور نہ فرار میں ہے۔ فائدہ اس بات میں ہے کہ چادر جتنی اجازت دے اتنے پاؤں پھیلا کر استحکام کے لیے راہیں نکالی جائیں۔

صدر اشرف غنی ایک انقلابی ذہن کے آدمی تھے۔ ان کی سیاسی رگ کافی حد تک دبی ہوئی تھی۔ وہ بات کرتے تھے تو ہمارے کپتان محمد رضوان کی طرح دھیان ان کا کیمرے کی طرف ہوتا تھا۔ ان کے برعکس حامد کرزئی اول تا آخر ایک سیاسی دماغ ہیں۔ تاریخ میں بامعنی مزاحمت ہمیشہ سیاسی دماغوں نے کی ہے، مگر سہرا ہمیشہ اونچے سُروں میں گانے والوں کے سر باندھا گیا ہے۔ حامد کرزئی امریکیوں کے محمد خان جونیجو تھے۔ وہ لائے گئے تھے مگر منہ میں زبان بھی رکھتے تھے۔ دوسرے صدارتی دور میں زبان کا سائز تھوڑا بڑھ بھی گیا تھا۔

اسی دوسرے دور میں امریکا نے افغانستان میں اپنی موجودگی کو قانونی جواز بخشنے کے لیے Bilateral Security Agreement دستخط کے لیے حامد کرزئی کی میز پر رکھا۔ حامد کرزئی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔حامد کرزئی امریکا کے دل سے اتر گئے۔ نتیجتاً طالبان کے دل میں انہیں اتنی جگہ مل گئی کہ وہ پاؤں پھیلا کر بیٹھ سکیں۔ جب انہوں نے وقت کے ساتھ سیاسی قوتوں کو کچھ منطقی مشورے دینا شروع کیے تو جگہ اتنی ہوگئی کہ اب وہ لیٹ بھی سکتے تھے۔

مثلاً، وہ کہے جا رہے تھے کہ کسی انقلابی اور نظریاتی راستے سے گزر کر افغانستان کی زندگی میں سکون نہیں آسکتا۔ اب اس کو رُک کر سانس لینا چاہیے۔ جیسے بھی ممکن ہو، ایک حکومت قائم ہونی چاہیے جس کا سکہ کنڑ سے ہرات تک اور تخار سے قندھار تک برابر چلتا ہو۔اس پہلے قدم کو حاصل کرنے کے لیے سیاست، جمہوریت اور آئین جیسی جگالیوں سے بھی عارضی طور گریز کرنا چاہیے۔ ہمیں ایک صورت حال چاہیے جو معاملات کو قومی مشاورت اور سیاسی شراکت کی طرف از خود لے جانے میں کردار ادا کرے۔

اس کالم کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہ یہاں کلک کریں:کابل، طالبان، حقانیہ: پرانے ساز اور  نئے نغمے

حامد کرزئی جس چیز کا مشورہ دے رہے تھے اسے اسموتھ ٹرانزیشن کہتے ہیں۔ یہ مشکل گزار راستوں سے منزل تک پہنچنے کی وہ کوشش ہوتی ہے جس میں اپنے نعروں پر عارضی سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ حامد کرزئی کو لگتا ہے کہ افغانستان میں جیسے تیسے اقتدار کو اگر تسلسل مل جائے تو طالبان کی قوت ایک مذہبی سیاسی دھڑے میں تحلیل ہوسکتی ہے اور سیاسی قوتوں کے لیے بغیر نقصان کے میدان میں اترنے کے لیے راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہوسکتا ہے جہاں عمرانی معاہدے کا لنگر بھی پھینکا جاسکتا ہے۔

طالبان اقتدار میں آئے تو ان کے اقدامات سے اندازہ ہوگیا کہ وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ انہیں اسپیس کس خوشی میں ملا ہے۔ امریکا کو پیچھے ایک ایسا افغانستان چاہیے تھا جہاں ایک حکومت بھی ہو اور استحکام بھی نہ ہو۔ یہ کوئی پالیسی تشکیل دیں تو خود ان کے اپنے خوش عقیدہ لڑاکے ان کے گلے پڑ جائیں۔ افغانستان سے باہر بیٹھے ہوئے افغان اپنا ایکٹیوازم جاری رکھیں تاکہ طالبان کے سر پر ایک تلوار مسلسل لٹکتی رہے۔ سیاسی قیادت، مذہبی جماعتوں اور قبائلی مشران کے ساتھ کبھی عقیدے، کبھی نسل اور کبھی پالیسی کی بنیاد پر الجھاؤ رہے۔ کابل اور ماسکو کے بیچ مسلسل بد اعتمادی اور ناراضگی کا ماحول رہے۔ افغانستان مسلح جتھوں کے لیے بڑی سی ایک جنت بنی رہے۔ ان جتھوں کے ہوتے کچھ ایسے خون ریز تنازعات جنم لیتے رہیں جو چین کو پیش قدمی سے روک سکیں۔

طالبان نے لکھی ہوئی تقدیر کے برعکس افغانستان کے ٹائی ٹینک کو دوسری سمت میں موڑنے کی کوشش شروع کردی۔ انہوں اپنے لڑاکوں کو گندا سا ایک ایک کمبل، پرانی سی ایک بندوق، پٹپٹی سی ون ٹو فائیو موٹر سائیکل اور چند پیسے دے کر کوتوالی میں مصروف کر دیا۔ داخلی بغاوت کو روکنے کے لیے طالبان جب یہ بندوبست کر رہے تھے، اسی دوران کابل ایئرپورٹ پر ایک زور دھماکا ہوگیا۔ داعش کی مقامی برانچ اسلامک اسٹیٹ خراسان نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر کے اشارہ دے دیا کہ ہم ’امریکا کی رضامندی‘ سے آئی ہوئی حکومت کو ایسے چلنے نہیں دیں گے۔ طالبان نے اسلامک اسٹیٹ خراسان کے خلاف بھرپور کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔

پاکستان وجود میں آیا تو اشرافیہ نے ایک نیشنل ازم کی بنیاد رکھی جو ہندوستان سے نفرت پر استوار تھی۔ طالبان حکومت میں آئے تو وہی غلطی دہراتے ہوئے اسلامی پشتون نیشنل ازم کی بنیاد رکھ دی، جسے پاکستان سے نفرت پر استوار کر دیا۔اسی نیشنل ازم کوگرم رکھنے کے لیے انہوں نے ڈیورنڈ لائن کے بیانیے میں بھی کرنٹ چھوڑ دیا۔ اس نیشنل ازم کی بنیاد پر طالبان ایک طرف  افغانوں کے دل میں داخل ہوگئے، دوسری طرف ایک حد تک پاکستان کے سرحدی علاقوں میں جاری سیاسی اور عسکری سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔ یہاں ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کو انہوں نے ایک ہی تسبیح میں پرو دیا۔

ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ افغانستان امریکا کے ایک اہم اتحادی پاکستان کے کیمپ سے نکل گیا اور انڈین کیمپ میں داخل ہوگیا۔ ان مشکل حالات میں بھی انڈیا نے اول ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے افغانستان میں اپنی ٹیم بٹھائی، پھر وعدہ کیا کہ کابل میں انڈین سفارت خانے کو پھر سے متحرک کیا جائے گا۔ تجارتی تعلقات کے لیے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو استعمال کرنے پر بھی تقریباً اتفاق کر لیا گیا ہے۔ بھارت نے افغانستان کو 25 لاکھ ٹن گندم اور 2 ہزار ٹن دالیں اسی راستے فراہم کی ہیں۔

 تیسری طرف طالبان نے روس سے ہاتھ ملا لیا۔کہا، ہمیں بلیک لسٹ سے نکالو۔ پیسہ لاؤ اور افغانستان کی مارکیٹ میں جوتوں سمیت داخل ہوجاؤ۔ صدر پوتن نے ضمیر کابلوف کو اپنا خصوصی ایلچی برائے افغانستان مقرر کیا۔ روس نے پچھلے ہی سال ’ماسکو فارمیٹ‘ میں افغان وزیر خارجہ کو مدعو کیا۔ طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا اور افغان حکومت کے ساتھ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔

ساتھ ہی طالبان نے چین کو بھی انگیج کر لیا۔ چین نے تو حال احوال میں بھی وقت ضائع نہیں کیا، طالبان کی حکومت کو دل سے قبول کر لیا۔ چین افغان سفیر کی میزبانی کر چکا ہے۔چین اور افغانستان باہمی سفارت کی مشترکہ سالگرہ بھی منا چکے ہیں۔ چین نے افغانستان کو اپنے تمام مصنوعات پر صفر ٹیرف کی پیشکش بھی کی۔ اقتصادی سرمایہ کاری اور قدرتی ذخائر تک رسائی کے لیے چینی کمپنیاں کابل میں اپنے دفاتر بھی قائم کرچکی ہیں۔

طالبان نے ایران سے بھی کہہ دیا ہم تم پہلے بھی کوئی ایسے دشمن نہیں تھے، مگر اس بار اپنے تنازعات اچھے سے حل کر کے ہم پکے والے دوست بن کر دکھائیں گے۔ اس ضمن میں طالبان حکومت نے افغانستان میں اپنے ثقافتی رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پرانی مسلکی مخاصمتیں ختم کر کے طالبان نے پہلی بار افغانستان میں شیعہ امام بارگاہوں، عزا داریوں اور جلوسوں کو نہ صرف یہ کہ تحفظ فراہم کیا بلکہ طالبان کے گورنروں اور وزرا نے عاشورہ کی مجلسوں میں شرکت بھی کی۔

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کی گزشتہ سال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق طالبان نے 90 سے زائد ممالک کے ساتھ سفارتی سطح پر  18سو سے زائد انگیجمنٹس کی ہیں۔ ان میں وہ افریقی ممالک بھی شامل ہیں جن کی طرف افغانستان کی نظر عام طور سے نہیں جاتی۔ دیکھا جائے تو طالبان نے 3 برسوں میں یومیہ 2 ملکوں سے میٹنگز کی ہیں۔ (استفادہ از خراسان ڈائری)

استحکام کے لیے طالبان نے افغانستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت کو انگیج کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔اس سلسلے میں انہوں نے سابق صدر حامد کرزئی اور سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کی مدد بھی حاصل کی۔ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ ہی نے طالبان کو ایک نمائندہ قومی حکومت قائم کرنے کی تجویز دی، جس پر طالبان نے عمل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔

یہاں تک تو طالبان کو لگتا تھا کہ ہم نے استحکام کا قالین ٹھیک طرح سے بچھا دیا ہے، مگر آج 3 سال بعد لگ رہا ہے کہ یہ قالین ان کے نیچے سے کھینچا چلا جا رہا ہے۔

داخلی بغاوت سے بچنے کے لیے طالبان نے اپنے لڑاکوں کو تو کامیابی سے ایڈجسٹ کر دیا، مگر آج خود طالبان قیادت 2 بنیادی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک دھڑا سیاسی ذہن رکھتا ہے اور دوسرا دھڑا الف اللہ ب بکری پر جم کر کھڑا ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی مخالفت اور پاکستان دشمنی میں یہی الف اللہ والا گروپ آگے ہے۔

طالبان نے جس اسلامی پشتون نیشنل ازم کی بنیاد رکھی تھی اس نے سرحدی علاقوں میں معاملات کو ہر سطح پر الجھا کر رکھ دیا ہے۔ بنوں کینٹ پر حملہ ہوگیا ہے جس کی ذمہ داری حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کرلی ہے۔ ابھی جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں طور خم بارڈر پر پاک فوج اور افغان فورسز کے بیچ فائرنگ کا شدید تبادلہ جا ری ہے۔ دونوں ملکوں کے ترجمان میڈیائی مورچوں سے بھی ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جس اسلامک اسٹیٹ آف خراسان کے خلاف کاررائیاں ہو رہی تھیں اس نے دفتر میں گھس کر طالبان کے ایک اہم وزیر اور بڑے نام ملا خلیل حقانی کو قتل کر دیا ہے۔ باجوڑ میں جے یو آئی ف کے جلسے پر حملہ کر دیا ہے، جس میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔بلوچستان میں جے یو آئی ف کے ہی حافظ حمد اللہ پر حملہ کر دیا ہے جس میں وہ بال بال بچ گئے ہیں۔

پچھلے دنوں جامعہ حقانیہ میں خود کش حملہ ہوگیا ہے جہاں مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامد الحق حقانی ساتھیوں سمیت جاں بحق ہوگئے ہیں۔ یہ واحد حملہ ہے جس کی ذمہ داری ابھی کسی نے قبول نہیں کی۔ ہاں، حملے کے صرف 20 منٹ بعد ہی ’ذرائع‘ نے یہ ضرور بتا دیا کہ مولانا حامد الحق نے خواتین کی تعلیم پر زور دیا تھا، اس لیے مار دیے گئے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی میڈیا پر تقریباً سبھی چھوٹے بڑے تجزیہ کاروں نے افغانستان میں جاری کشمکش کو تعلیم والے قضیے سے جوڑ دیا۔ اس کا آخری نتیجہ دلچسپ نکلا۔ اب تک اسلامک سٹیٹ خراسان کی طرف سے ہونے والے حملے بھی طالبان کے سخت گیر دھڑے کے کھاتے میں چلے گئے۔

کالم کا دامن تنگ ہو رہا ہے۔ بات ختم کرتے ہیں۔ افغانستان میں جاری اس پوری کشیدگی کا تجزیہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔ یہ تجزیہ کرتے وقت آپ نے 2 کام کرنے ہیں۔امریکا، چین، بھارت اور پاکستان کو سامنے رکھنا ہے۔ اور اس بات کو سامنے رکھنا ہے کہ طاقت کی جنگ میں عورتوں کی تعلیم، صنفی برابری اور انسانی حقوق جیسے نعرے کسی کا سر درد نہیں ہوتے۔ ایسے نعرے محض صف بندیوں اور صف شکنیوں کے کام آتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فرنود عالم

اشرف غنی افغانستان امریکا پاکستان چین حامد کرزئی داعش خراسان روس طالبان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان امریکا پاکستان چین طالبان نیشنل ازم کی بنیاد افغانستان میں افغانستان کی نے افغانستان اور افغان طالبان نے طالبان کے انہوں نے گئے ہیں کرنے کی کے ساتھ رہا ہے کے لیے کی طرف گیا ہے دیا ہے کی ہیں سے بھی کر دیا

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا دور

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

 اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔

علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں چھوٹا افغانستان
  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • اسحاق ڈار سے ازبک وزیرِ خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ، ریل لائن منصوبے پر گفتگو
  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • کراچی: ڈکیتی کے دوران شہری کی فائرنگ، ایک ڈاکو ہلاک دوسرا زخمی
  • ریاست اتراکھنڈ میں 50 سال پرانے مزار پر بلڈوزر چلایا گیا
  • پشاور میں رواں سال پولیو کا دوسرا کیس رپورٹ
  • انسانیت کے نام پر