پارلیمان کا مشترکہ اجلاس10 مارچ کو بلایاگیا ہے، صدر کے خطاب کے ساتھ ہی دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز ہو جائے گا۔صدر آصف زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے قبل ایوان صدر نے حکومت سے ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ مانگ لی ہے۔
صدر مملکت کے خطاب میں حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے اہم نکات اورحکومت کے اہم معاشی اقدامات کے نتائج کا ذکر کیا جائے گا۔
اسپیکر قومی اسمبلی مشترکہ اجلاس کی صدارت کریں گے جب کہ عسکری قیادت، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ سمیت صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کو بھی اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت دی جائے گی۔
دعوؤں کے مطابق تو حکومت کی ایک سالہ کارکردگی انتہائی اطمینان بخش نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بھی حکومت کے مثبت اعداد و شمار بیان کرکے اس کی کامیابی کا ڈنکا بجانے کی کوشش کی جائے گی۔
ایک سالہ کارکردگی میں نمایاں پہلوآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے۔ حکومتی موقف کے مطابق دیوالیہ ہونے سے بچ گئے۔ حکومت کا دعویٰ ہے مہنگائی 37فیصد سے 4فیصد پر آ گئی ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں تنزلی کا رجحان جاری ہے، یہ فروری 2025 میں ماہانہ بنیادوں پر ساڑھے 9 سال کی کم ترین سطح 1.
ٹاپ لائنز سیکیورٹیز کے مطابق مہنگائی کی شرح میں مارکیٹ کی توقعات سے زیادہ کمی ہوئی، جب کہ مالی سال 2025 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران اوسط مہنگائی کی شرح 5.85 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 27.96 فیصد رہی تھی۔عارف حبیب لمیٹڈ نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کی شرح ستمبر 2015 کے بعد سے کم ترین ہے۔
پاکستان ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق سی پی آئی مہنگائی فروری میں سال بہ سال 1.5 فیصد بڑھی، جب کہ جنوری میں افراط زر کی شرح 2.4 فیصد اور فروری 2024 میں 23.1 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہانہ بنیادوں پر فروری 2025 میں مہنگائی کی شرح 0.8 فیصد کم ہوئی جب کہ گزشتہ مہینے اس میں 0.2 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔
ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر شہری علاقوں میں جن غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان میں دال مونگ (32.65 فیصد)، بیسن (28.97 فیصد)، دال چنا (25.40 فیصد)، آلو (22.88 فیصد)، تازہ پھل (21.55 فیصد)، مکھن (21.12 فیصد)، شہد (20.77 فیصد)، خشک دودھ (20.58 فیصد) اور گوشت (18.59فیصد) شامل ہیں۔
اسی طرح جن غیر غذائی اشیا کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ان میں گاڑیوں پر ٹیکس (168.79 فیصد)، جوتے (31.9 فیصد)، ڈینٹل سروسز (26.55 فیصد)، ادویات (16.53 فیصد) اور طبی ٹیسٹس (15.48 فیصد) شامل ہیں۔
دیہی علاقوں میں جن غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان میں بیسن (33.86 فیصد)، دال مونگ (32.16 فیصد)، دال چنا (30.68 فیصد)، خشک دودھ (26.42 فیصد)، گوشت (21.01 فیصد)، شہد (20.5 فیصد)، آلو (20.27 فیصد) اور تازہ پھل (19.83) فیصد شامل ہیں۔دیہی علاقوں میں جن غیر غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھیں، ان میں گاڑیوں پر ٹیکس (126.61 فیصد)، تعلیم (24.49 فیصد)، ڈینٹل سروسز (19.53 فیصد)، ادویات (17.96 فیصد)، تفریحی سہولیات (16.25 فیصد)، سوتی کپڑا (15.5 فیصد) اور اونی تیار ملبوسات (15.39pc) شامل ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ اعداد وشمار کبھی جھوٹ نہیں بولتے، کھوکھلے نعرے، جھوٹ بہتان اور آپس کی لڑائیاں کوئی نہیں چاہتا، پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ مہنگائی کیسے کم ہوگی اور آج نظر آ رہا ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے، بہتری آ رہی ہے۔
جلاؤ گھیراؤ کی سیاست میں لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملکی مفاد میں فیصلے کیے گئے، کھوکھلے نعرے لگانے والے لیپ ٹاپ دے سکے نہ کوئی اسکول یا اسپتال بناسکے، خیبرپختونخوا میں ان کی کیا کارکردگی ہے، نعروں لگانے والوں نے ملک میں کوئی نظام نہیں بنایا۔
اس وقت ملک میں پالیسی ریٹ میں مسلسل کمی آرہی ہے، پاکستان پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے اسٹاک ایکسچینج ہر روز نئے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستان کی عالمی تنہائی بھی دور ہوگئی ہے ۔ ملک میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا جس میں 12 ممالک کے وزرائے اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اور انھوں نے سمٹ میں شرکت کی، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کا دورہ کیا اور پھر اپنے ملک جاکر کہا کہ ’’پاکستان کے بارے میں میرے اتنے اچھے جذبات ہیں کہ میرے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔‘‘
اسی طرح، ملائیشیا کے وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے علاوہ بے شمار دورے ہوئے جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ابھی ازبکستان کا دورہ کیا، جہاں ہر طرف سبز ہلالی پرچم دکھائی دیے۔ اسی طرح، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت ملی اور کتنے ووٹوں سے ملی یہ بھی سب جانتے ہیں، ریکارڈ ووٹ ملے، صرف 11 ووٹ ہمارے خلاف پڑے، باقی سارے ووٹ پاکستان کے حق میں پڑے، اس کے لیے وزیر خارجہ اسحق ڈار نے بہت محنت کی۔
شہباز شریف نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو تعلقات قائم کیے آج ہر ملک پاکستان کی تعریف کر رہا ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقعے دیکھ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اپنے پہلے دورے پر پاکستان آئے، یہ ان کا کسی بھی ملک کا پہلا دورہ تھا، انھوں نے یہ معاہدوں پر دستخط کیے اور پاکستان کی معیشت کی تعریف کی جب کہ آذربائی جان کے صدر نے کہا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہوں۔
حرف آخر حکومتی نمایندوں کو اس امر کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے کہ اس ایک سال میں عام آدمی کی زندگی میں کتنا بدلاؤ آیا، کیا اس کی مشکلات میں کمی آئی، اس کے روٹی روزگار کے مسائل حل ہوئے، روزمرہ استعمال کی چیزیں اس کی دسترس میں آئیں، کیا وہ اپنے یوٹیلٹی بلز آسانی سے ادا کر پا رہا ہے، گھریلو اخراجات، بچوں کی فیسوں کی ادائیگی میں آسانی پیدا ہوئی ہے؟ اگر عام آدمی کے مسائل حل ہوئے ہیں تو بلاشبہ حکومت کو اس کا بھرپور کریڈٹ لینا چاہیے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود عام آدمی کی زندگی میں معمولی سی آسودگی بھی نہیں آسکی۔ اس کے لیے اب بھی دو وقت کی روٹی کا حصول ایک مشکل مرحلہ ہے۔ حکومت کی طرف سے کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، اس بدترین مہنگائی کے دور میں گھر کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، بچوں کی فیسیں، ادویات اور دیگر اخراجات 37 ہزار روپے میں کس طرح پورے کیے جا سکتے ہیں؟ کوئی ماہر معاشیات بھی اس قلیل تنخواہ میں ایک گھر کا بجٹ نہیں بنا کردے سکتا۔
حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کی اصل رپورٹ ہے۔ اس لیے حکومت کو عوامی مشکلات حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایک سالہ کارکردگی مہنگائی کی شرح غذائی اشیا کی مشترکہ اجلاس کا دورہ کیا حکومت کی کے مطابق شامل ہیں ایک سال رہی ہے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔
زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔
سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…
رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔
آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔
یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔
رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔
بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔
ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔
ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔
تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔
ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔
یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟