ہمارااولین مسئلہ اپنی سانسیں برقرار رکھنا ہے!
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
عظیم پابلو نیر و دا کہتا ہے ” آپ آہستگی سے مررہے ہو اگر آپ سفر نہیں کرتے اگر آپ کتاب نہیں پڑھتے اگر آپ زندگی کی آوازوں کو نہیں سنتے اگر آپ اپنی قدر نہیں کرتے آپ آہستگی سے مررہے ہو جب آپ اپنی عزت نفس کھو دیتے ہو جب دوسرے آپ کی مدد کرنا چاہیں اور آپ ان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ آپ آہستگی سے مررہے ہو جب آپ اپنی عادتوں کے غلام بن جاتے ہوجب آپ روزانہ انہیں راستوں پر چلتے رہتے ہو جن پر آپ پہلے چل چکے ہو۔ اگر آپ اپنے معمولات کو تبدیل نہیں کرتے اگر آپ تبدیل شدہ رنگوں کو نہیں پہنتے یا اگر آپ ان لوگوں سے بات نہیں کرتے جنہیں آپ جانتے نہیں ہو۔ آپ آہستگی سے مررہے ہو اگر آپ اپنے ولولے اور ان کے جذبات کو محسوس کرنے سے اجتناب کرتے ہو جولوگ جو آپ کی آنکھوں کو چھلکتا ہو ا دیکھنا چاہتے ہیں اور تمہارے دل کی دھڑکنوں کوتیز کرناچاہتے ہیں آپ آہستگی سے مررہے ہو اگرآپ اپنی زندگی کو تبدیل نہیں کرتے جب آپ اپنے کام سے یااپنی محبت سے مطمئن نہیں ہوتے اگر آپ رسک نہیں لیتے جو غیر یقینی صورت حال میں سب سے محفوظ ہو اگرآپ اپنے خواب کا پیچھا نہیں کرتے اگر آپ اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک دفعہ پیچھے ہٹ سکو آپ آہستگی سے مررہے ہو ”۔
میر ے ملک کے لوگو ذرا غور سے اپنے آپ کو دیکھو تم سب آہستگی سے مررہے ہو کیا تمہیں اپنے آپ میں زندگی کے اثرات نظر آرہے ہیں یا تم وہ مردے ہوچکے ہو جو سانس لے رہے ہیں ہمارا سماج وہ مشین بن گیا ہے جو زندوں کو مردوں میں تبدیل کررہاہے کیا تمہارے گھر قبروں میں تبدیل ہوکے نہیں رہ گئے ہیں ۔اگر تم یاد بھی کرو گے تب بھی یاد نہیں آئے گا کہ تم کب سے جینا ترک کر چکے ہو۔ تمہارے شب و روز صرف تمہاری سانسیں بر قرار رکھنے کے لیے صرف ہورہے ہیں نہ کہ جینے کے لیے ۔ اب تمہارا اولین مسئلہ صرف اپنی سانسیں برقرار رکھنے کا رہ کے رہ گیا ہے ۔ اسی لیے تو کہہ رہے ہیں کہ تم سب آہستگی سے مررہے ہو ذرا بتائو تو سہی کہ تم نے کب پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے تمہیں ہنسے ہوئے کتنا عرصہ بیت چکا ہے وہ دن یا د کر و اگر یادآجائے کہ تم کب خوش ہوئے تھے ۔ کب تم نے اپنے پیا روں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا تھا صرف وہ دن یا دکرکے بتا دو جس دن تمہیں کوئی پریشانی ، مصیبت ، اذیت ، تکلیف اٹھانی نہ پڑی ہو۔ اچھا صرف یہ بتادو وہ کو نسا دن تھا جب تمہیں کسی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو ۔ اچھا یہ بھی چھوڑو صرف یہ بتا دو وہ کونسا دن تھا جب تم نے امیر وں ، بااختیا روں ، طاقتوروں کی گالیا ں نہ کھائی ہو۔ یا د کرو کب تم نے نئے کپڑے پہنے تھے ذرا یہ بھی یادکرو کب تم نے اپنی بیو ی ، بیٹی ، بہن ، ماں کے لیے بازار سے نئے کپڑے خرید ے تھے ۔ اچھا یہ بھی چھوڑو اپنا بٹوہ نکال کر دیکھو اس میں کتنے پیسے موجود ہیں ۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو دیکھو تم سب آہستگی سے مررہے ہو۔ کیا تم نے کبھی اینیلیزاین فرینک کی ڈائری پڑھی ہے ؟ اینیلیزاین فرینک 12جون 1929کو جرمنی کے شہر فرینکفر ٹ میں ایک یہودی خاندان میں پید ا ہوئی 1933میں نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد فرینک خاندان نید ر لینڈ چلاگیا این نے زیادہ تر وقت ایمسٹرڈم میں گزارا ۔ فروری 1945 میں محض پندرہ سال کی عمر میں اس کی وفات کے بعد یہ ڈائر ی "The Diary of a Young Girl” کے عنوان سے شائع ہوئی جس نے اسے شہر ت دوام بخشی اس ڈائر ی میں این نے جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے نید ر لینڈ پر قبضے کے دوران 1942 تا 1944 اپنی زندگی کے احوال بیا ن کیے ہیں اس ڈائری کا شمار دنیا کی معروف ترین کتابوں میں ہوتاہے یہ ڈائری بنیا دی طورپر ڈچ زبان میں لکھی گئی اب تک اس کا 60سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکاہے اس ڈائر ی کے واقعات پر مبنی کئی فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں اسے یورپ اور امریکہ کے ہزاروں مڈل اور ہائی اسکول کے نصاب میں شامل کیا گیا۔اس ڈائری کے کچھ منتخب اقتبا سات آپ بھی پڑھیے (١) یہ حیران کن بات ہے کہ دنیا کو بہتر بنانے کے آغاز کے لیے کسی کو ایک لمحہ بھی انتظار کی ضرورت نہیں ہے ۔ (٢) یہ حقیقتاً تعجب انگیز ہے کہ میں اپنے تمام تصورات سے دستبردار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا تکمیل پانا مشکل اور ناممکن امر لگتاہے تاہم میر ے تصورات قائم ہیں (٣)اس خوبصورتی کے متعلق سوچیں جو ابھی بھی آپ کے ارد گرد موجود ہے اس بات کو سوچ کر خوش ہوجائیں (٤) جب میں لکھتی ہوں تو ہر بات کو ذہن سے جھٹک دیتی ہوں میر ے دکھ غائب ہوجاتے ہیں اور میر ی ہمت دوبارہ پید ا ہوجاتی ہے (٥) کوئی دے کر کبھی غریب نہیں ہوا (٦) مجھے علم ہوگیا ہے کہ خوبصورتی ہمیشہ باقی رہ جاتی ہے ۔ فطرت ،دھوپ ، آزادی اور اپنے آپ میں یہ سب عناصر آپ کی مدد کرسکتے ہیں (٧)میں ان تمام مصائب کے متعلق نہیں سو چتی لیکن اس خوبصورتی کے بارے میں سو چتی ہوں جو ابھی بھی باقی ہے(٨) والدین صرف اچھا مشورہ دے سکتے ہیں یاانہیں سیدھے راستے پر لگا سکتے ہیں لیکن کردار کی حتمی شکل کسی بھی شخص کے اپنے ہاتھوں میں ہے (٩) کاغذ میں لوگوں کی نسبت زیادہ صبر ہے (١٠) دیکھو ایک ہی موم بتی کس طرح اندھیر ے کی وضاحت اور اس کی مزاحمت کرتی ہے (١١)لوگ آپ کا منہ بند کرواسکتے ہیں مگر آپ کو اپنی رائے سے باز نہیں رکھ سکتے (١٢)جو خوش ہے وہ ہی دوسروں کو خوشی دے گا ۔ (١٣) جہاں امید ہے وہاں زندگی ہے یہ ہم میں ایک تازہ جذبہ پیدا کرتی ہے اور ہمیں پھر سے مضبوط بناتی ہے (١٤) میں بہت سے دیگر لوگوں کی طرح بے کار زندگی نہیں گذار نا چاہتی ہوں حتی کہ ان لوگوں کے لیے بھی جن سے میں کبھی نہیں ملی میں چاہتی ہوں جیتی چلی جائوں (١٥) انسان کی عظمت ، دولت اور طاقت میں نہیں بلکہ کردار اور نیکی میں پوشید ہ ہے (١٦) احساسات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
میر ے لوگو خدانے تمہیں خو ش رہنے کے لیے پید ا کیا ہے اس نے تمہیں زندگی جینے کے لیے دی ہے نہ کہ جیتے جاگتے مردہ ہونے کے لیے ۔ تمہاری اس حالت کے اکلوتے ذمہ دار تم خود ہو ۔ آئو دوبار ہ زندہ ہوجاتے ہیں اس سماج کو اور ان مشینو ں کو جو تمہاری اس حالت کے ذمہ دار ہیں آگ لگا دیتے ہیں ۔ ہر اس چیز کو دفن کر دیتے ہیں جو تمہیں دفن کرنے کے در پے ہیں ہر اس چیز کو مردہ کردیتے ہیںجو تمہیں جینے نہیں دے رہی ہیں جو تمہیں خوش ہونے نہیں دے رہی ہیں ۔ بس ہمیں پابلو نیر دا اوراینیلیزاین فرینک کی کہی گئی باتوں کودوبارہ غورسے پڑھنا اور سمجھنا ہوگا اس پر عمل پیرا ہوکر پھر دیکھو تم کس طرح دوبارہ جی اٹھتے ہو کس طرح دوبارہ زندگی تمہارے اندر دوڑتی پھرتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: نہیں کرتے آپ اپنی اپنے آپ آپ اپنے نہیں ہو ہو اگر کے لیے اگر آپ
پڑھیں:
کیا بھارت آپریشن سندور جیت گیا تھا؟ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر برس پڑے
بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، بی جے پی اور اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا ہم نے آپریشن سندور جیت لیا تھا، جو پاکستانی کرکٹرز سے ہاتھ نہیں ملائے؟
بھگونت سنگھ مان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی پالیسی پاکستان کے خلاف ہے یا لوگوں کے خلاف ہے۔ بی جے پی اور اس کی ٹرول آرمی جسے چاہے غدار قرار دیتی ہے۔ پاکستان سے کسی فنکار کو فلم میں کام کرنے کے لیے لیا گیا جو پہلگام واقعے سے پہلے کی شوٹنگ ہے تو کہا گیا وہ فلم ریلیز نہیں ہونے دیں گے ورنہ اس کو ملک کاغدار کہیں گے کیونکہ پاکستان سے ہم نے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو کل میچ ہوا، اس کا پروڈیوسر امیت شاہ کا بیٹا ہے اور بھارتی میڈیا کہہ رہا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز سے ہاتھ نہیں ملائے، کیا ہم نے آپریشن سندور جیت لیا تھا۔
بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کے ساتھ کھیلے تو ہیں، کیچ تو پکڑے ہیں، چھکے انہوں نے بھی مارے آپ نے بھی مارے۔ یاتو ایسے ہوا ہو کہ آپ نے کہا ہو ہم اس گیند کو ہاتھ نہیں لگاتے اس کو پاکستان کا بلا لگا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر پاکستان نے ایشیا کپ کا بائیکاٹ کیا تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آتا میچ کرانے کی کیا مجبوری تھی، میچ کھیلنے کا حصہ تو پاکستان کو بھی جائےگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کرتارپور راہداری کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ سرداروں سے کیا قصور ہو گیا ہے کہ انہیں عبادت کے لیے پاکستان نہیں جانے دیتے؟ اگر میچ کھیل سکتے ہیں تو کرتار پور عبادت کے لیے جانے دینے میں کیا حرج ہے؟ کیا سارا کچھ آپ کی مرضی سے چلے گا؟
مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھگونت مان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں آفت آئی تو ایک منٹ میں پیسہ پہنچ گیا حالنکہ وہ ہمیں لوٹنے آتے رہے، پنجاب میں آفت آئی کروڑوں روپے کا اعلان کیا گیا مگر ابھی تک ایک پیسہ نہیں آیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امیت شاہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگوانت سنگھ مان بھگوانت سنگھ مان پاک بھارت میچز پاکستانی کرکٹ