پالیسی ریٹ 11فیصد پر برقرار رکھناترقیاتی عمل کوسبوتاژ کرنا ہے
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) پالیسی ریٹ 11فیصد پر برقرار رکھنا ترقیاتی عمل کوسبوتاژ کرنا ہے‘وزیراعظم شہباز شریف کی ترقیاتی پالیسی کوبیوروکریسی مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے‘تاجروں اور صنعتکاروں کو ریلیف فراہم کرنے کا موقع ضائع کردیا گیا‘ دو سو بیسز پوائنٹس کی کمی متوقع تھی، اسٹیٹ بینک کے فیصلے مایوسی ہوئی ہے ۔ ’’ پالیسی ریٹ کو11 فیصد پر برقرار رکھنے سے معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟‘‘ کے سوال کے جواب میںنارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (نکاٹی) کے صدر فیصل معیز خان نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی ہے‘ بزنس کمیونٹی کی جانب سے بارہا مطالبہ کیا گیا کہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ تک لایا جائے تاکہ صنعتی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے مگر ایک بار پھر اس مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جس سے کاروباری حلقوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے‘ ایک طرف وزیراعظم شہباز شریف صنعتوں کو سہولت دینے اور معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے پر زور دے رہے ہیں اور اسی سلسلے میں بجلی پیکج کا اعلان بھی کیا گیا اور دوسری جانب یہ سب کچھ ہے۔لاہور چیمبر کے سابق صدر نے کہا کہ بیوروکریسی وزیراعظم کے ترقیاتی اقدامات کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے‘ پالیسی ریٹ میں مسلسل چوتھی بار کمی نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بیوروکریسی وزیراعظم کے وژن کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی۔ احمد عظیم علوی نے واضح کیا کہ اگر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لایا جاتا تو صنعتکار برادری بینکوں سے قرض لے کر نئی مشینری خرید سکتی تھی جس سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوتا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے مگر موجودہ شرح سود کے باعث سرمایہ کاری رک گئی ہے اور صنعتی ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی کی ہدایت دے تاکہ معاشی بحالی کا عمل تیز ہو اور بزنس کمیونٹی کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ریحان حنیف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کاروباری اور صنعتی برادری کو ریلیف فراہم کرنے کا ضائع شدہ موقع قرار دیا چونکہ مہنگائی بڑی حد تک قابو میں ہے اس لیے کاروباری طبقہ کم از کم دو سو بیسز پوائنٹس کی کمی کی توقع کر رہا تھا تاکہ شرح سود کو تقریباً 9 فیصد تک لایا جا سکے مگر بدقسمتی سے یہ توقع پوری نہیں ہوئی جو موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ناقابلِ فہم فیصلہ ہے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے کو معاشی ترقی کے اہداف کے بر خلاف”قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیصد پر برقرار رکھنے پالیسی ریٹ کو ا ف پاکستان اسٹیٹ بینک کی جانب سے کے فیصلے
پڑھیں:
سپریم کورٹ، قتل کے مجرم کی دُہری سزا عمر قید برقرار
سپریم کورٹ نے قتل کے مجرم رفعت حسین کی جانب سے دائر اپیل مسترد کرتے ہوئے اس کی 2 بار عمر قید کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے، جبکہ سزا بڑھانے کے لیے دائر استغاثہ کی درخواست بھی خارج کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے سزائے موت کو 2 بار عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے درست عدالتی اختیار استعمال کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی: 3خواتین کو کیسے اور کیوں قتل کیا گیا، اقبال جرم کرنے والے کون؟
عدالتی فیصلے میں بتایا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے رفعت حسین کو 2 افراد کے قتل کے جرم میں 2 بار سزائے موت سنائی تھی، تاہم لاہور ہائی کورٹ نے شواہد اور حالات کی روشنی میں سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے رفعت حسین کی اپیل خارج کر دی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور کی جانب سے تحریر کردہ 8 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ رفعت حسین مقدمے کے دوران مفرور رہا، جس کے باعث اس نے خود اپنے دفاع کا حق ضائع کیا۔ عدالت کے مطابق قانون کے تحت مفرور ملزم کا پہلے دیا گیا بیان اس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ واقعے کی ایف آئی آر فوری طور پر درج کی گئی، جس سے مشاورت یا جھوٹے الزام کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ عدالت کے مطابق عینی گواہوں نے رفعت حسین کی موقع پر موجودگی اور کردار کی تصدیق کی، جبکہ میڈیکل شواہد بھی عینی شہادت کے عین مطابق تھے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اسلحہ کی برآمدگی اور رفعت حسین کی طویل مفروری بھی استغاثہ کے مؤقف کے مطابق ثابت ہوئی، اور استغاثہ نے اپنا مقدمہ شک سے بالاتر ثابت کیا۔ عدالت نے بتایا کہ پہلی ایف آئی آر مقتولین کے والد عبدالرحمان نے درج کرائی تھی جو بعد ازاں وفات پا گئے۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق یکم اگست 2003 کو محمد اشفاق اور ضیا الحق کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ مقدمے میں بتایا گیا کہ رفعت حسین کلاشنکوف جبکہ غلام عباس 7 ایم ایم رائفل سے مسلح تھا، اور دونوں ملزمان نے للکار کر کہا کہ جو بچنا چاہتا ہے وہ حرکت نہ کرے، جس کے بعد دونوں مقتولین موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں:درختوں کے قتل پر اہل لاہور کی خاموشی
فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے کا محرک ٹوٹی ہوئی منگنی، پرانی رنجش اور ممکنہ شادی کا تنازعہ تھا۔ اس کیس میں شریک دیگر ملزمان پہلے ہی ٹرائل میں باعزت بری ہو چکے تھے۔ رفعت حسین اور غلام عباس دونوں مقدمے کے دوران مفرور رہے، جبکہ غلام عباس بعد ازاں ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
عدالت کے مطابق رفعت حسین کو 3 مئی 2012 کو گرفتار کیا گیا، اور اس کے خلاف استغاثہ نے 11 گواہان کے ذریعے مقدمہ پیش کیا۔ استغاثہ نے مقتولین کے والد عبدالرحمان کا وہ بیان بھی بطور شہادت پیش کیا جو پہلے عدالتی کارروائی کے دوران ریکارڈ کیا جا چکا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں