Islam Times:
2025-09-18@16:14:05 GMT

میدان جنگ کی امریکہ کے قریب منتقلی

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

میدان جنگ کی امریکہ کے قریب منتقلی

اسلام ٹائمز: ہولمز نے اس صورتحال کو نیپولین کے "اسپینش زخم" سے تشبیہہ دی ہے جس میں برطانیہ نے چھوٹی سی فوج کی مدد سے فرانس کے فوجی وسائل ختم کر دیے۔ یہ "کیریبین زخم" بھی امریکہ کے چھوٹے بحری بیڑے پر زیادہ دباو ڈال کر جنوبی کمان کے ڈراونے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔ چین اپنے دنیا کے سب سے بڑے جنگی بحیر بیڑے کو مزید وسعت دینے میں مصروف ہے جو امریکی بحیر بیڑے "جیرالڈ آر فور" کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیٹلائت سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا چوتھا جنگی بحری بیڑہ "ٹائپ 004" دالیان میں کشتی سازی کے کارخانے میں تیار کیا جا رہا ہے اور اس میں جوہری ایندھن استعمال ہو گا۔ یہ جنگی بحری بیڑہ چار کاٹاپولٹ رن گراوںد کی مدد سے زیادہ جنگی طیارے اڑانے کی قابلیت رکھے گا اور یوں فضائیہ کی طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سب سے بڑے بحری بیڑے کا مقابلہ کر سکے گا۔ تحریر: رسول قبادی
 
اکیسویں صدی میں امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ بازی جاری ہے اور بین الاقوامی نظام کے تعین میں فیصلہ کن سبب کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ مقابلہ بازی مختلف شعبوں میں چل رہی ہے جن میں اقتصاد اور ٹیکنالوجی کے شعبے سے لے کر سیاسی اور فوجی اثرورسوخ کا میدان شامل ہیں۔ اس مقابلے بازی کا ایک اہم پہلو چین کی جانب سے بین الاقوامی پانیوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور امریکہ کے اردگرد "جزائر کا ایک سلسلہ" ایجاد کرنے کی کوشش ہے۔ یہ اقدام اکثر ماہرین کی نظر میں امریکہ کے گھر میں اس کے اثرورسوخ کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے۔ نیشنل انٹرسٹ کی رپورٹ کے مطابق سمندری امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ چین ذہانت آمیز اور بامقصد سرمایہ کاری کے ذریعے بحیرہ کیریبین اور خلیج میکسیکو میں فوجی اڈوں کا ایک مجموعہ ایجاد کر سکتا ہے۔
 
اس اقدام کا قدرتی نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکہ اپنے تمام تر فوجی وسائل ایشیا سے نکال کر مغرب کی جانب واپس لانے پر مجبور ہو جائے گا جس کے باعث چین کے قریب امریکہ کی فوجی موجودگی کمزور ہو جائے گی۔ امریکہ کی جنوبی کمان کے نیوی کمانڈر ایلون ہولزے نے خبردار کیا ہے کہ چین اپنی توجہ بحیرہ کیریبین پر مرکوز کر کے "جارحانہ جزائر کا ایک سلسلہ" ایجاد کرنا چاہتا ہے جو مختلف سمتوں سے امریکہ کے قومی مفادات کو خطرے کا شکار کر سکتے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں کے دوران چین نے سمندری امور کے ماہر الفرڈ تایر ماہان کے نظریات سے متاثر ہو کر ایک بڑی سمندری طاقت میں تبدیل ہونے کے لیے مرحلہ وار حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ دنگ شیاو پنگ کی اصلاحات انجام پانے کے بعد چین نے سب سے پہلے اندرونی مصنوعات، کشتی سازی اور بیرونی بندرگاہوں تک رسائی پر توجہ مرکوز کی۔
 
چین کی بحریہ (PLA Navy) نے بحری جہاز ڈیزائن کرنے کے مسلسل تجربات انجام دیے اور اس ڈیزائننگ میں ترقی لا کر چین اس وقت دنیا میں سب سے بڑے بحری بیڑے کا مالک بن چکا ہے۔ اس بحری بیڑے کو میزائلوں اور ساحلی جنگی طیاروں کی مدد حاصل ہے جس کے باعث وہ دور دراز علاقوں تک اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ چین کئی عشروں تک اس سمندری سلامتی سے بہرہ مند رہا ہے جو امریکہ کی بحریہ نے فراہم کر رکھی تھی۔ امریکہ کی بحریہ نے تجارتی راستوں کی سیکورٹی اپنے ذمے لے رکھی تھی جس کے نتیجے میں چین ایک طاقتور جنگی بحری بیڑے کے بغیر ہی دنیا بھر میں اپنی تجارت میں توسیع لاتا رہا۔ لیکن اب چین کی بحریہ اس قدر طاقتور ہو چکی ہے کہ اسے امریکہ سمیت کسی اور طاقت کی ضرورت نہیں رہی اور وہ اپنے طور پر سمندری سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔
 
اسی طرح چین حتی بحر اوقیانوس اور بحیرہ کریبین میں فوجی موجودگی بھی پیدا کر سکتا ہے۔ جیمز ہولمز کہتے ہیں کہ بحیرہ کریبین میں فوجی اڈے ایجاد کرنے میں ممکنہ طور پر کیوبا اور وینزویلا چین کے اتحادی ممالک کا کردار ادا کریں گے۔ کیوبا اپنے کمیونسٹ نظام حکومت کی وجہ سے اور وینزویلا بائیں بازو کی حکومت کے باعث نظریاتی اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر چین سے تعاون کریں گے۔ کیوبا اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے اور سمندری راستوں کے قریب واقع ہونے کے باعث جبکہ وینزویلا پاناما کینال سے قریب ہونے کی وجہ سے چین کے لیے بہترین انتخاب شمار ہوتے ہیں۔ حتی 26 DF جیسے جدید ترین بیلسٹک میزائل نصب کرنے کے لیے بھی یہ ممالک زیر غور ہو سکتے ہیں۔ بحیرہ کریبین میں چین کی فوجی موجودگی امریکہ کو اس بات پر مجبور کر دے گی کہ وہ اپنی بحریہ خلیج میکسیکو میں واپس لے آئے اور ایشیا پر توجہ کم کر دے۔
 
ہولمز نے اس صورتحال کو نیپولین کے "اسپینش زخم" سے تشبیہہ دی ہے جس میں برطانیہ نے چھوٹی سی فوج کی مدد سے فرانس کے فوجی وسائل ختم کر دیے۔ یہ "کیریبین زخم" بھی امریکہ کے چھوٹے بحری بیڑے پر زیادہ دباو ڈال کر جنوبی کمان کے ڈراونے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔ چین اپنے دنیا کے سب سے بڑے جنگی بحیر بیڑے کو مزید وسعت دینے میں مصروف ہے جو امریکی بحیر بیڑے "جیرالڈ آر فور" کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیٹلائت سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا چوتھا جنگی بحری بیڑہ "ٹائپ 004" دالیان میں کشتی سازی کے کارخانے میں تیار کیا جا رہا ہے اور اس میں جوہری ایندھن استعمال ہو گا۔ یہ جنگی بحری بیڑہ چار کاٹاپولٹ رن گراوںد کی مدد سے زیادہ جنگی طیارے اڑانے کی قابلیت رکھے گا اور یوں فضائیہ کی طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سب سے بڑے بحری بیڑے کا مقابلہ کر سکے گا۔
 
مصنوعی ذہانت ایک سپر پاور کے طور پر چین کا مستقبل تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ جس طرح امریکہ نے بیسویں صدی میں وسیع پیمانے پر بجلی اور گاڑیوں کے ذریعے برطانوی سلطنت پر غلبہ پایا تھا اسی طرح چین بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے طاقت کا توازن اپنے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے حصول میں چین کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں جدید ترین چپس تک رسائی اور شدید سینسرشپ شامل ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان محاذ آرائی چند پہلووں پر مشتمل ہے۔ چین اپنا سمندری اثرورسوخ بڑھا کر امریکہ کے قریب جزیروں کا ایک سلسلہ ایجاد کرنا چاہتا ہے جو اس محاذ آرائی کا ایک اہم پہلو ہے اور اس کے اہم جیوپولیٹیکل اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔ چین کی فوجی اور اقتصادی طاقت میں روز بروز اضافے کے پیش نظر یوں دکھائی دیتا ہے کہ عنقریب یہ محاذ آرائی جاری رہے گی اور بین الاقوامی نظام پر گہرے اثرات ڈالے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کا مقابلہ کر کے سب سے بڑے بحیر بیڑے امریکہ کی سے امریکہ امریکہ کے بحری بیڑے ہے کہ چین کی مدد سے ایجاد کر کی بحریہ کے باعث سکتا ہے کے قریب کرنے کی ہے اور اور اس چین کے چین کی کا ایک

پڑھیں:

صیہونی جنگی جنون ختم نہ ہو سکا، یمن کے ساحلی شہر پر پھر بمباری

SANAA:

مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر آ گیا ہے اسرائیلی جنگی جنون ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، گزشتہ رات یمن کے ساحلی شہر الحدیدہ پر اسرائیل نے دوبارہ مہلک فضائی حملہ کیا، جس سے متاثرہ علاقے میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔

جوابی کارروائی میں حوثیوں نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغ دیا ہے۔

عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے الحدیدہ بندرگاہ کو نشانہ بناتے ہوئے 12 بمباری حملے کیے جو لگ بھگ 10 منٹ تک جاری رہے۔

یہ حملے بندرگاہ کے ان تین اہم ڈوکس پر کیے گئے جو گزشتہ حملوں کے بعد بحال کیے گئے تھے۔

صیہونی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی حوثیوں کی فوجی سرگرمیوں کے ردعمل میں کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ الحدیدہ کی بندرگاہ ایران سے اسلحہ کی ترسیل کا مرکز بن چکی ہے، اسرائیلی فوج نے کارروائی سے قبل بندرگاہ اور لنگر انداز جہازوں کو خالی کرنے کا انتباہ بھی جاری کیا تھا۔

دوسری جانب اسرائیلی حملے کے فوری بعد حوثی فورسز نے بیلسٹک میزائل سے اسرائیل پر جوابی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں اسرائیل کے متعدد علاقوں میں سائرن بجنے لگے اور شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔

حوثی ترجمان نے کہا ہے کہ ہم اسرائیلی جارحیت کا ہر قیمت پر جواب دیتے رہیں گے اور اپنی سرزمین کے دفاع سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روس
  • صیہونی جنگی جنون ختم نہ ہو سکا، یمن کے ساحلی شہر پر پھر بمباری
  • پاکستان سمیت 15 ممالک کا عالمی ثابت قدم "امدادی بیڑے" کی سلامتی پر اظہار تشویش
  • بحری مفادات کے تحفظ میں نیوی کا کردار قابل ستائش ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف سے پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف کی ملاقات، پاکستان کی سمندری حدود کی نگرانی اور خطے میں بحری توازن برقرار رکھنے میں پاک بحریہ کا اہم کردار ہے ، وزیراعظم
  • جنگی شکست کا بدلہ بھارت کرکٹ کے میدان میں لینے کا سنگین اور اخلاقی جرم کر رہا ہے، ڈاکٹر عشرت العباد
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
  • پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ عزائم
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • عرب جذبے کے انتظار میں