خواتین پارلیمنٹرینز کی کارکردگی کیسی رہی؟ رپورٹ آگئی
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
پارلیمانی سال 25-2024 میں خواتین پارلیمنٹرینز کی کارکردگی کیسی رہی؟فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ سامنے آگئی۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے خواتین پارلیمنٹرینز کی کارکردگی رپورٹ جاری کردی، جس میں بتایا گیا کہ ایوان کے اندر خواتین کی حاضری مردوں سے زیادہ رہی جبکہ پی ٹی آئی کی خاتون سینیٹر ثانیہ نشتر نے کسی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد 17 فیصد ہے جبکہ ایوان میں 49 فیصد پارلیمانی ایجنڈا خواتین نے پیش کیا۔
صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب کلصدر مملکت آصف زرداری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب کل کریں گے۔
فافن رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ خواتین ممبران قومی اسمبلی نے 55، خواتین سینیٹرز نے 31 فیصد ایجنڈا پیش کیا، قومی اسمبلی میں خواتین کے پیش کردہ 67 اور مردوں کے پیش کردہ 66 فیصد ایجنڈا آئٹم زیر غور آئے۔
رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں مرد و خواتین کے مشترکہ طور پر پیش کیے گئے 83 فیصد ایجنڈا آئٹمز کو زیر غور لایا گیا، سینیٹ میں مرد اور خواتین ارکان کے پیش کردہ 80 فیصد ایجنڈا آئٹمز زیر غور آئے۔
فافن رپورٹ کے مطابق خواتین ارکان کی قومی اسمبلی میں حاضری 75 فیصد جبکہ مرد ارکان کی حاضری 63 فیصد رہی۔
رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں خواتین سینیٹرز کی حاضری 67 فیصد اور مرد ارکان کی حاضری 64 فیصد رہی۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر حسنہ بانو کی حاضری 90 فیصد رہی جبکہ اسی جماعت کی آصفہ بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں حاضری 42 فیصد رہی۔
فافن رپورٹ کے مطابق خواتین ایم این ایز نے 68 فیصد جبکہ خواتین سینیٹرز نے 26 فیصد توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیے جبکہ 42 فیصد خواتین اراکین قومی اسمبلی اور 47 ویمن سینیٹرز نے نجی بل پیش کیے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین ایم اینز نے 45 فیصد، خواتین سینیٹرز نے 75 فیصد قراردادیں پیش کیں جبکہ 45 اور 32 بالترتیب نے بحث کی تحریک پیش کی۔
فافن رپورٹ میں کہا کہ خواتین ایم این ایز نے 55 فیصد جبکہ خواتین سینیٹرز نے 28 فیصد سوالات پیش کیے، 1 فیصد خواتین ممبران قومی اسمبلی نے بحث میں حصہ لیا 25 فیصد نے ایجنڈا پیش کیا۔
پارلیمنٹ میں سینیٹر ثمینہ ممتاز نے 26 سوالات اور 3 توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیے، انہوں نے 3 بحث کی تحاریک، 18 بلز اور 4 قراردادیں پیش کیں۔
سینیٹر شیری رحمان کی حاضری 80 فیصد رہی، انہوں نے 2 توجہ دلاؤ نوٹس، ایک بحث کی تحریک اور 7 قراردادیں پیش کیں۔
پی ٹی آئی کی زرقا سہروردی نے 33 سوالات پوچھے، ایک توجہ دلاؤ نوٹس، 3 بحث کی تحاریک، ایک بل اور 2 قراردادیں پیش کیں۔
قومی اسمبلی میں نفیسہ شاہ کی حاضری 82 فیصد رہی، انہوں نے 33 سوالات، 3 توجہ دلاؤ نوٹس، 2 بلز اور ایک قرارداد پیش کی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: قراردادیں پیش کیں خواتین سینیٹرز نے قومی اسمبلی میں رپورٹ کے مطابق فیصد ایجنڈا فافن رپورٹ میں خواتین کہ خواتین توجہ دلاو کی حاضری فیصد رہی پیش کیے بحث کی
پڑھیں:
ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔