پالیسی ریٹ میں کمی کے لیے محتاط رویہ اپنانا ضروری
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
کراچی:
اسٹیٹ بینک 10 مارچ کو مانیٹری پالیسی کا اعلان کرے گا، مہنگائی میں تخمینوں سے زیادہ کمی کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں کمی کا اعلان کرے گا، جو گزشتہ سال 22 فیصد تھی اور مسلسل کمی کے بعد اس وقت 12 فیصد ہوچکی ہے.
پالیسی ریٹ میں کمی یقینا معاشی بہتری میں کردار ادا کرے گی، لیکن حکومت کو پالیسی ریٹ میں کمی کرنے کیلیے محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے.
مہنگائی بے شک کم ہوئی ہے، لیکن اس کمی کی وجوہات پائیدار نہیں ہیں، پالیسی سازوں کو غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہیے، اور پالیسی ریٹ میں بڑی کمی نہیں کرنی چاہیے.
ماضی میں 2008، 2018 اور 2022 میں ایسا کیا گیا، جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے، پالیسی ریٹ میں معتدل کمی کی ضرورت ہے، پالیسی ریٹ میں بڑی کمی سے پہلے انفراسٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے.
ایک ذمہ دارانہ اور محتاط پالیسی کے طور پر آئندہ پالیسی ریٹ میں زیادہ سے زیادہ 50 بیسس پوائنٹس کی کمی مناسب ہوگی، اس سے پالیسی میں لچک رہے گی، معاشی اعتماد برقرار رہیگا، ماضی کے برے سائیکلز سے حفاظت رہیگی.
پاکستان کو ماضی کے تجربات سے سیکھنا چاہیے، سست اور مستحکم پالیسی قابل اعتماد اور دیرپا استحکام کا واحد راستہ ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پالیسی ریٹ میں کمی
پڑھیں:
صحافی وسعت اللہ خان کے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ اراکین کے ماضی سے متعلق حیران کن انکشافات
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن ) سینئر صحافی وسعت اللہ خان نے بی بی سی اردو پر بلاگ شائع کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی نامور شخصیت سے ماضی میں جڑے نہایت حیران کن واقعات کا ذکر کیاہے جس نے بہت سے افراد کو چونکا کر رکھ دیاہے ۔
تفصیلات کے مطابق وسعت اللہ خان نے اپنی تحریر میں بتایا کہ موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی پر ماضی میں بچی کے اغواء کا مقدمہ درج کیا گیا ، سیشن عدالت نے ان کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے گرفتار ی کا حکم دیا جس کے بعد وہ غائب ہو گئے تاہم بعدازاں انہوں نے اسے گھریلو جھگڑا قرار دیا اور کچھ عرصہ کے بعد انہیں عدالت نے بے گناہ قرار دیا اور پھر اس کے بعد ان کی ترقی کے راستے کھلتے چلے گئے ، اس طرح وہ وفاقی وزیر داخلہ بننے کے بعد اب وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں ۔
کراچی کے 25ٹاؤنز میں پارکنگ فیس ختم، نوٹیفکیشن جاری
سرفراز بگٹی کی موجودہ کابینہ میں اس موجود وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے گھر کے قریب واقع کنویں سے ماضی میں تین لاشیں برآمد ہوئیں تھیں ، جن میں دو مرد اور ایک عورت شامل تھی، ان کے ایک سابق ملازم نے ان پر الزام بھی عائد کیا تھا کہ اس کی بیوی ، دو بیٹے اور ایک بیٹی 2019 سے سردار کی نجی جیل میں ہے ۔بعدازان ان کی ضمانت ہو گئی اور محمد مری کا یہ دعویٰ غلط نکلا کہ اس کے خاندان کو سردار کے حکم پر مارادیا گیا ۔ خیر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کنویں سے ملنے والی لاشیں کس کی تھیں۔
سرفراز بگٹی کی کابینہ میں شامل وزیر مواصلات صادق عمرانی 2008 میں وزیر ہاوسنگ تھے، اسی سال گاؤں بابا کوٹ سے خبر آئی کہ پسند کی شادی کی ضد پر تین لڑکیوں اور اُن کا ساتھ دینے والی دو معمر خواتین کو اغوا اور فائرنگ سے شدید زخمی کرنے کے بعد ویرانے میں زندہ دفن کر دیا گیا۔ اس واردات میں صوبائی نمبر پلیٹ کی گاڑی استعمال ہوئی، صادق عمرانی نے وضاحت کی کہ پانچ نہیں دو عورتیں مری ہیں اور یہ کہ اس واردات میں اُن کے بھائی کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ مرنے والیوں کا تعلق اُن کے قبیلے سے ضرور ہے۔
"ایک اہم صوبائی عہدےدار ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کو کتنے پیسے ہر ماہ دیتا ہے ؟"وزیرداخلہ محسن نقوی کا ٹوئیٹ، سوال اٹھا دیا
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے تیسرے دن ہی اس واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔ اس واقعہ کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی ازخود نوٹس لے کر اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ بنایا۔پولیس کو ایک گڑھے سے دو خواتین کی بے کفن لاشیں ملیں۔
مزید :