Daily Ausaf:
2025-07-26@00:08:13 GMT

کورونا ویکسین لگوانے والوں کیلئےبڑا انکشاف سامنے آگیا

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

امریکہ(نیوز ڈیسک)امریکا کی یونیورسٹی نے ایک نئی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ-19 ویکسین بعض افراد میں ”پوسٹ ویکسی نیشن سنڈروم“ (PVS) کا سبب بن رہی ہے، اس سنڈروم کے حیاتیاتی عوامل کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں، تاہم تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس سے متاثرہ افراد میں ورزش کی عدم برداشت، شدید تھکن، سن ہونے کا احساس، ذہنی دھند، بے خوابی، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، کانوں میں شور، چکر آنا، پٹھوں میں درد اور مدافعتی نظام میں تبدیلی جیسے علامات دیکھی گئی ہیں۔

عالمی وبا کے بعد سے دنیا بھر میں ہزاروں افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ ویکسین نے ان کی صحت کو طویل مدتی نقصان پہنچایا، حالانکہ یہ ویکسین لاکھوں جانیں بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوئی۔ تاہم، خاص طور پر پی وی ایس پر زیادہ تحقیق نہیں کی گئی، جسے ییل یونیورسٹی کی ماہرِ امیونولوجی، ڈاکٹر اکیوکو ایواساکی مزید تحقیق کے ذریعے واضح کرنا چاہتی ہیں۔

ڈاکٹر ایواساکی کا کہنا ہے کہ ’پی وی ایس کے شکار افراد کو نظر انداز کیا گیا کیونکہ یہ کوئی طبی طور پر تسلیم شدہ حالت نہیں ہے،مجھے یقین ہے سائنسی تحقیق کی بدولت پی وی ایس کی بہتر تشخیص، علاج اور روک تھام ممکن ہو سکے گی، اور اس سے ویکسین کے حفاظتی پہلو بھی مزید واضح ہوں گے۔

نارووال: نماز تراویح کے دوران فائرنگ سے 3 افراد قتل

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود

بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔

29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔

ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔

ڈرائیور سے اداکار تک

محمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔

انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔

ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبار

محمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔

محمود کے صاحبزادے مقصود محمود علی عرف لکی علی (بائیں) بھی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔

مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔

سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔

محمود کے ورسٹائل انداز

سال1961  کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔

اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینی

محمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔

سنہ 1970  کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔

محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہ

انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔

23  جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔

وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی

متعلقہ مضامین

  • ایک اور اداکارہ کا پورا دن گھر میں بےہوش پڑے رہنے کا انکشاف
  • ’مجھے فرق نہیں پڑتا‘، عمرہ وی لاگنگ پر تنقید کرنے والوں کو ربیکا خان کا جواب
  • عمران خان کی فیملی کیخلاف بات کرنے والوں کو پارٹی سے نکال دیں گے
  • داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے استعفی دے دیا
  • روزانہ 7 ہزار قدم پیدل چلنا بیماریوں کو دور رکھتا ہے، تحقیق میں انکشاف
  • دیرپا کیمیکل سے ذیابیطس کا خطرہ 31 فیصد تک بڑھ سکتا ہے، تحقیق
  • ’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
  • کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق
  • اسرائیلی فوج نے غزہ میں امداد لینے والے 1000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، اقوامِ متحدہ کا انکشاف
  • میرے اوررجب بٹ کے مسائل کے ذمہ دار فہد مصطفیٰ ہیں، کاشف ضمیر کا انکشاف