واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 مارچ ۔2025 )یورپی ممالک نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران دو گنا اسلحہ درآمد کیا ہے جس میں سے 60 فیصد سے زائد امریکہ سے خریدا جانے والا اسلحہ ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2024 کے دوران یوکرین دنیا کا سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک تھا جب کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر رہا.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق پانچ برس کے دوران امریکہ نے عالمی سطح پر 43 فیصد اسلحہ فروخت کیا جب کہ فرانس نو اعشاریہ چھ فیصد کے ساتھ دوسرا بڑا ایکسپورٹر رہا امریکہ نے یورپی ملکوں کو گزشتہ پانچ برس کے دوران 64 فیصد اسلحہ فراہم کیا جو 2015 سے 2019 کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے. سال 2015 سے 2019 کے مقابلے میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کے رکن ممالک نے 105 فیصد زیادہ اسلحہ درآمد کیا ہے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکہ کے لیے یورپ اسلحہ کی سب سے بڑی منڈی رہا ہے یورپ نے 24-2020 کے دوران 35 فیصد جب کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے 33 فیصد امریکی اسلحہ خریدا ہے اگر کسی ایک ملک کی بات کی جائے تو سعودی عرب امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا درآمد کنندہ رہا ہے.

ایس آئی پی آر آئی سے وابستہ آرمز ٹرانسفر پروگرام کے سربراہ میتھیو جارج کہتے ہیں کہ یورپ کی جانب سے امریکی اسلحہ کی خریداری میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں روس کے خطرے کا سامنا ہے یورپی ممالک کے اسلحہ کی درآمد میں اضافے سے متعلق یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے پیش نظر دفاعی صلاحیت میں اضافہ کریں گے.

یورپی یونین کی ایگزیکٹو برانچ نے یونین کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے 841ارب ڈالر کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا جس کا مقصد صدر ٹرمپ کی جانب سے یورپ کے دفاع میں مدد سے ممکنہ علیحدگی کے اثرات کم کرنا تھا سینئر ریسرچر پیٹر ویزمین کا کہنا ہے کہ امریکہ سے اسلحہ درآمد میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں نیٹو کے رکن ممالک کے کئی ایسے آرڈرز ہیں جن کے تحت انہیں 500 جنگی جہازوں سمیت دیگر امریکی اسلحہ ملنا باقی ہے.

رپورٹ کے مطابق ویزمین نے کہا کہ اٹلی اور برطانیہ نے امریکہ سے ایف 35 لڑاکا طیاروں سمیت پیٹریاٹ اینٹی ایئر ڈیفنس سسٹم خرید رکھا ہے جو کہ بہت پیچیدہ نظام ہے اور اسے فوری طور پر تبدیل کرنا بہت مشکل عمل ہے انہوں نے کہا کہ بیلجئم، نیدرلینڈز اور ڈنمارک جیسے ممالک کا انحصار امریکی اسلحہ پر ہے اور دفاعی صلاحیت میں تبدیلی کے لیے نہ صرف بھاری سرمایہ درکار ہو گا بلکہ اس کے لیے سیاسی سرمایہ کاری بھی کرنا ہو گی.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ کے مستقبل سے متعلق حالیہ بیانات کے بعد بیلجئم، نیدرلینڈز اور ڈنمارک کی امریکہ کے ساتھ سفارتی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے ویزمین کہتے ہیں کہ اسلحہ کی خریداری کے عمل میں برسوں لگتے ہیں اور بعض اوقات تو امریکی صدر کی مدتِ صدارت مکمل ہونے سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے. فرانس کی جانب سے یورپ کو اسلحہ کی برآمد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے فرانس نے یونان اور کروشیا کو رافیل لڑاکا طیارے فروخت کیے ہیں جب کہ یوکرین کو بھی کئی دیگر ہتھیار فراہم کیے ہیں فرانس کے لیے اسلحہ کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی بھارت رہا یورپی ممالک کے مقابلے میں فرانس نے صرف بھارت کو 28 فیصد اسلحہ فروخت کیا جو یورپی ملکوں کو فروخت کردہ اسلحہ کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہے روس بدستور تیسرا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک ہے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس نے 64 فیصد کم اسلحہ فروخت کیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ تیسرا بڑا ایکسپورٹر بن کر سامنے آیا ہے.

یوکرین جنگ کی وجہ سے اسلحہ کی اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے علاوہ روس کو عالمی پابندیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس کے خریدار دوسری منڈیاں تلاش کر رہے ہیں بھارت نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوان روس سے 38 فیصد اسلحہ خریدا لیکن اب ماسکو پر پابندیوں کی وجہ سے وہ دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے اسی طرح چین نے روس کی کل برآمدات کا 17 فیصد اسلحہ خریدا تھا اور اب وہ اپنی انڈسٹری لگا رہا ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گزشتہ پانچ برسوں کے کے مقابلے میں امریکی اسلحہ یورپی ممالک فیصد اسلحہ سب سے بڑا اسلحہ کی فروخت کی ممالک نے کے مطابق کے دوران کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول

واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا  ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے  کو دیے گئے انٹرویو میں  انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو  ثبوت ہو یا نہ ہو  اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں  نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے  یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی  اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔    

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • رواں مالی سال معاشی نمو کا ہدف حاصل نہ ہو سکا، اقتصادی سروے کو حتمی شکل دیدی گئی
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • چلی ، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • امریکا کی جانب سے سفری پابندی اس کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاس ہے، ایران
  • امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ کردیئے
  • چلی، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول