Express News:
2025-06-09@19:08:54 GMT

سیاستدانوں کی باہمی لڑائیاں کب تک؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ جب تک سیاستدان آپس میں لڑتے رہیں گے ملک میں ہائبرڈ نظام ہی چلے گا۔ پتا نہیں کہ ملک کی اپوزیشن کو کب سمجھ آئے گی کہ سیاسی مسائل کا حل سیاستدانوں کی باہمی بات چیت ہی میں ہے اور سیاستدانوں کے آپس میں مل بیٹھنے سے ہی سیاسی اختلافات ختم ہو سکیں گے۔

انھوں نے کہا کہ 2024 کا یہ پہلا الیکشن نہیں جس کو اپوزیشن متنازع بنا رہی ہے جب 2018 کے الیکشن کے نتیجے میں ہم اپوزیشن میں تھے تو ہم نے بھی الیکشن کو متنازع کہا تھا کیونکہ آر ٹی ایس کا معاملہ بڑا پیچیدہ تھا اور ہمارا مطالبہ تھا کہ ہماری 52 نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئی ہیں۔ ملک میں ہر الیکشن کو متنازع قرار دیا گیا مگر انتخابات کے معاملے کو سیاستدانوں نے ہی ٹھیک کرنا ہے اس لیے سیاستدانوں کو آپس میں لڑنے کے بجائے آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کرنے چاہئیں۔ سیاستدانوں نے اب بھی حقائق کا ادراک نہ کیا اور آپس میں یوں ہی لڑتے رہے تو ملک میں جاری ہائبرڈ نظام ہی برقرار رہے گا۔

سینئر سیاستدان رانا ثنا اللہ نے اپنے ایک انٹرویو میں جو حقائق بیان کیے ہیں وہ سو فی صد درست ہیں اور سیاستدان ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور شخص بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ ملک میں جو ہائبرڈ نظام چل رہا ہے اس کے برقرار رہنے کی واحد وجہ باہمی سیاسی اختلافات اور سیاستدانوں کا آپس میں لڑنا اور تقسیم رہنا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ ملک کے دولخت ہونے کی ایک اہم وجہ بھی سیاستدانوں کا آپس میں لڑنا تھا جس کی وجہ سے جنرل یحییٰ کے کرائے گئے 1970 کے پاکستان میں کرائے گئے انتخابات تھے جو موجودہ انتخابات کی طرح انتہائی متنازع تو نہیں تھے مگر مشرقی پاکستان کے انتخابات کو مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کے برعکس مشرقی پاکستان کے انتخابی نتائج کے باعث صرف دو نشستوں کے علاوہ مشرقی پاکستان سے تمام نشستیں جیت لی تھیں مگر شیخ مجیب کے مغربی پاکستان کے انتخابی دورے کے باوجود عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان کے علاوہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے کوئی نشست نہیں ملی تھی مگر ملک میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ وفاقی حکومت بنانے کے حق دار تھے مگر مغربی پاکستان کے دو صوبوں سندھ و پنجاب میں واضح کامیابی حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی اور صدر جنرل یحییٰ کو عوامی لیگ کو اقتدار دینا قبول نہ تھا کیونکہ دونوں کے سیاسی مفادات تھے اور جنرل یحییٰ صدر رہنے کے خواہش مند تھے اور پی پی کے چیئرمین زیڈ اے بھٹو خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے جب کہ اکثریت کے باعث عوامی لیگ کو اقتدار ملنا چاہیے تھا۔

مغربی پاکستان کے سیاستدانوں میں صرف بھٹو صاحب عوامی لیگ کے اقتدار کے خلاف تھے جب کہ اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کرنے والی نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی کو کوئی اعتراض نہیں تھا جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب اور شیخ مجیب کی اقتدار کی لڑائی تھی اور ملک کے سیاستدان پہلی بار لڑے اور تقسیم ہوئے تھے جس کا نتیجہ ملک کے تقسیم ہونے میں نکلا اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کا اقتدار ملا جنھوں نے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے اتفاق اور سیاستدانوں کے باہمی اتحاد سے 1973 کا متفقہ آئین منظور کرایا تھا۔

1973 کے آئین کے تحت وزیر اعظم بھٹو نے اپنے مقصد کے لیے 1977 میں انتخابات کرائے اور پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت دلائی تھی مگر انتخابی نتائج کو بھٹو مخالف اپوزیشن اتحاد نے مسترد کر دیا تھا اور دوبارہ منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جو بھٹو صاحب نے فوری طور تسلیم کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کی دوبارہ حکومت بنائی اور 5 جولائی 1977 میں ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا اور سیاستدانوں کی آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں جس کا فائدہ غیر سول حکومت نے اٹھایا جس کو بعض سیاستدانوں کی حمایت حاصل تھی جس کے بعد سے سیاستدانوں کی لڑائیاں اب تک جاری ہیں۔

بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی میں سربراہی بے نظیر بھٹو کو ملی اور جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی جو 1988 میں باہمی لڑائی اور تقسیم کا شکار ہوئی جس کے متعدد گروپ بنے۔

پیپلز پارٹی میں بھی بھٹو صاحب کے بعد متعدد گروپ بنے مگر 1988 میں جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد ملک میں دو بڑی سیاسی قوتیں پی پی کی بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف کی شکل میں ابھریں اور دونوں1999 تک چار بار باری باری وزیر اعظم بنے مگر مدت کوئی پوری نہ کر سکا اور دونوں کی حکومتیں کرپشن اور بیڈ گورننس کے باعث پہلے اپنے ہی صدور اور آخر میں جنرل پرویز کے ہاتھوں برطرف ہوئیں اور جنرل پرویز نے کوشش شروع کی کہ وہ دونوں پھر اقتدار میں نہ آ سکیں مگر بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ان کا منصوبہ ناکام رہا مگر ان کے اقتدار میں ہی لندن میں بے نظیر اور نواز شریف نے متحد ہو کر سیاسی معاہدہ کر لیا جس کے بعد دونوں کی پارٹیوں کو اقتدار ملا مگر 2011 میں تحریک انصاف اقتدار کی دوڑ میں شریک ہوئی ۔پی ٹی آئی کا اقتدار آئینی طور پر ختم ہوا جس کو پی ٹی آئی اب بھی غیر قانونی برطرفی قرار دیتی آئی ہے۔

پی ٹی آئی نے سیاستدانوں کی لڑائی کو عروج پر پہنچا رکھا ہے اور بانی پی ٹی آئی کی دوہری پالیسی اپنی رہائی کے لیے چل رہی ہے جو خود حکومت سے مذاکرات کے بجائے بالاتروں سے مذاکرات کی کوشش میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں سیاستدان پھر تقسیم ہو کر آپس میں سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں مگر بانی پی ٹی آئی دیگر حکومتی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں بلکہ مخالفین کو سیاسی مخالف کے بجائے ذاتی دشمن بنائے بیٹھے ہیں تو یہ لڑائی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مغربی پاکستان کے اور سیاستدانوں مشرقی پاکستان سیاستدانوں کی اور سیاستدان پیپلز پارٹی بھٹو صاحب عوامی لیگ کے بجائے ملک میں کے بعد

پڑھیں:

ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول

واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا  ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے  کو دیے گئے انٹرویو میں  انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو  ثبوت ہو یا نہ ہو  اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں  نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے  یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی  اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔    

متعلقہ مضامین

  • بلاول بھٹو کا سندھ طاس معاہدے کی فوری بحالی پر زور
  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے
  • اسپیکر قومی اسمبلی کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے شاہی ظہرانے میں شرکت، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
  • امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
  •  بلاول بھٹو کی سربراہی میں پاکستان کا سفارتی وفد لندن پہنچ گیا
  • امریکا بزورِ قوت بھارت کو مذاکرات کے لیے قائل کر سکتا ہے، بلاول بھٹو
  • مودی عالمی برادری سے بھی جھوٹ بول رہا ہے، بلاول بھٹو
  • پاکستان امن کیلئے تیار، بھارت کو ایک قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے: بلاول بھٹو
  • بلاول بھٹو نے دورۂ امریکہ کو "کامیاب امن مشن" قرار دے دیا
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول