شہباز شریف کا شوگر مافیا سے مقابلہ، کون ہوگا کامیاب؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) شوگر سیکٹر میں پہلے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوتی تھی جو اس بات سے ثابت ہے کہ اس شعبے میں جیسے ہی نیا نافذ کردہ مانیٹرنگ اینڈ انفورسمنٹ سسٹم آیا ہے ٹیکس وصولیوں میں 54؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، چونکہ چینی کی فروخت پر سیلز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لہٰذا جنوری اور فروری 2025 میں 24ارب روپے اکٹھے ہوئے ہیں، جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران صرف 15؍ ارب روپے جمع ہو پائے تھے۔
چینی کی مستحکم فروخت کے حجم کے باوجود اس وصولی میں 54؍ فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملک میں شوگر انڈسٹری پر سیاسی اثر رسوخ نمایاں ہے، بالخصوص پنجاب اور سندھ میں حکمران شریف فیملی کے ارکان سمیت کئی سیاست دان شوگر مل مالکان ہیں۔
ذرائع کے مطابق، وزیر اعظم شہباز شریف شوگر سیکٹر میں ٹیکس چوری کیخلاف ہفتہ وار بنیادوں پر ایف بی آر کے کریک ڈائون کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ایف بی آر کی کارروائی کا بظاہر ردعمل یہ ہے کہ شوگر کارٹیل مبینہ طور پر اوپن مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے کا بندوبست کر چکی ہے۔
ایک ذریعے نے بتایا (جس کی تصدیق ایک وفاقی وزیر نے بھی کی ہے) کہ شوگر کارٹیل کے اس اقدام کے جواب میں وزیر اعظم نے متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر شوگر مل مالکان نے اپنا رویہ ٹھیک نہ کیا تو بیرون ملک سے خام چینی درآمد کرنے پر غور کیا جائے۔
حکام نے شوگر انڈسٹری میں ٹیکس چوری کیخلاف کریک ڈائون تیز کر دیا ہے، جاری کرشنگ سیزن کے دوران ٹریک اینڈ ٹریس مہر والے ایک لاکھ خالی تھیلے ضبط کیے گئے ہیں۔ یہ فراڈ مبینہ طور پر پیداواری ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور ٹیکس سے بچنے کیلئے کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق، حالیہ نفاذ کے اقدامات کے تحت 6؍ شوگر ملوں میں دس شیوٹس / ہاپرز کو سیل کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے دو ہاپر نگرانی کے سرکاری نظام سے منسلک نہیں تھے جنہیں پہلے سیل اور اس کے بعد ختم کر دیا گیا۔
شوگر انڈسٹری سے متعلق انفارسمنٹ کے تازہ ترین اقدامات کے ایک حصے کے طور پر، ایف بی آر ان لینڈ ریونیو انفورسمنٹ نیٹ ورک اور انٹیلی جنس بیورو کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں 52؍ ہزار 410؍ چینی کے تھیلوں کو تحویل میں لیا گیا جنہیں ٹیکس اور 125؍ ملین روپے سے زائد کے جرمانے کی وصولی کے بعد واپس کیا گیا۔
مزید برآں، حکام نے سیلز ٹیکس کے واجبات کی مد میں 70؍ کروڑ روپے کی وصولی کیلئے 3؍ شوگر ملوں کے گودام بند کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ٹیکس وصولی کے گزشتہ برسوں کی دو ارب روپے سے زائد کی واجبات کی ریکوری کی گئی ہے۔
دریں اثنا، موجودہ سیزن کیلئے چینی کی کل پیداوار 57؍ لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، جب گزشتہ سال کے اسٹاک کو ملایا جائے تو یہ مقدار ملکی ضروریات کیلئے کافی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت کے بعد، ایف بی آر نے 2024-25ء کے کرشنگ سیزن کے آغاز پر پیداوار کی نگرانی کا بہتر نظام شروع کیا۔
فی الحال، ٹیکس چوری کو روکنے کیلئے نگرانی کے 5؍ طریقہ کار موجود ہیں: اول، پیداوار کی نگرانی کیلئے ٹریک اینڈ ٹریس مہریں۔ دوم، چینی کے تھیلوں کی تعداد کو ٹریک کرنے کیلئے ہاپرز پر خودکار کائونٹرز کی موجودگی۔
سوم، انتہائی درست انداز سے وقت کا تعین کرتے ہوئے ویڈیو ریکارڈنگ اور ڈیجیٹل آئی کائونٹنگ سسٹم کی موجودگی۔ چہارم، چینی کی ترسیل کی نگرانی کیلئے ایس ٹریک انوائسنگ سسٹم کی موجودگی، اور پنجم، سائٹ پر موجود مینوفیکچرنگ اور فروخت کی نگرانی کرنے والا ایف بی آر کا عملہ۔ ایف آئی اے اور آئی بی والے بھی شفافیت کو یقینی بنانے کی خاطر کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ملزمان کو روکنے کیلئے شوگر ملوں میں تعینات ایف بی آر افسران کو ہر دس دن بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے جبکہ سی سی ٹی وی کی نگرانی اور اعلیٰ حکام کی جانب سے سرپرائز انسپکشن کی وجہ سے نگرانی مزید سخت ہو جاتی ہے۔
حکام اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا چینی اصل ڈسٹری بیوٹرز کو فروخت کی جا رہی ہے یا قیمتوں میں ہیرا پھیری کی خاطر ذخیرہ کی جا رہی ہے۔ انفورسمنٹ نیٹ ورک اب پوری سپلائی چین کی نگرانی کر رہا ہے تاکہ ٹیکس چوری یا ہر طرح کی ذخیرہ اندوزی کو روکا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ جاری کریک ڈائون شوگر انڈسٹری میں مالی بدانتظامی روکنے اور ٹیکس چوری سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے حکومتی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
انصار عباسی
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق شوگر انڈسٹری ٹیکس چوری کی نگرانی ایف بی ا ر چینی کی کر دیا
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے شرائط، ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں ناکام
آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط کے لیے ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس سمیت بعض شرائط پوری نہیں ہوسکی ہیں تاہم طے شدہ شرائط میں سے زیادہ تر شرائط پوری کردی گئیں۔
آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کے تحت پاکستان پر 50 کے لگ بھگ شرائط عائد کر رکھی ہیں جن میں سے زیادہ تر شرائط پوری کی جاچکی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ پورے کیے گئے اہداف میں گیس ٹیرف کی ششماہی بنیاد پر ایڈجسمنٹ، ٹیکس چھوٹ کے خاتمے اور کفالت پروگرام کے تحت مستحقین کو غیر مشروط رقوم کی منتقلی بھی شامل ہے، ڈسکوز کی نجکاری کے لیے پالیسی ایکشن سمیت بعض شرائط پر کام جاری ہے البتہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سالانہ ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس سمیت کئی شرائط پوری نہ ہوسکیں۔
آئی ایم ایف کی اجازت سے چینی کی سرکاری درآمد پرٹیکس چھوٹ دی گئی اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہی بجٹ 26-2025 منظور کروایا گیا، بجٹ سے ہٹ کر اخراجات کی پارلیمنٹ سے منظوری کی شرط بھی پوری ہوگئی ہے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان فسکل پیکٹ کی شرط پرعمل کیا جاچکا، ڈسکوز اور جینکوز کی نج کاری کے لیے پالیسی اقدامات پر کام جاری ہے جبکہ خصوصی اقتصادی زونز پر مراعات ختم کرنے کی شرط پر بھی عمل دآمد ہوگیا ہے۔
مزید بتایا گیا کہ سرکاری اداروں میں حکومتی عمل دخل میں کمی کی شرط میں پیش رفت ہوئی ہے، زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کے لیے قانون سازی کی شرط پر تاخیر سے عمل ہوا، اسلام آباد، کراچی، لاہور میں کمپلائنس رسک منیجمنٹ سسٹم نافذ کیا گیا ہے۔
پی ایس ڈی پی منصوبوں کے لیے بہتر پبلک انویسٹمنٹ منیجمنٹ پر جزوی عمل درآمد کیا گیا، اسی طرح اعلیٰ سرکاری حکام کے اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون سازی میں پیش رفت ہوئی ہے۔
کفالت پروگرام کے تحت مہنگائی تناسب سے غیر مشروط کیش ٹرانسفر کی شرط پوری ہوگئی ہے، اس کے علاوہ ٹیکس ڈائریکٹری کی اشاعت کے بارے میں بھی پیش رفت ہوئی ہے۔