Daily Mumtaz:
2025-07-24@20:38:58 GMT

شہباز شریف کا شوگر مافیا سے مقابلہ، کون ہوگا کامیاب؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

شہباز شریف کا شوگر مافیا سے مقابلہ، کون ہوگا کامیاب؟

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) شوگر سیکٹر میں پہلے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوتی تھی جو اس بات سے ثابت ہے کہ اس شعبے میں جیسے ہی نیا نافذ کردہ مانیٹرنگ اینڈ انفورسمنٹ سسٹم آیا ہے ٹیکس وصولیوں میں 54؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، چونکہ چینی کی فروخت پر سیلز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لہٰذا جنوری اور فروری 2025 میں 24ارب روپے اکٹھے ہوئے ہیں، جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران صرف 15؍ ارب روپے جمع ہو پائے تھے۔

چینی کی مستحکم فروخت کے حجم کے باوجود اس وصولی میں 54؍ فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملک میں شوگر انڈسٹری پر سیاسی اثر رسوخ نمایاں ہے، بالخصوص پنجاب اور سندھ میں حکمران شریف فیملی کے ارکان سمیت کئی سیاست دان شوگر مل مالکان ہیں۔

ذرائع کے مطابق، وزیر اعظم شہباز شریف شوگر سیکٹر میں ٹیکس چوری کیخلاف ہفتہ وار بنیادوں پر ایف بی آر کے کریک ڈائون کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ایف بی آر کی کارروائی کا بظاہر ردعمل یہ ہے کہ شوگر کارٹیل مبینہ طور پر اوپن مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے کا بندوبست کر چکی ہے۔

ایک ذریعے نے بتایا (جس کی تصدیق ایک وفاقی وزیر نے بھی کی ہے) کہ شوگر کارٹیل کے اس اقدام کے جواب میں وزیر اعظم نے متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر شوگر مل مالکان نے اپنا رویہ ٹھیک نہ کیا تو بیرون ملک سے خام چینی درآمد کرنے پر غور کیا جائے۔

حکام نے شوگر انڈسٹری میں ٹیکس چوری کیخلاف کریک ڈائون تیز کر دیا ہے، جاری کرشنگ سیزن کے دوران ٹریک اینڈ ٹریس مہر والے ایک لاکھ خالی تھیلے ضبط کیے گئے ہیں۔ یہ فراڈ مبینہ طور پر پیداواری ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور ٹیکس سے بچنے کیلئے کیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق، حالیہ نفاذ کے اقدامات کے تحت 6؍ شوگر ملوں میں دس شیوٹس / ہاپرز کو سیل کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے دو ہاپر نگرانی کے سرکاری نظام سے منسلک نہیں تھے جنہیں پہلے سیل اور اس کے بعد ختم کر دیا گیا۔

شوگر انڈسٹری سے متعلق انفارسمنٹ کے تازہ ترین اقدامات کے ایک حصے کے طور پر، ایف بی آر ان لینڈ ریونیو انفورسمنٹ نیٹ ورک اور انٹیلی جنس بیورو کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں 52؍ ہزار 410؍ چینی کے تھیلوں کو تحویل میں لیا گیا جنہیں ٹیکس اور 125؍ ملین روپے سے زائد کے جرمانے کی وصولی کے بعد واپس کیا گیا۔

مزید برآں، حکام نے سیلز ٹیکس کے واجبات کی مد میں 70؍ کروڑ روپے کی وصولی کیلئے 3؍ شوگر ملوں کے گودام بند کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ٹیکس وصولی کے گزشتہ برسوں کی دو ارب روپے سے زائد کی واجبات کی ریکوری کی گئی ہے۔

دریں اثنا، موجودہ سیزن کیلئے چینی کی کل پیداوار 57؍ لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، جب گزشتہ سال کے اسٹاک کو ملایا جائے تو یہ مقدار ملکی ضروریات کیلئے کافی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت کے بعد، ایف بی آر نے 2024-25ء کے کرشنگ سیزن کے آغاز پر پیداوار کی نگرانی کا بہتر نظام شروع کیا۔

فی الحال، ٹیکس چوری کو روکنے کیلئے نگرانی کے 5؍ طریقہ کار موجود ہیں: اول، پیداوار کی نگرانی کیلئے ٹریک اینڈ ٹریس مہریں۔ دوم، چینی کے تھیلوں کی تعداد کو ٹریک کرنے کیلئے ہاپرز پر خودکار کائونٹرز کی موجودگی۔

سوم، انتہائی درست انداز سے وقت کا تعین کرتے ہوئے ویڈیو ریکارڈنگ اور ڈیجیٹل آئی کائونٹنگ سسٹم کی موجودگی۔ چہارم، چینی کی ترسیل کی نگرانی کیلئے ایس ٹریک انوائسنگ سسٹم کی موجودگی، اور پنجم، سائٹ پر موجود مینوفیکچرنگ اور فروخت کی نگرانی کرنے والا ایف بی آر کا عملہ۔ ایف آئی اے اور آئی بی والے بھی شفافیت کو یقینی بنانے کی خاطر کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ملزمان کو روکنے کیلئے شوگر ملوں میں تعینات ایف بی آر افسران کو ہر دس دن بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے جبکہ سی سی ٹی وی کی نگرانی اور اعلیٰ حکام کی جانب سے سرپرائز انسپکشن کی وجہ سے نگرانی مزید سخت ہو جاتی ہے۔

حکام اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا چینی اصل ڈسٹری بیوٹرز کو فروخت کی جا رہی ہے یا قیمتوں میں ہیرا پھیری کی خاطر ذخیرہ کی جا رہی ہے۔ انفورسمنٹ نیٹ ورک اب پوری سپلائی چین کی نگرانی کر رہا ہے تاکہ ٹیکس چوری یا ہر طرح کی ذخیرہ اندوزی کو روکا جا سکے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ جاری کریک ڈائون شوگر انڈسٹری میں مالی بدانتظامی روکنے اور ٹیکس چوری سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے حکومتی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

انصار عباسی

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق شوگر انڈسٹری ٹیکس چوری کی نگرانی ایف بی ا ر چینی کی کر دیا

پڑھیں:

 بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!

وفاقی بجٹ 2025-26 کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا یہ بجٹ پاکستان کی کمزور معیشت کو بحال کرنے، مہنگائی کم کرنے اور صنعتی بنیاد کو سہارا دینے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے دعووں کے برعکس یہ ریلیف اور اصلاحات فراہم کرنے کے بجائے، تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں خاص طورپر ہمارے امپورٹیڈ وزیر خزانہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آج پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی ضرورت ہے جو اعتماد اور تعاون سے چلتی ہو، نہ کہ دباؤ اور جبر سے بجٹ کے اعلان کے بعد حکومت کے اقدامات درحقیقت ان لوگوں کو ایک پیغامِ عدم اعتماد دے رہی ہے جو طویل عرصے سے قومی آمدنی کا ستون رہے ہیں۔ یہ بجٹ کاروباری برادری کو قومی ترقی میں شراکت دار کے بجائے مشتبہ افراد کے طور پر دیکھتا ہے، جنہیں نگرانی اور سزا کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل آمدنی کا 70 فیصد سے زائد نجی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس شاندار کردار کو سراہنے کے بجائے، حکومت نے مبینہ طورپر ایک جارحانہ اور مخالفانہ لہجہ اختیار کر رکھا ہے، جو سرمایہ کے انخلاء، سرمایہ کاری میں کمی اور مزید کاروباروں کے غیر دستاویزی معیشت میں منتقل ہونے کے خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی معیشت میں روزگار اور جدت کے بنیادی انجن ہیں۔ اس شعبے کو نہ کوئی مؤثر ریلیف دیا گیا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، جو کہ پہلے ہی ایک پیچیدہ اور بوجھل نظام ہے۔ کاروباری برادری کی بار بار اپیلوں کے باوجود صنعتوں اور برآمد کنندگان کے لیے توانائی کی سبسڈی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔درمیانے طبقے اور کم آمدنی والے گروپوں کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کم از کم اجرت میں اضافے کی کوئی تجویز بھی بجٹ میں موجود نہیں، نہ ہی بنیادی اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی گئی ہے، اور نہ ہی بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے نجات دی گئی ہے اس کے برعکس بجٹ کے اعلان کے بعد پے درپے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیاجارہاہے۔ جیسے جیسے مہنگائی گھریلو آمدنی کو کھا رہی ہے، معاشی بدانتظامی کا بوجھ ایک بار پھر سب سے زیادہ کمزور طبقوں پر ڈال دیا گیا ہے۔حکومت اس بجٹ کو شفافیت اور دستاویزی معیشت کی جانب قدم قرار دے رہی ہے، مگر اس کے طریقے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔معاشی بحالی دباؤ سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ اقتصادی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایک ایسا ٹیکس نظام درکار ہے جو دباتا نہیں بلکہ سہارا دیتا ہے، توڑتا نہیں بلکہ تعمیر کرتا ہے۔حقیقی اصلاحات جبر سے حاصل نہیں کی جا سکتیں، بلکہ ان کے لیے احترام، انصاف اور اعتماد ضروری ہے۔اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے ٹیکس نظام کو اس انداز میں دوبارہ ترتیب دینا چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل دستاویزات کے فروغ کے لیے مراعات دے، نہ کہ دھمکیاں۔ توجہ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر ہونی چاہیے، نہ کہ بار بار انہی ٹیکس دہندگان کو نچوڑنے پر۔ ٹیکس تنازعات کا فیصلہ خود ایف بی آر کے بجائے آزاد ٹربیونلز کو کرنا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات، کاروباری اداروں کو ایک ایسے ماحول میں کام کرنے دیا جائے جو ان کی رازداری اور مالی وقار کا تحفظ کرے۔جب ہم اپنے خطے پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کی طرف سے زیادہ ترقی پسند اور کاروبار دوست پالیسیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت نے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (GST) کا ایک مؤثر نظام نافذ کیا ہے جو ایک ونڈو پلیٹ فارم کے ذریعے ٹیکس کی تعمیل کو آسان بناتا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنی برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی سطح پر نمایاں کیا ہے۔ ویتنام کارپوریٹ ٹیکس کی مراعات اور صنعت و آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہدفی امداد کے ذریعے عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر رہا ہے۔جب یہ ممالک معاشی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم کر رہے ہیں، پاکستان کا نیا بجٹ دونوں کو روکنے کا ہتھیار دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے پاس بہتر آپشنز موجود تھیں۔ وہ SMEs کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کر سکتی تھی، ٹیکس ہالیڈیز اور اسٹارٹ اپ گرانٹس متعارف کروا سکتی تھی، اور مقامی صنعت و پیداوار کو بڑھانے کے لیے GST کم کر سکتی تھی۔ برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر سہارا دیا جا سکتا تھا۔ ایف بی آر کو شفاف، خدمت گزار ادارہ بنایا جا سکتا تھا، جس میں مؤثر داخلی احتساب ہوتا۔بدعنوانی کے خلاف اندرونی طور پر لڑنے کے لیے ”وسل بلوئر” نظام متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسے بنیادی شعبوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں وسائل مختص کیے جانے چاہیے تھے تاکہ انسانی ترقی کو پائیدار بنایا جا سکے۔بدقسمتی سے، بجٹ 2025-26 اصلاحات کا خاکہ نہیں بلکہ مالیاتی آمریت کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔اس صورت حال کا اگر بروقت ادراک نہ کیاگیااور اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے، تو ملک کاروباری طبقے کو خود سے دور کرنے، جدت کو کمزور کرنے، اور معاشی زوال کو مزید گہرا کرنے کے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔معاشی بحالی دھونس سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایسے ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جو سہارا دے، نہ کہ دباؤ ڈالے ،تعمیر کرے، نہ کہ توڑے۔ ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں کاروبار کو سراہا جائے، نہ کہ مجرم ٹھہرایا جائے اور جہاں پالیسی شراکت داری کا عکس ہو، نہ کہ سزا کا۔
پاکستان نے اس ماہ ایک اور مالی سال کا آغاز کرتے ہی بجٹ کے حوالے سے پائے جانے والے وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات کے باوجود، حکمرانوں نے عوامی جذبات کونظرانداز کرتے ہوئے اپنی خود ساختہ کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔یہ صحیحہے کہ آج پاکستان2سال قبل کے مقابلے مجیں جب ملک کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا تھا اور روپے کو شدید اتار چڑھاؤ درپیش تھا کافی فاصلے پر کھڑا ہے، ۔اس کامیابی کا سبب حکمرانوں کی پالیسیوں کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کا سبب ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی ہے جس نے پاکستان کو وقتی طور پر مالی استحکام دلا دیا۔مگر، عوام کے جذبات اور اقتدار کے ایوانوں کے بیانیے کے درمیان یہ خلیج ایک اہم مسئلہ کو اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں، لیکن ایسے نقادوں کی کمی نہیں جو ان دعووں کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں نے بارہا انتباہی اشاروں کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً 40 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 10 کروڑ افراد، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ”سب اچھا ہے” کے نعرے پر ملک کی قیادت کرنا مستقبل سے متعلق سنگین غلط فہمیوں کو جنم دے
سکتا ہے۔اس تلخ حقیقت کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلی کا گہرا چیلنج بھی ہے، جس کی عکاسی پاکستان بھر میں جاری بارش سے جڑے تباہ کن واقعات سے ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بمشکل ہی کوئی علاقہ ایسا ہوگا جہاں مون سون کی بارشوں نے غیر متوقع اثرات نہ ڈالے ہوں۔ بدلتے موسم کے رجحانات اس بات کا واضح پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کی غذائی سلامتی اب خطرے میں ہے۔گزشتہ مالی سالجولائی 2024 تا جون 2025کے دوران زرعی پیداوار میں محض 0.6 فیصد کی معمولی شرح نمو اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔زراعت میں جاری نقصانات نے پاکستان کے صدیوں پرانے فصلاتی نظام کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اگر غذائی تحفظ سے جڑے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ان کے بھیانک نتائج یقینی طور پر سامنے آئیں گے۔زراعت سے منسلک روزگار اور آمدنی کے بے شمار مواقع اس شعبے کو ملکی معیشت کے لیے نہایت اہم بناتے ہیں۔ جب تک غریب کسانوں کی آمدنی میں بہتری نہیں آتی اور انہیں مؤثر تحفظ نہیں ملتا، پاکستان کو آنے والے برسوں میں ایک وسیع تر سماجی و معاشی بحران کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ سادہ الفاظ میں، پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ ان افراد کی حفاظت کی جا سکے جو انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور جن کے لیے مستقبل کی کوئی امید نہیں۔ پاکستان کا صنعتی شعبہ بھی گہرے سوالات کی زد میں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ گزشتہ مالی سال میں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار میں 1.6 فیصد کمی آئی۔ فی الحال، پاکستان کے جاری کھاتے میں بہتری بنیادی طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے ملک کو اب تک بچا کر رکھا ہوا ہے۔ تاہم، پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کی ضمانت بالآخر برآمدات میں مضبوط اور متنوع اضافے سے ہی مشروط ہونی چاہیے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے زراعت سے لے کر صنعت تک برآمدات میں تنوع پیدا کرنا ناگزیر ہے۔آخر میں، اس ہفتے تنخواہ دار طبقے کے لیے نئے سادہ ٹیکس فائلنگ نظام کی رونمائی پر کی گئی سرکاری تشہیر پر بھی نظرثانی ضروری ہے۔ ٹیکس محصولات میں سب سے بڑی کمی پاکستان کے پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے تنخواہ دار طبقے میں نہیں بلکہ ان اہم شعبوں میں ہے جو یا تو انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے یا اپنی حیثیت سے کہیں کم ادا کرتے ہیں۔بارہا پاکستان کو ایسے خلا کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جو ریاستی رٹ نافذ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ لیکن اب جب کہ پاکستان کو اقتصادی میدان میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، ماضی کی غلطیوں کو درست کر کے ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھنا ناگزیر ہے۔بالآخر، پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت کا انحصار ان اصلاحات پر ہے جو طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ یہ اصلاحات اسی وقت کامیاب ہوں گی جب پاکستان کے رہنما واضح رہنمائی فراہم کریں گے اور خود اس پر عمل کر کے مثال قائم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ میں مخبر کے تحفظ اور نگرانی کیلئے کمیشن کے قیام کا بل منظور
  • ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے پر عزم ہیں؛ وزیراعظم 
  • وزیرا عظم شہباز شریف یوم آزادی کے موقع پر الیکٹرک بائیکس اسکیم کا افتتاح کریں گے
  • چینی امپورٹ کا فیصلہ کابینہ نے کیا، ہم تو فیصلے کے پابند ہیں: چیئرمین ایف بی آر
  • غیررسمی معیشت کے سدباب کیلئے انفورسمنٹ سے متعلق مزید اقدامات کیے جائیں: وزیر اعظم شہباز شریف
  • ایف بی آر اصلاحات سے ٹیکس نظام میں بہتری خوش آئند، مزید اقدامات یقینی بنائے جائیں، وزیرِاعظم
  • خیبر پختونخوا حکومت نے 24 جولائی کو امن و امان بارے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی
  • چینی بھائیوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • چینی باشندوں کی سیکیورٹی کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  •  بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!