گزشتہ برس کھیلے گئے ٹی20 ورلڈ کپ کی فتح کے برعکس، بورڈ آف کرکٹ کنٹرول ان انڈیا یعنی بی سی سی آئی نے بھارت کی پاکستان اور دبئی میں کھیلی گئی حالیہ چیمپیئنز ٹرافی کے بھارتی ہیروز کے لیے کوئی بس پریڈ کا منصوبہ ترتیب نہیں دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت نے نیوزی لینڈ کو 4 وکٹوں سے شکست دے کر آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کرلیا

دبئی میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کی فاتحانہ مہم کے بعد بھارتی کرکٹ ٹیم کے ارکان کی وطن واپسی شروع ہوچکی ہے، ہیڈ کوچ گوتم گمبھیر منگل کو دہلی پہنچے جبکہ کپتان روہت شرما بھی ممبئی میں ہی وطن واپس آئے۔

https://Tweet.

com/mufaddal_vohra/status/1899136778604298730

ٹی20 ورلڈ کپ 2024 کے برعکس، جہاں پوری ہندوستانی ٹیم چارٹر فلائٹ میں وطن واپس پہنچی تھی، کھلاڑی اور معاون عملہ کے ارکان دبئی سے مختلف اوقات میں مختلف شہروں میں پہنچ رہے ہیں۔

بھارت نے گزشتہ سال وینکھڈے اسٹیڈیم میں ایک کھلی بس پریڈ اور پروقار تقریب منعقد کی تھی، جب قومی کرکٹ ٹیم کو ٹی20  ورلڈ کپ کی فتح کا تاج پہنایا گیا تھا، لیکن اس بار ایسی کوئی عوامی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیاہے، کم از کم آنے والے دنوں میں تو نہیں۔

 https://Twitter.com/ANI/status/1899114478341689661

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن واپسی پر چیمپیئنز ٹرافی کے ہیروز کے لیے کوئی بس پریڈ کیوں نہیں؟ جس کا بظاہر جواب، بھارتی میڈیا کے مطابق، انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل 2025 کی مہم ہے جس کا 22 مارچ سے آغاز متوقع ہے۔

توقع ہے کہ چند دنوں میں کرکٹرز اپنے اپنے کیمپوں میں شامل ہو جائیں گے،  ظاہر ہے کہ کرکٹرز  نئے سیزن کے لیے اپنی ٹیموں میں شمولیت سے قبل تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے تروتازہ ہونا چاہتے ہیں۔

درحقیقت، آئی پی ایل کی کچھ فرنچائزز نے ٹی20 لیگ کے 18ویں سیزن سے قبل ہی اپنے کیمپ شروع کر دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کھلاڑیوں کی واپسی اور آئی پی ایل کے آغاز کے درمیان وقت کی کمی بی سی سی آئی کو آئندہ دنوں میں ٹی20 ورلڈ کپ جیسا پروگرام شیڈول کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

مزید پڑھیں:چیمپیئنز ٹرافی کی فاتح بھارتی کرکٹ ٹیم کو کتنی انعامی رقم ملی؟

دیگر بھارتی کرکٹرز بھی دبئی سے اپنی منزلوں کے لیے روانہ ہو گئے ہیں، ان میں سے کچھ، اطلاعات کے مطابق، ملک واپس آنے سے پہلے بیرون ملک مختصر تعطیلات کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ آئندہ آئی پی ایل مہم کے لیے اپنی تیاری شروع کر سکیں۔

بھارت نے گزشتہ اتوار کو دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں نیوزی لینڈ کو بآسانی 4 وکٹوں سے شکست دے کر اپنا تیسرا چیمپئنز ٹرافی ٹائٹل اپنے نام کیا، جو الگ سے ایک اعزاز ہے۔

چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد بھارتی کرکٹرز نے وطن واپسی کے لیے الگ الگ منتشر ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ 2025 کی چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد ٹیم کی وطن واپسی پر کوئی وسیع جشن ان کا منتظر نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی 2025 فائنل: بھارت اور نیوزی لینڈ کا ہیڈ ٹو ہیڈ ریکارڈ

ممبئی انڈینز، جن کی صفوں میں روہت شرما اور ہاردک پانڈیا ہیں، نے اتوار کو وینکھڈے اسٹیڈیم میں پری ٹورنامنٹ پریکٹس سیشن کا آغاز کیا جبکہ فاسٹ بولر محمد شامی رکھنے والی سن رائزرس حیدرآباد کی ٹیم نے اس ماہ کے اوائل میں ہی اپنے پری سیزن کیمپ کا آغاز کردیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی پی ایل بس پریڈ بھارت چیمپیئنز ٹرافی دہلی روہت شرما کپتان کرکٹ گوتم گمبھیر ممبئی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی پی ایل بس پریڈ بھارت چیمپیئنز ٹرافی دہلی روہت شرما کپتان کرکٹ گوتم گمبھیر چیمپیئنز ٹرافی بھارتی کرکٹ آئی پی ایل وطن واپسی کے لیے ا بس پریڈ ورلڈ کپ کے بعد

پڑھیں:

غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس

9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔

ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔

آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا  آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔

اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • بھارتی ٹیم کے لیے بڑا دھچکا، اہم کھلاڑی انگلینڈ کے خلاف سیریز سے باہر
  • شاہین آفریدی کی انگلینڈ میں چیمپیئنز ٹیم کیساتھ بھرپور پریکٹس
  • کینیڈا کی جونیئر ہاکی ٹیم کے 5 سابق کھلاڑی جنسی زیادتی کے مقدمے سے بری
  • جنت مرزا کو کس بھارتی ہیرو کیساتھ کام کرنے کی پیشکش ہوئی؟ ٹک ٹاک اسٹار نے بتا دیا
  • ایئرپورٹ پر کپڑے اتروا کر طبی معائنہ؛ آسٹریلوی خواتین کی مقدمے میں کامیابی
  • بہاولپور بورڈ؛ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی طالبہ کی میٹرک میں شاندار کامیابی
  • ہم نے ایران کیخلاف اسٹریٹجک گفتگو شروع کر رکھی ہے، غاصب صیہونی وزیر خارجہ کا دورہ کی اف
  • موقع نہیں ملے گا تو کھلاڑی صلاحیت کیسے منوائے گا، علی امین گنڈاپور
  • عالمی جونیئر اسکواش چیمپئن شپ، پاکستان کے عبداللہ نواز کی دوسرے راؤنڈ میں کامیابی