ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث پی ٹی آئی رہنما جے آئی ٹی کے سامنے پیش
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث پی ٹی آئی رہنما جے آئی ٹی کے سامنے پیش WhatsAppFacebookTwitter 0 11 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)نے منفی پروپیگنڈے میں ملوث پی ٹی آئی کے 25افراد کو دوبارہ طلب کیا تھا جس پر رہنماوں سمیت دیگر افراد پیش ہوئے۔ذرائع کے مطابق سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ، پی ٹی آئی رہنما روف حسن، شاہ فرمان اور اسد قیصر اور پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر کنول شوذب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوگئے۔
جے آئی ٹی تمام 25 افراد سے شواہد کی روشنی میں تحقیقات کر رہی ہے، ان افراد کے خلاف تحقیقات ریاست مخالف پروپیگنڈے کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔پی ٹی آئی کے 25افراد میں رہنما اور سوشل میڈیا ٹیم شامل ہے، آئی جی اسلام آباد جے آئی ٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔نوٹسز میں ان تمام افراد کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اس معاملے پر اپنی پوزیشن کی وضاحت کریں۔
پولیس لائن میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے۔ میڈیا کو پولیس لائن داخلے سے بھی روک دیا گیا تاہم کچھ فاصلے پر کوریج کی اجازت دی گئی۔
طلبی نوٹس وصول کرنے والوں میں عون عباس، عالیہ حمزہ ملک، محمد شہباز شبیر، وقاص اکرم، کنول شوذب، تیمور سلیم خان اور اسد قیصر، شاہ فرمان، آصف رشید، محمد ارشد، صبغت اللہ ورک، اظہر مشوانی، محمد نعمان افضل بھی شامل ہیں۔جبران الیاس، سلمان رضا، ذلفی بخاری، موسی ورک اور علی ملک کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی ان تمام افراد سے شواہد کی روشنی میں تحقیقات کر رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی جے آئی ٹی
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔