K&Ns کی خون بھری فروزن چکن،پکاتے وقت ہانڈی خون آلود،صحت کا قتل عام،کو ئی پر سان حال نہیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام آباد ( اے بی این نیوز )K&Ns کے تحت جو چکن اس وقت مارکیٹ میں فروخت کیا جا رہا ہے اس سے جو کھانے کی چیزیں بنائی جاتی ہیں ان میں نگٹس اور برگر پیٹیز وغیرہ جو ہیں وہ بچوں میں بہت زیادہ پسندیدہ پائے جاتے ہیں اور بچے نگٹس وغیرہ انتہائی شوق سے کھاتے ہیں لیکن یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مبینہ طور پر جو نگٹس برگر اور پیٹیز میں اس چکن کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے جو کہ خون آلود ہوتا ہے۔ حفظان صحت کا اصول بھی نہیں رکھا جاتاچکن کے گوشت میں ہڈیاں پائی جاتی ہیں اور جب بچے نگٹس برگر یا پیٹیز کھاتے ہیں چونکہ وہ معصوم ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ صحیح طرح چیک کر کے کھا سکیںمبینہ طور ہڈیاں ان کے منہ میں آتی ہیں اور بعض اوقات یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ ان کے حلق میں یہ ہڈیاں جا چکی ہیں یا تالو کو نقصان پہنچاتی ہیں دانتوں کو نقصان پہنچاتی ہیں یا منہ کو اندر سے زخمی کر دیتی ہیں حتی کہ یہ بھی امکانات پائے جاتے ہیں کہ یہ بعض اوقات ہڈی جو ہے کسی معصوم بچے کے گلے میں پھنس جائے تو وہ اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے محکمہ صحت کو اس جانب توجہ دینا چاہیے کہ نہ تو یہ کے اینڈ این ایس مرغی کو حلال کرنے کے صحیح طریقے پر عمل درآمد کر رہا ہے نہ ہی گوشت کو اتنا وقت دیتا ہے کہ اس چکن کے گوشت سے سارا خون نکل جائے یہ صرف اپنا کاروبار کرنے کے لیے اس وقت پاکستان میں انسانی جانوں سے اور خاص کر معصوم بچوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں جب بھی اس گوشت سے لے کر جو کہ فروزن گوشت ہوتا ہے گھریلو سطح پر خواتین ہانڈی پکاتی ہیں تو اسچکن گوشت سے بھی نبینہ طور پر تازہ خون جس رہا ہوتا ہے یہ انسانی صحت کے لیے زہر قاتل ہے اس کو روکنے کے کیلئے متعلقہ حکام کو انتہائی جلدی کوئی نہ کوئی اقدام اٹھانے ہوں گے تاکہ قوم کواس کی وجہ سے لگنے والی مختلف ایسی ناسور بیماریوں سے بچایا جا سکے جو کہ لاعلاج ہوں۔
K&Nsمزید پڑھیں : نے عوام میں موت باٹنا شروع کر دی،حلال فروزن چکن کے نام پر بڑا فراڈ بے نقاب
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہیں اور
پڑھیں:
بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
بلوچستان کے مسئلے کو عشروں سے جس انداز میں نظر انداز اور غلط طریقے سے نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔
ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس خلاء کو پْر کرنے کے لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔
اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اْس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہے… چاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے… بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ— سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔
آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ بلوچستان میں ایسے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی نوجوان بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت بن سکیں۔اب ہمیں ماضی سے نکل کر مستقبل پر توجہ دینی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان ایک پْرامن اور خوشحال خطہ بنے۔ اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دولت انسان ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی ہی بلوچستان اور پاکستان کی پائیدارترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دینا ہوگا تاکہ کوئی دوبارہ پہاڑوں کی طرف نہ دیکھے۔
بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انھی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔
سرداروں اور سرکاری اداروں کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضایع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100 ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔
بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔
غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جب کہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رْکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔
بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کے لیے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اور ''collateral damage'' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان کے امن کو تاراج کررہے ہیں۔
بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950 میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔
جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے 25 جولائی 2025 کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک ''بنو قابل'' پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انھیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔
جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اْمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کے لیے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
''اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے...