حکومت نے آئی ایم ایف کی تجویز پر کیپٹو پلانٹس کے ٹیرف میں اچانک اضافہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
حکومت کو فوری طور پر صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کے لیے گیس کے نرخوں میں 23 فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑگیا اور بجلی کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کو کم کرنا پڑا ہے، تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دورے پر آئے اسٹاف مشن کے ساتھ پالیسی مذاکرات جاری رہیں اور چند ہفتوں میں تقریباً ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کے لیے پالیسی مذاکرات کیے جاسکیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات میں شامل اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف مشن نے وعدوں کے باوجود صنعتی سی پی پیز کو قدرتی گیس یا مائع قدرتی گیس یا دونوں کی فراہمی پر ’گرڈ لیوی‘ پر سخت موقف اختیار کیا۔
اسی وجہ سے حکومت نے 7 مارچ 2025 سے 791 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) گرڈ لیوی عائد کرنے کے لیے تمام رسمی کارروائیاں تیزی سے مکمل کیں اور اس کی کاپیاں آئی ایم ایف کے اسٹاف مشن کو فراہم کیں۔
سیکریٹری پیٹرولیم مومن آغا کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ آف گرڈ (کیپٹو پاور پلانٹس) لیوی آرڈیننس 2025 (2025 کا پہلا) کے سیکشن 3 کی ذیلی شق (1) کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وفاقی حکومت یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتی ہے کہ مذکورہ سیکشن 3 کی ذیلی شق (1) کی قیمت 791 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ ہوگی۔
حکومت کی جانب سے مذکورہ کیٹیگری کے لیے گیس کے نرخوں میں 500 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد گیس کی مجموعی قیمت 4 ہزار 291 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوجائے گی۔
لیکن ٹیرف کا یہ اضافہ یہاں نہیں رکے گا، مذکورہ آرڈیننس کے تحت حکومت جولائی 2025 میں گرڈ لیوی میں 10 فیصد، فروری 2026 میں 15 فیصد اور اگست 2026 تک مزید 20 فیصد اضافہ کرے گی، جس سے گیس کی آخری قیمت 6 ہزار روپے کے قریب پہنچ جائے گی تاکہ صنعت کو نیشنل پاور گرڈ میں منتقل کرنے کے لیے گیس کی فراہمی تادیبی ہو سکے۔
حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے سیلز ٹیکس کی شرحوں کو ختم یا کم کرکے بجلی کی قیمتوں میں 8 سے 10 روپے فی یونٹ کمی کی تجاویز کو قبول نہیں کیا، کیونکہ اس سے بجٹ پر بہت بڑا مالی اثر پڑے گا، اصلاحات کے بعد ٹیکس نیٹ میں توسیع تک اسے ناقابل عمل قرار دیا گیا ہے۔
تاہم بنیادی شرح میں 2 سے ڈھائی روپے فی یونٹ کی کٹوتی، جس میں متعلقہ کم ٹیکس بھی شامل ہے، صارفین کو گرڈ لیوی سے اضافی آمدنی، آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں میں ترمیم یا خاتمے، کم سود کی ادائیگی اور مستحکم شرح تبادلہ کی وجہ سے دستیاب ہوسکتا ہے، یہ اگلے مہینے اور جولائی تک نافذ العمل ہوسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام نے صنعتی پلانٹس پر گرڈ لیوی کے نفاذ سے بچنے کی پوری کوشش کی، حالانکہ گزشتہ سال فنڈ کے ساتھ 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے حصے کے طور پر معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، کئی ماہ سے حکومتی وزرا اور اعلیٰ حکام بھی بجلی کی قیمتوں میں 8 سے 10 روپے فی یونٹ کمی اور مستقبل میں صنعتوں کے لیے سستا سرما پیکج جاری رکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
دریں اثنا ایک مختصر سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار آئی ایم ایف کی لچک اور پائیداری کی سہولت (آر ایس ایف) کا جائزہ لیں گے اور موسمیاتی مطابقت پذیری اور تخفیف کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کریں گے، ساتھ ہی اس سہولت کو محفوظ بنانے کے لیے مسلسل کوششوں پر زور دیا۔
پاکستان پہلے ہی ایک ارب 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی آر ایس ایف کے لیے باضابطہ درخواست کر چکا ہے، جو آب و ہوا سے متاثرہ ممالک کو پیش کی جانے والی سستی اور طویل سہولت ہے، تکنیکی فنڈ مشن نے حال ہی میں حکام کے ساتھ بات چیت مکمل کی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا عملہ بجلی کمپنیوں کی نجکاری کی ٹائم لائن سے مطمئن نہیں تھا، اور ان کے نقصانات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، حکومت پہلے مرحلے میں اسلام آباد، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کی ڈسکوز کو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے بعد ملتان، لاہور اور حیدرآباد ڈسکوز کو فروخت کیا جائے گا۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی ضرورت کے مطابق 30 جنوری سے آف گرڈ لیوی آرڈیننس جاری کیا لیکن لیوی کی شرح کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا تھا۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ تاخیر کے نتیجے میں اس کوتاہی کی وجہ سے شرح میں اضافہ ہوا، آرڈیننس کے تحت لیوی سے حاصل ہونے والی رقم دیگر صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے استعمال کی جائے گی۔
یہ لیوی قدرتی گیس یا آر ایل این جی کی نوٹیفائیڈ شرحوں کے علاوہ لاگو ہوتی ہے، قانون کے مطابق حکام پر لازم ہے کہ وہ نیپرا کی جانب سے نوٹی فکیشن کردہ صنعتی بی تھری کیٹیگری کے بجلی کے نرخوں اور اوگرا کی جانب سے جاری کردہ گیس ٹیرف پر سی پی پیز کی سیلف پاور جنریشن لاگت کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے لیوی کی شرح کا تخمینہ لگائیں۔
اگر سی پی پی کی جانب سے لیوی کی رقم بروقت ادا نہیں کی جاتی تو یہ ذیلی دفعہ (2) کے تحت قابل وصول ہوگی، اور مستقل ڈیفالٹ کی صورت میں ایجنٹ ڈیفالٹ شدہ کیپٹو پاور پلانٹ کو گیس کی فراہمی ختم کر دے گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ مشن یکم جولائی 2025 سے زرعی انکم ٹیکس کی وصولی میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں کے علاوہ انفرادی اور مشترکہ طور پر صوبوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے عام طور پر دسمبر 2024 کے آخر کے لیے زیادہ تر اہداف حاصل کر لیے ہیں، اگرچہ ان میں سے کچھ تاخیر کا شکار ہوں گے لیکن پہلے 2 سالہ جائزے کا وقت دیکھتے ہوئے جون کے پہلے ہفتے میں اگلے سال کے بجٹ کے لیے پالیسی مذاکرات کا بڑا حصہ بھی آگے بڑھنے والی بات چیت کا حصہ بن رہا ہے۔
بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دینے سے قبل جاری مذاکرات کے دوران اور اس کے بعد ورچوئل بات چیت کے دوران بھی آئی ایم ایف کی جانچ پڑتال سے گزرنا ہوگا۔
پالیسی سطح کی بات چیت میں گورننس اصلاحات کا بھی احاطہ کیا گیا، جس میں ٹیکس ریٹرن اپ لوڈ کرنے اور سرکاری افسران کے اثاثوں کے اعلانات کے لیے نیا پورٹل بنانا بھی شامل ہے۔
آئی ایم ایف مشن کی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات جمعہ کو متوقع ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف کی کے نرخوں میں ا ئی ایم ایف کی جانب سے گرڈ لیوی سی پی پی بات چیت روپے فی کے ساتھ کے بعد کے تحت گیا ہے پی پیز گیس کی کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ اور او آئی سی میں تعاون کو مزید مضبوط بنایا جائے، پاکستان کی تجویز
پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تعاون دنیا کے 1.9 ارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز اور توقعات کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے کوششیں کرے، سلامتی کونسل میں اسحاق ڈار کا صدارتی خطبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ عالمی حالات میں جب جنگیں، قبضے، انسانی بحران اور نفرت انگیز نظریات بڑھتے جا رہے ہیں تو اقوام متحدہ اور او آئی سی کے درمیان عملی شراکت داری کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اس شراکت کو نہایت اہمیت دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ تعلق مضبوط، مؤثر اور باقاعدہ ادارہ جاتی تعاون میں ڈھل جائے۔
او آئی سی، ایک مؤثر سیاسی قوتاسحاق ڈار نے کہا کہ اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم ہونے کے ناطے او آئی سی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو عالمی و علاقائی سطح پر سیاسی اور انسانی ترجیحات کو یکجا کرتا ہے۔ او آئی سی فلسطین، جموں و کشمیر، شام، لیبیا، افغانستان اور یمن جیسے تنازعات میں انصاف، آزادی اور امن کی حمایت میں سرگرم رہی ہے۔
مزید پڑھیے: عالمی تنازعات کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی قرارداد سلامتی کونسل میں متفقہ طور پر منظور
اسحاق ڈار نے تجویز دی کہ تعاون کو عملی شکل دینے کے لیے زمینی حقائق پر مبنی ابتدائی انتباہی نظام، مشترکہ ثالثی فریم ورک اور سیاسی و تکنیکی اشتراک عمل کو فروغ دینا ہوگا تاکہ حقیقی نتائج سامنے آئیں۔
اسحاق ڈار نے اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحان پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی نفرت اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے 15 مارچ کو ’عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا‘ قرار دینے کی قرارداد کی منظوری اور یو این اسپیشل ایلچی کی تقرری اس مسئلے پر عالمی عزم کی علامت ہیں اور او آئی سی اس مسئلے پر ہمیشہ توانا آواز رہا ہے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی صدارت پاکستان کے سپرد، جولائی 2025 میں اعلیٰ سطح اجلاسوں کی میزبانی کرے گا
انہوں نے کہا کہ او آئی سی کی رکن ریاستیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے حق میں ہیں اور اس میں او آئی سی کو مناسب نمائندگی دی جانی چاہیے تاکہ عالمی طاقت کے توازن کو بہتر بنایا جا سکے۔
’اقوام متحدہ و او آئی سی تعلقات کو باقاعدہ شکل دی جائے‘اسحاق ڈار نے کہا کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کے مابین تعلق کو باقاعدہ، دیرپا اور منظم میکانزم میں ڈھالا جانا چاہیے تاکہ عالمی امن اور سلامتی کے ضمن میں زیادہ مؤثر کردار ادا کیا جا سکے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں اقوام متحدہ تنہا مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔
خطاب کے اختتام پر اسحاق ڈار نے تمام ممالک کی تعمیری شراکت داری پر شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اجلاس میں ایک صدارتی اعلامیے کی منظوری دی گئی جو اقوام متحدہ اور او آئی سی کے مابین تعاون کو مزید مضبوط بنانے میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل او آئی سی سلامتی کونسل نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار