بلوچستان کی حالت کے ذمہ دار ہم سب ہیں، فرح عظیم کی اراکین اسمبلی پر تنقید
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر خاتون رکن اسمبلی فرح عظیم شاہ نے اسمبلی اراکین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب کے بچے باہر پرھتے، گاڑی اور گھر ایک سے دس ہو رہے ہیں، جاکر عوام کا حالت زار تو دیکھیں۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی رکن فرح عظیم شاہ نے اسمبلی فلور پر حکومت پر تنقید شروع کر دی۔ بولیں کہ بلوچستان کی صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو اس ہاؤس میں موجود ہیں۔ تقریر روکنے کی کوشش پر صوبائی اسپیکر سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ مائک بند کرنے پر خاتون رکن اسمبلی اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئیں۔ تفصلات کے مطابق آج بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان کی امن و امان اور جعفر ایکسپریس سے متعلق بحث ہوئی۔ اس موقع پر حکومت کی خاتون رکن اسمبلی فرح عظیم شاہ نے کہا کہ ہم سب حلف اٹھاتے ہوئے خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ پاکستان کے وفادار رہیں گے، کرپشن نہیں کرینگے، آئین کے مطابق چلیں گے۔ چار دن کی زندگی ہے، قبر میں خدا کو جواب دینا ہے۔ ہم سب دبوچ لئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب بات بلوچستان اور غریب عوام پر آتی ہے تو خاموش نہیں رہ سکتی۔ اب یہ تحریکیں نکل کر عام بلوچ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ آپ لوگوں کا حالت زار تو دیکھیں۔ اگر ڈویپلمنٹ اسکیمز ہی صحیح طریقے سے خرچ ہو جاتے تو آج بلوچستان کا یہ حال نہیں ہوتا۔ دو ایسے مسائل ہیں جن پر لڑائی ہوتی ہے، معدنیات اور حقوق۔ بی ایل اے، بی آر اے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی چند لوگوں سے شروع ہوئی، اور آج ہزاروں لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ ان سب کے ذمہ دار سیاستدان اور وہ لوگ ہیں جو اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ آپ سب کی ترقی ہو رہی ہے۔ ایک گاڑی سے دس گاڑیاں، ایک بنگلے سے دس بنگلے بن رہے ہیں۔ آپ کے بچے باہر ممالک میں پڑھ رہے ہیں، تو آپ کے علاقے غربت کا شکار کیوں ہیں۔ اس موقع پر فرح عظیم شاہ کی تقریر کو بلوچسان اسمبلی کے اسپیکر کیپٹن (ر) خالق اچکزئی نے روکنے کی کوشش کی۔ تاہم فرح عظیم شاہ کی جانب سے مسلسل تنقید کی جاتی رہی۔ اسپیکر نے تلخ کلامی کے دوران فرح عظیم کا مائک بند کروا دیا۔ اسپیکر نے کہا کہ افطار کا وقت ہونے والا ہے۔ فرح عظیم نے کہا کہ یہاں لوگ مر رہے ہیں اور آپ کو افطاری کی پڑی ہے۔ بلوچستان جل رہا ہے۔ فرح عظیم شاہ اسمبلی فلور پر آئیں اور اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فرح عظیم شاہ نے کہا کہ رہے ہیں
پڑھیں:
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، دوہرے قتل کیخلاف قرارداد پیش
قرارداد میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر اعلان کیا کہ تحقیقات کی نگرانی کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مبنی کمیٹی بنائی جائیگی۔ اسلام ٹائمز۔ خواتین اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ کے نواحی علاقے میں خاتون اور مرد کے قتل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔ تفصیلات کے مطابق ویمن پارلیمانی کاکس کی ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ اور دیگر خواتین اراکین کی جانب سے بلوچستان اسمبلی میں غیرت کے نام پر دہرے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی۔ جس میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کسی بھی صوبائی، قومی، سماجی یا مذہبی روایت سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ غیر قانونی انسانی عمل ہے جو قانونی، سماجی اور اخلاقی اصولوں کے منافی ہے۔ کسی فرد کو منصف بننے کا حق نہیں، انصاف دینا صرف ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ اس سفاکانہ عمل میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ صوبے بھر میں ڈیگاری واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے کہا کہ یہ واقعہ پورے معاشرے کو جھنجوڑ گیا ہے۔ ہمیں حقائق نہیں معلوم، کمیٹی کی کوئی رپورٹ نہیں ملی ہے اور مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعات ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کی شدت بڑھ گئی ہے۔ عید سے پہلے کا واقعہ ہے اور ویڈیو اب وائرل ہوئی ہے۔ عدالتوں کے بغیر اس مسئلے سے کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو ڈیگاری واقعے کی تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔
اس سے قبل اجلاس کے دوران اسد بلوچ نے کہا کہ 9 جولائی کو سی ٹی ڈی نے ان کے گھر چھاپہ مارا اور چادر و دیوار کو پامال کیا۔ ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس ایوان میں آنے والے میڈیٹ لے کر آتے ہیں جو قانون سازی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سی ٹی ڈی کے ساتھ جانے کو تیار تھے اور چھاپے کی وضاحت طلب کی۔ انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھنے کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے پارلیمانی سیاست کا کوئی جرم نہیں کیا۔ انہیں پہاڑوں پر جانے پر مجبور نہ کیا جائے اسد بلوچ واک آوٹ کرکے ایوان سے چلے گئے۔
صوبائی وزیر علی مدد جتک نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر مسلح افراد لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کونسی قبائلیت ہے اور ان دہشت گردوں کا سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ بلوچ اور پشتون روایات میں مہمانوں کو شہید نہیں کیا جاتا۔ مستونگ سے بیلہ تک تمام کاروبار دہشت گردی کی وجہ سے بند ہیں اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ اسد بلوچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ طالب علم مصور کاکڑ کی لاش ملی ہے۔ حکومت تحفظ دینے کے بجائے کہتی ہے کہ شام 5 بجے سے صبح تک لوگ سفر نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دن میں حکومت صرف 4 گھنٹے فعال ہے اور باقی وقت دراندازی ہوتی ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ عوام کو قومی شاہراہوں پر تحفظ فراہم کرے۔ بارڈر بند ہونے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود کوئی سکیورٹی آفیسر معطل نہیں ہوا۔