دوسری شادی کیلئے بیوی کو شوہر کی مدد کرنی چاہئے، جامعہ الازہر
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جامعہ الازہر میں تقابلی فقہ کے پروفیسر ڈاکٹر احمد کریمہ نے وضاحت کی کہ دوسری شادی مباح عمل ہے، جو نہ تو فرض ہے، نہ واجب، نہ ناپسندیدہ اور نہ ہی حرام۔ اسلام ٹائمز۔ مصر کی معروف اسلامی درسگاہ جامعہ الازہر کے عالم ڈاکٹر احمد کریمہ نے کہا ہے کہ مرد کو دوسری شادی کا مکمل حق حاصل ہے، اور شرعی قانون اس کے لیے کسی اضافی جواز کا تقاضا نہیں کرتا۔ ان کے مطابق، بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کو دوسری شادی کی ترغیب دے اور اس میں اس کا ساتھ دے۔ عرب میڈیا کے مطابق، ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جامعہ الازہر میں تقابلی فقہ کے پروفیسر ڈاکٹر احمد کریمہ نے وضاحت کی کہ دوسری شادی مباح عمل ہے، جو نہ تو فرض ہے، نہ واجب، نہ ناپسندیدہ اور نہ ہی حرام۔ شریعت میں اس کی اجازت انصاف کی شرط پر دی گئی ہے، اور ہر مرد کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ بیویوں کے درمیان عدل کر سکتا ہے یا نہیں۔
 
 ڈاکٹر احمد کریمہ کا کہنا تھا کہ بیوی کو اپنے شوہر کو گناہوں سے بچانے کے لیے دوسری شادی کرنے میں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایک سے زیادہ شادیوں کی حمایت نہیں کرتے، لیکن اسے غلط بھی نہیں سمجھتے۔ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اسلام میں تعددِ ازدواج کی اجازت دی گئی ہے، مگر اس کے لیے عدل و انصاف کی شرط لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیویوں کے درمیان برابری کا سلوک نہیں کر سکتا، تو اسے ایک ہی نکاح پر اکتفا کرنا چاہیے۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈاکٹر احمد کریمہ جامعہ الازہر
پڑھیں:
میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔
 
 ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔