اتراکھنڈ میں مدارس کے خلاف کارروائی، 15 دنوں میں 52 سے زائد مدارس سیل کردئے گئے
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
وزیراعلٰی پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ ریاست میں چل رہے غیر قانونی مدارس کے خلاف کارروائی جاری رہیگی۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کی بی جے پی اقتدار والی دھامی حکومت نے اترپردیش کی یوگی حکومت کی طرز پر ریاست میں مدارس کے خلاف کارروائی کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ ریاست بھر میں مدارس کو غیر قانونی بتا کر سیل کیا جا رہا ہے۔ ریاست میں مدارس کے خلاف ریاستی حکومت نے سخت رویہ اپناتے ہوئے گزشتہ 15 دنوں میں 52 سے زائد غیر قانونی مدارس کو سیل کر دیا ہے۔ حکام وزیراعلٰی پشکر سنگھ دھامی کی ہدایت پر غیر قانونی مدارس کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ غیر قانونی مدارس کے سوال پر وزیراعلٰی پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ ریاست میں چل رہے غیر قانونی مدارس کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ ریاست میں گزشتہ 15 دنوں کے اندر دہرادون کے وکاس نگر میں 12 اور ادھم سنگھ نگر ضلع کے کھٹیما میں 9 غیر قانونی مدارس کو سیل کیا گیا ہے۔
دہرادون کے پچھوادون اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی طور پر مدارس چلائے جانے کی شکایات موصول ہو رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ان دونوں آبادی کی تبدیلیوں کے معاملات بھی اتراکھنڈ میں کافی دیکھے جا رہے ہیں۔ اس کے پیش نظر وزیراعلٰی پشکر سنگھ دھامی نے اتراکھنڈ کی اصل شکل کو برقرار رکھنے کے لئے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ پشکر سنگھ دھامی اس حوالے سے پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ریاست کی بنیادی شکل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کی جائے گی۔ جس کی وجہ سے دہرادون کے وکاس نگر اور ادھم سنگھ نگر کے کھٹیما میں مسلسل کارروائی جاری ہے۔
اتراکھنڈ کے وزیراعلٰی پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ غیر قانونی مدارس، غیر قانونی تعمیرات اور غیر قانونی تجاوزات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اتراکھنڈ میں ایسے غیر قانونی مدارس کے خلاف تحقیقات کے لئے پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں جو بھی غیر قانونی پایا گیا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، اس کے علاوہ تفتیش کے دوران غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، یہ سلسلہ مسلسل جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں "مسوری دہرادون ڈیولپمنٹ اتھارٹی" نے اتراکھنڈ کے دہرادون ضلع میں کئی مدارس کے خلاف کارروائی کی تھی۔ اس کی مخالفت میں مسلمانوں نے دہرادون ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر کا گھیراؤ کیا تھا اور اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔ معاملہ بڑھنے پر پولیس کو بلایا گیا۔ پولیس نے متعدد احتجاج کررہے مسلمانوں کو حراست میں لے لیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وزیراعل ی پشکر سنگھ دھامی نے غیر قانونی مدارس کے خلاف مدارس کے خلاف کارروائی ریاست میں نے کہا کہ
پڑھیں:
چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی بحران کی بدترین صورت اختیار کر چکی ہے جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث درجنوں معصوم بچے اور بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غذائی قلت کی صورت حال پچھلے چند ہفتوں کے دوران نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فلسطینی عوام خاص طور پر بچے اور ضعیف افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینے میں صرف چند دنوں کے اندر اندر 29 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں اور ضعیف افراد کی تھی، بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ المناک اعداد و شمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی رسائی پر شدید اور سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث نہ صرف خوراک، بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہے اور کئی اہم مراکز جن میں شدید متاثرہ بچوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ’’نیوٹریشن کلسٹر‘‘رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مئی کے وسط میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق غزہ میں 5.8 فیصد بچے ایسی حالت میں پائے گئے جو نہ صرف ان کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ فوری طبی مداخلت نہ ہو تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ شرح فروری میں محض 2 فیصد کے لگ بھگ تھی، جب عارضی جنگ بندی کے دوران امداد کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔
اس انسانی بحران کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ امدادی مراکز جو متاثرین کے لیے واحد امید بن چکے تھے، اب نشانہ بننے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی تعاون سے بنائے گئے امدادی مقامات کے قریب فائرنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں امداد کے منتظر شہری شہید ہوئے۔ ان واقعات پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنی ضروریات کے لیے ضبط کرتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ زمینی حقائق اس دعوے کے برخلاف ایک اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، کمزور اور مایوس والدین کی نظریں اور بند اسپتالوں کے دروازے اس بات کے گواہ ہیں کہ امداد کی رسائی کو محدود کرنے کا خمیازہ براہ راست عام فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی رفح جیسے علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں وہ مراکز بند ہو چکے ہیں جو بچوں کی غذائی کمی اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا علاج کرتے تھے۔ ان علاقوں میں شدید قلت کے شکار بچوں کو اب فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں، جس سے اموات کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک الارم ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امدادی راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور خوراک و دوا کی ترسیل کو کسی سیاسی یا عسکری حکمت عملی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بچوں کی زندگیاں کسی بھی تنازع سے بالاتر ہیں، اور اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔