ہم نے ایک خواب دیکھا ہے جو غریب تو نہیں لیکن عجیب بہت ہے کئی خواب شناسوں سے تعبیر پوچھی کوئی تسلی بخش تعبیر کسی نے نہیں بتائی۔
اس لیے اسے مشتہر کررہے ہیں کیونکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک بزرگ مہر، لقمان زمان اور سقراط بقراط زمان پڑا ہوا ہے۔جو اگرچہ آج کل ٹی وی چینلوں اور اخبارات و اشتہارات میں بہت زیادہ مصروف ہیں کیونکہ انھوں نے اس بگڑی ہوئی دنیا اور بگڑے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر چلانے کے لیے کنٹریکٹ لیا ہوا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا یہ خیال ہے کہ اس کے علاوہ باقی سارے لوگ بگڑچکے ہیں اور اگر ان کو راہ راست پر نہیں لایا گیا تو یہ دنیا غلط راہ چلتے چلتے کسی کنوئیں یا کھائی میں گرجائے گی۔ویسے ان دانا دانشوروں، سقراطوں، بقراطوں اور بزرگ مہروں کے خلوص اور بشری ہمدردی بلکہ ’’یک جہتی‘‘ کی داد نہ دینا شدید بے انصافی ہوگی کہ دوسروں کو سدھارنے کے جوش میں یہ خود کو بھی بھول جاتے ہیں، مطلب اپنی طرف ان کا دھیان ہی نہیں کیونکہ ساری توجہ دوسروں کو دیے ہوئے ہیں۔
اس لیے ہمیں تھوڑا ڈاؤٹ ہے کہ شاید وہ دنیا اور پاکستان اور پاکستان کے ہر فرد کو راہ راست دکھانے میں اتنے مصروف ہیں کہ شاید ہمارے خواب کے لیے وقت نہ نکال سکیں لیکن پھر بھی ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے ہم اپنا خواب بیان کیے دیتے ہیں۔ہم نے خواب میں دیکھا کہ اچانک نہ جانے کہاں سے زمین سے،آسمان سے یا فضا سے یا عالم غیب سے سے ایک نہایت ہی لمبا چوڑا اونچے بلند وبالا ایک عجیب و غریب انسان کا ظہور ہوتا ہے۔جسم پر دنیا میں پیدا ہونے والا ہر اسلحہ سجائے ہوئے ہے، ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ ایک ہاتھ خیبر کے پہاڑ پر ہے اور دوسرا کراچی کے سمندر میں کچھ کررہا ہے، ایک پاؤں چترال میں ہے تو دوسرا بلوچستان میں سمندر کے کنارے ٹکا ہوا ہے۔
اس نے سب سے پہلے تو ایک ہاتھ بڑھاکر ساری سیاسی پارٹیوں کو خس وخاشاک کی طرح سمیٹا پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں میں مسل کر کوفتہ بیختہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تم ایک ہتھیلی کے چٹے بٹے ہو ایک پیڑ کی ٹہنیاں ہو پھر ایک ہی بدبو دار تالاب کا پانی ہو تو الگ الگ کیوں ہو، پھر ان کو یکجا کرکے جو پھینکا تو سب کے سب بحر مردار میں جاگرے۔پھر اس نے لیڈروں کو سمیٹ کر صحرائے اعظم میں الگ الگ پھینک دیا کہ خلق خدا کے دماغ اپنے بیانوں سے خراب کرنے کی بجائے اب یہاں دیتے رہو بیان، جتنے مرضی ہوں۔ پھر اس نے اپنی گرجدار اور فل شگاف آواز سے کہا کہ اب جب شر کے سارے کانٹے نکل گئے۔
کرسی کی کٹیا کے سوئیمر میں حصہ لینے والے فنا ہوگئے۔تو انصاف کا ترازو اٹھانے والے اور عدل کا بول بالا کرنے والے صرف اور صرف ان لوگوں کے مقدمات سنیں گے جو اس ملک کے اصلی مالک ہیں جن کے خون پسینے سے ان کی تنخوائیں آتی ہیں، جو انصاف، عدل اور قانون سے مکمل طور پر محروم کیے جاچکے ہیں۔
کیونکہ ان مقامات پر صرف سیاستدان قابض ہوچکے ہیں اور دن رات ہر طرف ہرجگہ ہر وقت صرف ’’کرسی‘‘ کے مقدمات چل رہے ہیں جو مقدمات ہیں ہی نہیں، ڈاکوؤں کے درمیان مال مسروقہ کی تقسیم کے جھگڑے ہیں اس کے بعد اس نے دونوں ہاتھ بڑھائے اور مختلف مقامات سے ناصحوں، واعظوں تلقین سازوں اور رہبر و رہنماؤں کو اکٹھا کر اپنے زانوں پر بٹھایا اور ان سے کہا کہ تم اچھے لوگ ہو تمہارے اندر اہل دل اور اہل درد بھی ہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تم شدید بیمار ہوں۔تمہاری دور کی آئی سائٹ تو بے پناہ ہے لیکن قریب کی بینائی صفر سے بھی بہت نیچے ہے۔اس لیے میں تمہیں سزا نہیں دوں گا بلکہ وہی کروں گا جو تم کرتے ہو یعنی تمہیں راہ راست دکھاوں گا۔
تسم کہ بہ کعبہ نہ رسیدی اے اعرابی
کیں راہ کہ تومی رومی بہ ترکستان است
میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ’’دوربینی عینک‘‘ اتارو اور ’’خوردبینی عینک‘‘ لگاؤ۔دور دور کے لوگوں کے عیب دور کرنے کی بجائے اپنے عیب دور کرو۔اور اگر تم نے ایسا کردیا صرف ایک ایک آدمی یعنی خود کو سدھار لیا تو سمجھو ساری دنیا سدھر گئی لوگ تم کو دیکھ دیکھ کر بغیر کہے سنے سدھرتے چلے جائیں گے اور اگر تم خود کو چھوڑ کر دوسروں کو سدھارنے میں ساری عمر بھی صرف کرو تو ضروری نہیں کہ کسی ایک کو سدھار سکو۔اور اس طرح تم کم سے کم ایک کو یقینی طور پر سدھار لوگے۔خواب یہاں تک پہنچا تھا کہ ہمارے گاؤں کی ساری مساجد کے لاؤڈ اسپیکر جاگ اٹھے اور ہمیں بھی جگا دیا اب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کوچۂ سخن
غزل
ہوتا ہوں آپ میں کبھی ہوتا نہیں ہوں میں
کیوں کر بنوں کسی کا کہ اپنا نہیں ہوں میں
اک عمر یہ شعور سمجھتے گزر گئی
لیکن شعور آج بھی سمجھا نہیں ہوں میں
اے دوست تجھ کو حق ہے مجھے تو بھی چھوڑ دے
اب تو کسی کے حق میں منافع نہیں ہوں میں
سچ ہے ترے رفیق کے جیسا میں نہیں تھا
خوش ہوں ترے رفیق کے جیسا نہیں ہوں میں
جاہ و جلال ہے ترا کمتر تری طرح
دنیا ترے مقام کا بھوکا نہیں ہوں میں
سب کچھ لٹا کے خاک بسر در بدر پھرا
پر کندِ نہ تراش کو بھایا نہیں ہوں میں
کاظم ؔمرا خدا ہے جو شہ رگ سے ہے قریب
اتنا اداس ہو نہیں تنہا نہیں ہوں میں
(کاظم رضا۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
میرا تھا مگر مجھ سے جدا ہو کے مرا ہے
اک شخص گرفتارِ انا ہو کے مرا ہے
بخشی تھی محبت نے جسے رونقِ دنیا
ویرانے میں نفرت کا خدا ہو کے مرا ہے
آواز کی لہروں کے تعاقب میں پریشاں
اک شور مری چپ کی صدا ہو کے مرا ہے
کس واسطے سورج پہ میں الزام لگاؤں
دیوار سے جب سایہ خفا ہو کے مرا ہے
مدت سے نگہباں تھا مرے ضبط کا حانی
آنکھوں سے جو کل اشک ادا ہو کے مرا ہے
(حانی ہنجرا۔ڈسکہ)
۔۔۔
غزل
دشتِ الفت میں کھو گئے آخر
جان سے ہاتھ دھو گئے آخر
رات اختر شماریوں میں کٹی
تو نہ آیا تو سو گئے آخر
تیری ہر بات مان لیتے ہیں
تو نے چاہا تو لو گئے آخر
عشق کا سلسلہ عجیب سا ہے
ہنستے پہلے تھے رو گئے آخر
جان اپنی بھی وار دی ہم نے
تم ہمارے نہ ہو گئے آخر
میرے محبوب تیری فرقت میں
چار کندھوں پہ ڈھو گئے آخر
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)
۔۔۔
غزل
پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
لوگ مزدوری کماتے ہوئے مر جاتے ہیں
اے بشر پیڑ نہ کاٹ اِن پہ ہمارے گھر ہیں
’ ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ‘
ایسے گھڑتے ہیں کچھ احباب مَصارع جن کو
سب گلوکار بھی گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کتنے ہیں مصور جو تری چاہت میں
تیری تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
مانگتا ہے وہ تعلق میں سہولت محکم
اور ہم ساتھ نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
(زین محکم سکھیکی۔ حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
قہقہے آنسوئوں میں تر کرلو
اب یونہی زندگی بسر کرلو
جھوٹ کے سلسلے نہیں روکو
بس انھیں تھوڑا مختصر کرلو
اس میں آخر فریب ملتا ہے
پیار جتنا بھی ٹوٹ کر، کرلو
غم نبھاتا ہے ساتھ مرنے تک
سو، اسے اپنا ہمسفر کرلو
سچ نے تو آشکار ہونا ہے
تم بھلے لاکھ اگر مگر کرلو
آگہی کرب ہے نزاکتؔ جی
خود کوخودسے بھی بے خبر کرلو
(نزاکت ریاض۔پنڈ مہری، تحصیل حسن ابدال)
۔۔۔
غزل
اُس مشربِ وصال کی وہ چاشنی ملی
ہر چیز رقص کرتے ہوئے ڈولتی ملی
سورج کی کیا مجال جو روشن اِسے کرے
ماہِ فلک کو تجھ سے یہ تابندگی ملی
یہ کارِ سخت پہلے نہ تھا میرا ہم مزاج
تجھ سے ملا تو عشق کی جادوگری ملی
میں ہوں نوائے وقتِ سحر، نغمہ ہائے شوق
مجھ سے ہی اس چمن کو ترو تازگی ملی
کرتا ہوں خرچ اس کو میانہ روی کے ساتھ
معلوم ہے کہ زیست نہیں مفت کی ملی
مانگا خدا سے کوئی جو مجھ کو سمجھ سکے
بدلے میں کوئے فکر تری دوستی ملی
( جنید ضیاء۔ بونیر)
۔۔۔
غزل
پہلو نشیں رہا ہے جو کل تک کدھر گیا
جانے کہاں یہ میرا دلِ در بدر گیا
جاتے ہیں میرے سامنے وہ غیر کی طرف
ہائے! کوئی سنبھالے یہ میرا جگر گیا
اندھے کے ہاتھ آئی ہے تلوارِ تند و تیز
آئے گا جو بھی سامنے اس کا تو سر گیا
پھیلی ہوئی ہے ہر سو اداسی مکان میں
ایسے وہ چھوڑ کر مرے دیوار و در گیا
اب تو دلِ بے چارہ کا چارہ نہیں کوئی
جب سے چھڑا کے ہاتھ مرا چارہ گر گیا
پہلے پہل تو دور سے پہچانتا تھا وہ
لیکن وہ آج پاس سے گزرا، گزر گیا
ٹھہری ہوئی ہے آج بھی یہ نظرِ پر امید
جس راہ مجھ کو چھوڑ مرا ہمسفر گیا
آنکھوں کا رزقِ اشک ہوا تنگ کس لیے
کس واسطے یہ رنج کا دریا اتر گیا
اک بار کے فریب سے آیا نہ باز دل
چوکھٹ پہ ان کی آج میں بارِ دگر گیا
ہیں ثبت اب بھی دل پہ نقوشِ رخِ جمال
دیکھے اسے اگرچہ زمانہ گزر گیا
اب آئے ہیں وہ کس لیے لینے مری خبر
کوئی انھیں بتاؤ کہ فیصل ؔتو مر گیا
(فیصل رشید۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
ہوا سے دوستی ہے، خواب روشنی کے ہیں
مری جناب، مسائل یہ زندگی کے ہیں
قدم قدم پہ بکھرتی ہیں آرزو کلیاں
جو راستے میں کھڑے پل ہیں بے بسی کے ہیں
چراغ لے کے چلے ہیں ہوا کے پہلو میں
ہمیں خبر ہے یہ لمحے تو بے کلی کے ہیں
نگاہِ شوق میں جو عکس جگمگاتے ہیں
وہ آئینے تو نہیں، ٹکڑے روشنی کے ہیں
صدا یہ دیتی ہے ہر شے سکوتِ شب میں کہیں
جو درد، ہنستے لبوں پر ہیں شاعری کے ہیں
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
آنسو دکھائی دیتے ہیں کب بارشوں کے بیچ
جینا بھی اک کمال ہے ان حادثوں کے بیچ
مزدور نیند پوری کرے یا وہ دیکھے خواب
اک خواب ٹوٹتا ہے کئی کروٹوں کے بیچ
اک عکس تھا کہ جس سے تھی اچھی دعا سلام
وہ بھی نہ ٹوٹ جائے کہیں آئنوں کے بیچ
نطشے کا فلسفہ ہو کہ اقبال کی خودی
دونوں ہی دفن ہوگئے ہیں سازشوں کے بیچ
اک دائرہ ہے زندگی اس مستطیل میں
چھپنا فضول جائے گا سب زاویوں کے بیچ
ٹانکا کہاں چھپا ہے کہاں کوئی چاک ہے
کرتے کا رہ گیا ہے بھرم سلوٹوں کے بیچ
آنکھوں نے ضبط سیکھ لیا ایک عمر بعد
کب تک بھلا وہ رہتی مری عادتوں کے بیچ
ٓپیتا اگر نہ زہر تو پھر سوچ یہ مقیمؔ
سقراط کیسے رہتا بھلا بزدلوں کے بیچ
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
نوائے باغباں ہم لکھ رہے ہیں
صدائے بلبلاں ہم لکھ رہے ہیں
رقم تاریخ کی تم نے سلف کی
تمہاری داستاں ہم لکھ رہے ہیں
اثر انداز ہوتا تھا جو دل پر
وہ اندازِ بیاں ہم لکھ رہے ہیں
خزاں دیدہ چمن تم نے لکھا تھا
بہارِ گلستاں ہم لکھ رہے ہیں
لکھا ہے تم نے سوزِ خانقاہی
مجاہد کی اذاں ہم لکھ رہے ہیں
نہیں ہے جن سے واقف بزمِ دوراں
وہ اسرارِ نہاں ہم لکھ رہے ہیں
اندھیرا چھٹ رہا ہے دھیرے دھیرے
چراغِ ضو فشاں ہم لکھ رہے ہیں
نویدِ ارمغاں حیدرؔ سنائے
ابھی آہ و فغاں ہم لکھ رہے ہیں
(حیدر میواتی ندوی۔ میوات، انڈیا)
۔۔۔
غزل
تیرے بن دل میرا قبرستان ہے
دفن جس میں ایک اک ارمان ہے
خواب سب بکھرے پڑے ہیں جابجا
آگیا غم کا عجب طوفان ہے
بے رخی پر عقل یہ حیران ہے
یوں ملا جیسے کوئی انجان ہے
ہجر کی شب تیری یادوں کا ہجوم
میرے جینے کا یہی سامان ہے
آج تک کوئی نہیں بھایا مجیدؔ
وہ گیا دل کا چمن ویران ہے
(مجید سومرو۔ پنو عاقل، سندھ)
۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنی سی بس شکایت ہے
لمحہ بھر بھی نہیں رعایت ہے
دلِ مضطر سکون پائے جو
کیا پڑھوں کونسی وہ آیت ہے
یاخدا بخش دے، نجات اب تو
دل ہزیمت طرف سے غایت ہے
بن چکا ہے جگر نوالہ اب
سانس رک جا تجھے ہدایت ہے
موت دعوت کرے منور ؔکی
زیست کو اس قدر حمایت ہے
(منور علی۔ گجرات)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی