Islam Times:
2025-11-03@07:51:40 GMT

ولادت باسعادت امام حسن علیہ السلام

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیں پروگرام دین و دنیا

عنوان: ولادت باسعادت امام حسن علیہ السلام
مہمان: حجۃ الاسلام و المسلمین سید ضیغم ہمدانی
میزبان: حجۃ الاسلام و المسلمین محمد سبطین علوی

موضوعات گفتگو:
تعریف اخلاق کیا ہے؟
امام حسن علیہ السلام کی زندگی کے عبادی پہلو
امام کی شخصیت کے اخلاقی پہلو

خلاصہ گفتگو:
اخلاق، انسانی شخصیت کا سب سے اہم پہلو ہے جو اس کے کردار اور طرزِ عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ اخلاق کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ وہ صفات ہیں جو انسان کے گفتار و کردار کو سنوارتی ہیں، جیسے صداقت، دیانت، عفو، حلم، اور مہربانی۔ قرآن اور احادیث میں اخلاق حسنہ کو دین کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
 
امام حسن علیہ السلام کی پوری زندگی عبادت اور اخلاق کا حسین امتزاج تھی۔ آپ کا عبادتی پہلو نہایت منفرد تھا۔ آپ انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے، ہر سجدے میں گریہ فرماتے اور حج کے لیے بارہا پیدل مکہ جاتے۔ راتوں کو عبادت میں مصروف رہتے اور اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھتے۔ آپ کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ وضو کرتے وقت چہرہ متغیر ہو جاتا اور جب اس کی وجہ پوچھی جاتی تو فرماتے: "کیا میں اس ذات کے حضور کھڑا ہونے والا نہیں ہوں جو تمام جہانوں کا مالک ہے؟"
 
اخلاقی لحاظ سے بھی امام حسن علیہ السلام بے مثال تھے۔ آپ کی بردباری ایسی تھی کہ دشمنوں کی گستاخیوں کو درگزر کر دیتے۔ ایک بدتمیز شخص کو محبت سے نوازا، اور وہ آپ کا گرویدہ ہو گیا۔ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کئی بار اپنا پورا مال راہِ خدا میں لٹا دیا۔ مہمان نوازی میں آپ کا دروازہ ہر مسافر اور حاجتمند کے لیے کھلا رہتا تھا۔
 
امام حسن علیہ السلام کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی کامیابی عبادت کے ساتھ ساتھ بہترین اخلاق میں پوشیدہ ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام حسن علیہ السلام

پڑھیں:

شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

شفیق غوری ایک مخلص اور محنتی ٹریڈ یونینسٹ تھے جنہوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی مزدوروں کی خدمت اور ٹریڈ یونین تحریک کے لیے وقف کر دی تھی۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے ان کے جذبے نے انہیں اس میدان میں ایک ناگزیر شخصیت بنا دیا تھا۔
غوری صاحب ملک میں لیبر قوانین اور ٹریڈ یونین کے حقوق کے صف اول کے ماہرین میں سے ایک کے طور پر مشہور تھے۔ اس کی گہری معلومات ان کی قابلیت کی صرف ایک مثال تھی۔ وہ نہ صرف ایک غیر معمولی مذاکرات کار تھے، جو کارکنوں کے لیے سازگار شرائط ملازمت پر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، بلکہ وہ مختلف اہم فورمز پر کارکنوں اور ٹریڈ یونینوں کی نمائندگی کرنے کے ماہر بھی تھے۔ لیبر قانون سازی اور سہ فریقی اداروں (جس میں حکومت، آجر اور کارکن شامل ہیں) کے بارے میں ان کی معلومات بہت گہری تھیں، جس کی وجہ سے وہ مزدوروں کی ہر سطح پر وکالت میں انتہائی موثر تھے۔ انہوں نے محنت کے محکموں اور متعلقہ سرکاری اداروں کی کارروائیوں اور پالیسیوں پر ہمیشہ گہری اور چوکنا نظر رکھی، جوابدہی اور کارکنوں کے تحفظ کے قوانین کی پابندی کو یقینی بنایا۔ محنت کش طبقے کو ایک طاقتور، باخبر آواز بلند کرنے والے کی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
شفیق غوری صاحب کے ساتھ تعلق تو بہت پرانا تھا مگر ان کے ساتھ مل کر کام اس وقت شروع ہوا جب ہم دونوں نے ویپکوپ کے عہدیداروں کے طور پر خدمات انجام دیں، یہ پلیٹ فارم صنعتوں اور ان کے کارکنوں دونوں کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر میں نے تجربہ کار رہنما ایس پی لودھی کے ساتھ مل کر 2001 اور 2003 کے درمیان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ کا دوبارہ مسودہ تیار کرنے کا اہم کام انجام دیا۔

ایس پی لودھی صاحب کے انتقال کے بعد، میں نے اپنی توجہ شفیق غوری کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مرکوز کر دی تاکہ مزدوروں سے متعلق متعدد قانون سازی کی تجاویز تیار کی جا سکیں۔ ہمارا سب سے گہرا تعاون ایک اہم چار رکنی کمیٹی میں ہوا، جہاں غوری صاحب اور میں نے مزدوروں کی نمائندگی کی، جبکہ یو آر عثمانی اور اے ایچ حیدری آجروں کی نمائندگی کرتے تھے۔ اس کمیٹی نے کئی سال بہت متحرک ہو کر کام کیا۔
اس عرصے کے دوران، میں نے غوری صاحب کے لیے بے پناہ عزت محسوس کی، انہیں ایک ایسے شخص کے طور پر پایا جس میں محنت کے قوانین، ان کی پیچیدہ تشریح اور ان کے مضمرات کا وسیع عملی تجربہ تھا۔ اگرچہ ہماری کوششیں ہمیشہ محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے لابنگ اور مضبوطی سے آگے بڑھانے پر مرکوز تھیں، لیکن میں نے محسوس کیا کہ غوری صاحب جب محنت کشوں کے بنیادی اصولوں کی بات کرتے ہیں تو وہ غیر معمولی طور پر سخت اور غیر سمجھوتہ کرنے والے تھے۔ انہوں نے مسلسل مضبوط، حقائق پر مبنی دلائل اور ٹھوس مثالوں کے ساتھ میدان میں حصہ لیا، اس بات کو یقینی بنایا کہ محنت کش طبقے کی آواز کو بغیر کسی سمجھوتے کے سنا جائے۔ ان کی لگن تحریک کے لیے ایک زبردست اثاثہ تھی۔
اس سچے، مخلص اور دیانتدار ٹریڈ یونینسٹ کا انتقال تمام کارکنوں اور ان کی تنظیموں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک کے لیے وقف کر دی، بے مثال دیانت اور ایمانداری کے ساتھ خدمت کی۔ ایک پرعزم وکیل اور مزدوروں کے حقوق کے محافظ کے طور پر شفیق غوری کی میراث محنت کش طبقے کو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

قمر الحسن گلزار

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کے سابق رکن سندھ اسمبلی اخلاق احمد مرحوم کی اہلیہ انتقال کر گئیں
  • شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار
  • بُک شیلف
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • چُھٹکی
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • پنجاب میں مساجد کے امام کی رجسٹریشن سے متعلق حکومتی وضاحت سامنے آگئی
  • ایک ساتھ دو چھٹیاں مل گئیں