رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے اتنی دشمنی کیوں!
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
ملک میں مستقل مزاجی اور ٹھوس بنیادوں پر پالیسی سازی کا فقدان تو خیر موجود ہی ہے۔ مگر اس طرح بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت لٹھ لے کر ایک مخصوص کاروباری شعبہ کے پیچھے پڑ جائے۔ قصداً ایسی مضحکہ خیر پالیساں ترتیب دی جائیں کہ وہ شعبہ بربادی کے دہانے پر جا کھڑا ہو۔ اس میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے چند مصنوعی قسم کی سہولتی اقدامات کرنے کا ارادہ کیا جائے۔ اس کے بعد‘ طویل خاموشی اختیار کر لی جائے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو منصوبہ بندی کے تحت تخت ستم بنایا گیا ہے۔
موجودہ حکومت اور اس سے پہلے اس کے ایک سال کے دورانیہ میں ‘ پاکستان کے سب سے بڑے شعبہ کے متعلق ہر وہ منفی پالیسی اپنائی گئی جس سے رئیل اسٹیٹ شعبہ جمود کا شکار ہو جائے۔ اس کی ترقی بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ رک جائے۔ اپنے ملک میں‘ اس زبوں حالی کا جائزہ لینے سے پہلے ‘ ذرا آپ کی توجہ قریبی ممالک کی ان پالیسیوں کی طرف کروانا چاہتا ہوں جو مستحکم ملکی قیادت سے آویزاں ہیں۔
دبئی کی مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ بنیادی طور پر وہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک خوشنما شہر ہے۔ جہاں دنیا کے ہر ملک سے لوگ آ کر سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دبئی کی جوہری ترقی ‘ رئیل اسٹیٹ سکیٹر کی ترویج سے جڑی ہوئی ہے۔ صحرا کے بیچ‘ وہاں کے حکمرانوں نے بین الاقوامی سطح پر ہر ایک کو اعتماد دیا۔ کہ آپ دبئی آئیں ‘ عمارتیں بنائیں‘ شاپنگ مال ترتیب دیں ‘ بلند قامت ہوٹل ایستادہ کریں۔ آپ کے سرمایہ کو بھی تحفظ حاصل ہو گا اور آپ کی بھی ہر طور حفاظت کی جائے گی۔
جب‘ عملی طور پر دبئی کی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو ریاستی چھتر چھاؤں مہیا کر دی تو پوری دنیا کے سرمایہ کاروں نے اس شہر کا رخ کر لیا۔ بیس سے تیس سال میں رئیل اسٹیٹ شعبہ نے اتنی محیر العقول ترقی کی کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہاں کی متحرک اور قابل حکومت نے سمندر کے اندر بھی اس مہارت سے مہنگی ترین کالونیاں بنا ڈالی‘ جنھیں دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہاں آج بھی لوگ دھڑا دھڑ‘ گھر‘ ولا اور فلیٹ خرید رہے ہیں۔صرف گھروں کے شعبہ کی مارکیٹ کھربوں ڈالر پر محیط ہے۔ اس میں پانچ فیصد سالانہ سے زیادہ شرح نمو ہے۔ دبئی کی جی ڈی پی میں صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا حصہ نو فیصد کے برابر ہے۔ پوری دنیا سے سیاح دبئی دیکھنے آتے ہیں۔
ان کے قیام کے لیے Vacation Homes میں محض کرایہ کا منافع دس سے بارہ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان کے ہر امیر آدمی نے دبئی میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ لیکن کیونکہ ہم ’’رئیس المنافقین‘‘ طبع کے لوگ ہیں۔ لہٰذا اس خرید و فروخت کو چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ ہم دنیا کے نقشہ پر صرف ’’دہشت گردی‘‘ کی قیامت خیز علامت کے علاوہ کچھ بھی نہیں گردانے جاتے۔ ہندوستان کے لوگوں نے دبئی میں سب سے زیادہ رئیل اسٹیٹ خریدی ہوئی ہے۔ دوسرا نمبر چین کا ہے۔ دبئی کے حکمران‘ انسانی نفسیات کو سمجھتے ہیں۔ انھیں علم ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو کیسے تحفظ فراہم کرنا ہے۔
ہمارے جیسے ملک جیسا معاملہ نہیں۔ جہاں ایک سابق چیف جسٹس پاکستان کی معدنیات میں بین الاقوامی سطح کی سرمایہ کاری کا گلا گھونٹ ڈالے۔ اور جب وہ کمپنی ‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اپنا مقدمہ لے کر جائے تو وہاں بیٹھے ہوئے غیر متعصب جج صاحبان کو ببانگ دہل کہنا پڑے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو بیان الاقوامی معاہدوں کی بابت کچھ بھی قانونی نالج نہیں۔ بہر حال کس کس قیامت پر نوحہ کیا جائے۔ ہماری حکومتیں نہ صرف کاروبار سے عملی طور پر نفرت کرتی ہیں بلکہ حکومت کی تمام مشینری کی کوشش ہوتی ہے کہ خدا نخواستہ کوئی بھی کاروبار کامیاب نہ ہو جائے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر‘ میں موجودہ جمود‘ اس کی عملی نشانی ہے۔
پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا حجم تمام مشکلات کے باوجود‘ ہر انڈسٹری سے بالا تر ہے۔ اس شعبہ کا حجم 1.                
      
				
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ گھر بنانے کے شعبہ سے چالیس صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ مگر طالب علم کے تجزیہ کے مطابق‘ یہ نمبر پورا سچ نہیں ہے۔ میری دانست میں پچھتر (75) کے قریب ایسے شعبے ہیں جو رئیل اسٹیٹ سے وابستہ ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کی حیثیت اس ملک کے لیے ایک گروتھ انجن کی ہے جو ان گنت ریل کے ڈبوں کا بوجھ اپنے پیچھے زبردستی کھینچ رہا ہے۔ تکلیف وہ سچ یہ ہے کہ اس شعبہ کو سرکاری سطح پر کسی طرح کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔
ہمارے موجودہ وزیر خزانہ‘ ہو سکتا ہے کہ اچھے اکانومسٹ ہوں۔ مگر انھیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے متعلق صرف کتابی معلومات ہیں۔ تو پھر مجھے بتایئے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی مشکلات کو کون اور کیونکر حل کر پائے گا۔ ؟ جہاں تک موجودہ وزیراعظم کا تعلق ہے ان کے لیے‘ اس شعبہ کی بحالی کسی قسم کی کوئی ترجیح نہیں۔ وہ بار بار اعلان تو فرما دیتے ہیں کہ جناب بس ایک کنسٹرکشن پیکیج لایا جا رہا ہے۔
اس کے بعد‘ وہ مسودہ ‘ کسی مردہ فائل کا حصہ بن کر کسی بابو کی میز پر تدفین کے لیے پڑا رہتا ہے۔ ویسے موجودہ وزیراعظم کو ریاستی اداروں نے بھی کہا ہے کہ آپ اس اہم ترین شعبہ پر توجہ دیں۔ ریلیف پیکیج کا اعلان کریں۔ بنیادی مسودہ بھی بنا کر ان کے حوالے کیا گیا ہے۔ مگر وہ اسے منظور فرماتے ہیں اور نا اسے نامنظور کرتے ہیں۔ کبھی آئی ایم ایف سے منظوری کا بہانہ تراشہ جاتا ہے اور کبھی اسے کسی ایسے مہاشہ کے سپرد کر دیا جاتا ہے ‘ جو اس شعبہ کی الف بے سے بھی واقف نہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ملک کا کھربوں روپے کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ بنے ہوئے گھر کھڑے ہیں۔ گاہک موجود نہیں۔ رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے معتبر لوگ بھی مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
ایک گزارش مزید کرنا چاہتا ہوں ۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ ‘ ہر حکومت کی آنکھ کا تارا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈالر کما کر خزانہ بھردیتے ہیں۔ انھیں ہر حکومت ہر وہ سہولت دیتی ہے جو وہ مونہہ سے نکالتے ہیں۔ مگر تمام تر زور لگانے کے باوجود‘ ہماری برآمدات ‘ پندرہ بلین ڈالر سے بڑھ نہیں پاتی۔ یعنی ہر جائز اور ناجائز بات منوانے کے باوجود ‘ ٹیکسٹائل کا شعبہ اتنا کمزور ہے کہ وہ محض پندرہ بلین ڈالر کما سکتا ہے۔ ذرا دوسرے ملکوں سے موازنہ تو فرمایئے۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ 57 بلین ڈالر ہے۔ ویت نام میں اس شعبہ کی برآمدات چالیس بلین ڈالر سے اوپر ہیں۔
ہمارا ٹیکسٹائل کا شعبہ بہت پیچھے ہے۔ مگر حکومتی عنایات ہیں کہ ان پر برس رہی ہیں۔ یہی معاملہ چینی اور سیمنٹ بنانے والے کارخانوں کا ہے۔ کیونکہ اس شعبہ میں حکومتی اکابرین خود شامل ہیں۔ لہٰذا یہاں ہر طریقہ کا منافع بخش کھیل‘ بڑی ’’معصومیت‘‘ سے کھیلا جاتا ہے اور آج بھی کھیلا جا رہا ہے۔ سرکار کے لوگ اکثر دعویٰ فرماتے ہیں کہ کالا دھن‘ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں چھپایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جزوی طور پر یہ بات درست ہو۔ مگر جناب ذرا دوسرے شعبوں کو بھی اسی نظر سے پرکھنے کی کوشش کریں۔ کالا دھن تو اس ملک کے ہر شعبہ میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ کیا ابھی تمام اخبارات میں یہ خبر نہیں آئی کہ ٹیکسٹائل کمپنیاں ‘ آئی ٹی کی جھوٹی برآمدات ظاہر کر کے ‘ اس کی آڑ میں کوئی اور دھندا کر رہی ہیں۔ وزیراعظم بھی خاموش اور وزیر خزانہ نے بھی چپ رہنے میں عافیت سمجھی۔
ذرا سابقہ حکومت کے تین سال کے دورانیہ کو پرکھیے ۔ پراپرٹی دن دگنی ‘ رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ روز گار زوروں پر تھا۔ مگر جب سے رجیم چینج ہوئی ہے اس شعبہ کو منفی بنا کر برباد کر دیاگیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ موجودہ حکومت سمجھ داری سے کام لے ۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بحالی کے لیے ہر طرح کا ریلیف پیکیج بنائے اور مثبت فیصلہ سازی کرے ۔آخر رئیل اسٹیٹ سکیٹر سے اتنی دشمنی کیوں؟
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رئیل اسٹیٹ سیکٹر سرمایہ کاری بلین ڈالر شعبہ کی ملک میں جاتا ہے نہیں ہے دبئی کی ہیں کہ رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)