کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطینی طالبہ گرفتار، فلسطینوں کے حق میں احتجاج دہشتگرد سرگرمی کی حمایت قرار
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطینی طالبہ گرفتار، فلسطینوں کے حق میں احتجاج دہشتگرد سرگرمی کی حمایت قرار WhatsAppFacebookTwitter 0 15 March, 2025 سب نیوز
فلسطینوں کے حق میں آواز بلند کرنے والی امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی طالبہ لیقا کو گرفتار کرلیا گیا۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطینی طالبہ لیقا نے فلسطینوں کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ لیقا گرفتار ہونے والی دوسری فلسطینی طالبہ ہیں۔ اس سے قبل فلسطینی طالب علم محمود خلیل کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی کی جانب سے جاری بیان میں لیقا کو اسٹوڈنٹ ویزا کی مدت سے زیادہ قیام کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق لیقا کو امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کے اہلکاروں نے گرفتار کیا۔ انہوں نے کہا کہ لیقا کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے طلبا کے مظاہروں کو دہشت گرد سرگرمی کو سپورٹ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ٹرمپ انتطامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی کو ایک ڈپارٹمنٹ کا کنٹرول چھوڑنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب حماس کی حمایت کرنے پر بھارتی طالبہ رنجنی سری نواسن کا اسٹوڈنٹ ویزا بھی منسوخ کردیا گیا۔ ہوم لینڈ سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ بھارتی طالبہ کو ڈی پورٹ کیا جائے گا تاہم بھارتی طالبہ خود ہی امریکا چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے واپس بھارت چلی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں زبردستی امریکی فوجی طیارے میں بیٹھ کر وطن واپس جانا نہیں چاہتی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطینوں کے حق میں فلسطینی طالبہ
پڑھیں:
پاکستان: افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی تسلیم کر لی
پاکستان نے بتایا ہے کہ افغان طالبان حکومت نے حالیہ مذاکرات کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی تسلیم کی ہے، تاہم افغان حکام نے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ مذاکرات حساس نوعیت کے حامل ہیں اور ہر لمحے پر تفصیلی تبصرہ ممکن نہیں، وزارت خارجہ نے احتیاط برتنے کا حق استعمال کیا۔
ترجمان کے مطابق استنبول مذاکرات میں تمام متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل تھے اور تمام اہم امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اگلے دورِ مذاکرات، جو 6 نومبر کو ہوگا، میں اس عمل کی جامع تفصیلات سامنے آئیں گی۔ مذاکرات نہایت حساس اور پیچیدہ ہیں جن میں صبر اور بردباری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سفارت کاری میں امید برقرار رکھنا ضروری ہے اور میزبان ملک کا بیان محض مذاکرات کا تعارفی نوٹ تھا، جبکہ تحریری یقین دہانیاں مذاکرات کے مستقل عمل کا حصہ ہیں۔
ترجمان نے واضح کیا کہ وزارت خارجہ کے قواعد کے مطابق جنگ یا امن کا اعلان وزیراعظم کی صوابدید پر ہوتا ہے، وزیراعظم کو فیصلوں کے لیے وزارت خارجہ سے مشاورت اور سفارشات فراہم کی جاتی ہیں، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور سیکرٹری خارجہ بھی مذاکرات میں فعال کردار ادا کرتے رہے، لہٰذا حکومت میں کسی قسم کے اختلاف یا تقسیم کا تاثر درست نہیں ہے۔
سرحد کی بندش کے فیصلے کے بارے میں ترجمان نے کہا کہ یہ سکیورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے اور مزید اطلاع تک یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ افغان طالبان حکومت کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد عناصر کی موجودگی پاکستان کے سکیورٹی خدشات کو تقویت دیتی ہے۔
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات میں اعلیٰ سطح کی نمائندگی متوقع ہے اور فی الحال وفد کی قیادت کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ سیزفائر برقرار ہے اور افغانستان کی جانب سے دی گئی یقین دہانیوں کا نوٹس لیا گیا ہے، امید ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد ہوگا۔
گزشتہ روز پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا، جبکہ اس کے نفاذ کے طریقہ کار پر چھ نومبر کو استنبول میں اعلیٰ سطح ملاقات ہوگی۔ استنبول میں مذاکرات کے بعد ترکی کی وزارت خارجہ نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں فریقین نے نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کرنے اور امن کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا لاگو کرنے پر اتفاق کیا۔ مذاکرات 25 تا 30 اکتوبر تک ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہوئے، اور دونوں ممالک نے دیرپا امن و استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔