پاکستانی نوجوان: بےروزگاری کے مسائل اور نئے مواقع کی تلاش
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مارچ 2025ء) اس وقت پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے۔ یہ کروڑوں نوجوان شہری ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں نتیجہ خیز مواقع درکار ہیں۔ ان مواقع کی کم یا عدم دستیابی سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں خاص طور پر نوجوانوں میں بےروزگاری شدید مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔
پاکستان: خواتین کی اجرتیں مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم، آئی ایل او
سیاسی عدم استحکام، غیر مستحکم اقتصادی پالیسیاں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ملک میں روزگار کے دستیاب مواقع محدود کرتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ناقص نظام تعلیم، محدود رسائی، اور تعلیمی نصاب کا روزگار کی منڈی کی ضروریات سے ہم آہنگ نہ ہونا بھی نوجوان نسل میں بےروزگاری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
(جاری ہے)
پاکستان میں نوجوانوں کے حقوق، ان کی ضروریات اور ان کے لیے روزگار کے مناسب مواقع کی وکالت کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم یوتھ ایڈووکیسی نیٹ ورک بھی ہے، جس کے بانی فصاحت الحسن کو حال ہی میں اسلامک کانفرنس یوتھ فورم کی جانب سے اس کا ایشیا کے لیے نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کی شرحفصاحت الحسن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان میں ابتدائی تعلیم کی عمر کے 25 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
صرف تقریباﹰ 68 فیصد بچے ہی ابتدائی تعلیم مکمل کرتے ہیں، جب کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی شرح صرف 13 فیصد بنتی ہے، جسے عالمی تناظر میں انتہائی کم تصور کیا جاتا ہے۔‘‘لیکن ایسا کیوں ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فصاحت الحسن نے بتایا، ''تعلیمی نصاب اور جاب مارکیٹ کی ضروریات میں بڑی خلیج، روایتی ڈگریوں کو فنی تعلیم پر دی جانے والی ترجیح اور اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام یہ سب مل کر مسئلے کو شدید تر بنا رہے ہیں۔
تکنیکی ترقی نے بھی روایتی ملازمتوں کو کم کر دیا ہے، جس سے نوجوان جدید نوعیت کی نوکریوں کے اہل ثابت نہیں ہو پاتے۔ اس کے نتیجے میں بےروزگاری، غربت، جرائم اور ذہنی صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اوربرین ڈرین تو پاکستانی معیشت کو کمزور کر ہی رہا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تعلیم نظام میں اصلاحات، فنی تربیت کے مواقع، معاشی استحکام، اور نوجوانوں کے لیے خاص طور پر ترتیب دی گئی پالیسیاں ناگزیر ہیں۔ دوسری صورت میں پاکستان آئندہ اپنی نوجوان نسل کی جملہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام بھی ہو سکتا ہے۔‘‘جوشوآ دلاور وزیر اعظم یوتھ پروگرام کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں اور آواز پروگرام میں بطور مینیجر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''پاکستانی ادارہ شماریات کی 2023ء کی آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری کے مطابق ملک میں بےروزگاری کی شرح 22 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے، جو انتہائی تشویشناک بھی ہے اور غیر معمولی اضافے کی نشان دہی کرتی ہے۔
اس کے علاوہ یہی سالانہ شرح بےروزگاری پاکستانی تاریخ کی روزگار کے متلاشی شہریوں کی سب سے اونچی شرح بھی ہے۔‘‘ روزگار کے نئے مواقع میں نجی شعبے کا کردارجوشوآ دلاور کے بقول پاکستان کو اس وقت معاشی عدم استحکام اور روزگار کے محدود مواقع جیسے سنگین حقائق کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا، ''نوجوانوں میں بےروزگاری میں کمی کے لیے سب سے پہلے تعلیمی نصاب کو جاب مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جانا چاہیے اور فنی تعلیم پر بھی زور دیا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ ای کامرس،ڈیجیٹلائزیشن، گرین انرجی اور صنعتی پیداوار جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ساتھ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کو اپنے کاروبار شروع کرنے کے لیے وسائل، تربیت، اور مالی معاونت ملنا چاہییں جبکہ زراعت میں بھی جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جانا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی نوجوانوں کی شمولیت زیادہ ہونا چاہیے، جدید صنعتی تصورات پر توجہ دی جانا چاہیے اور 'اسٹارٹ اپ کلچر‘ کو فروغ دیتے ہوئے نوجوانوں کو روزگار کے دیرپا مواقع کی بنیاد فراہم کیا جانا چاہیے۔‘‘اس پاکستانی نوجوان کے مطابق انہوں نے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کمیٹی کے رکن اور ایشیا یورپ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سفیر کے طور پر پاکستان میں نو عمر نوجوانوں کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کیمپ منعقد کروائے، جہاں انہیں'لائف اسکلز‘ کی تربیت دی گئی۔
جوشوآ دلاور نے کہا، ''ایسے اقدامات مستقل اور قابل اعتماد معاشی پالیسیاں تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے روزگار کے مزید مواقع پیدا کریں گی۔
‘‘پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اسی سال جنوری میں 'پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام‘ کے ایک جلاس کی صدارت کرتے ہوئےکہا تھا، ''حکومت بےروزگاری کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تربیت دینے اور اس عمل میں نجی شعبے کی شمولیت میں مزید اضافے پر کام کر رہی ہے۔ اڑان پاکستان منصوبہ، جو پاکستان کو عالمی معیشتوں میں شامل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے، ملک بھر میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔‘‘
پاکستانی حکومت کے ان اردوں کو عملی شکل دینے میں تاہم فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ حکومت جو کہتی ہے، وہ کر بھی دکھائے، اور نتائج ویسے نہ ہوں جیسے گزشتہ حکومتوں کے بےعملی سے عبارت وعدوں کے نکلے تھے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں بےروزگاری کی ضروریات جانا چاہیے کرتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع مواقع کی رہے ہیں
پڑھیں:
پاک بھارت مستحکم امن کی تلاش
پاکستان نے ، اللہ کے فضل و کرم سے، چار روزہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کو تاریخ ساز شکست دی ۔ ساری دُنیا مان اور تسلیم کر چکی ہے ۔
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، ایک درجن سے زائد بار ، برسرِ مجلس، اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کی کوششوں اور مساعی سے پاک بھارت جنگ آگے بڑھنے سے رُکی ۔ ٹرمپ نے تو اگلے روز یہ بھی سب کے سامنے تسلیم کیا کہ اِس جنگ میں ( بھارت کے) چار، پانچ جدید جنگی طیارے رافیل (پاک فضائیہ نے) مار گرائے ۔ فرانس تک (جس نے بھارت کومایہ ناز رافیل طیارے فراہم کیے) تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے رافیل مار گرائے ۔ بھارت مگر ڈھٹائی اور مارے ندامت کے مان نہیں رہا ۔
مودی جی تو طیش میں بَل کھا رہے ہیں ، مگر امریکی صدر کی باتوں کی تردید بھی نہیں کر پارہے ۔ مودی جی کی آتش نوائی نے پاک بھارت امن کی فضاؤں میں تشویشات کی متعدد لہریں دوڑا رکھی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم کی اِسی آتش نوائی نے پاکستان کی امن ساز کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے ۔
پاکستان اور بھارت کی فضاؤں پر موہوم حربی بادلوں کے آثار ہیں۔فریقین پریشان ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اِس گمبھیر صورتحال سے کیسے باعزت سرخرو ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب کئی جوانب سے متنوع انداز میں سامنے آرہا ہے ۔ اِس سوال کا ایک جواب ممتاز دانشور ، جناب یوسف نذر ،نے بھی دیا ہے۔جناب یوسف نذر بنیادی طور پر عالمی شہرت یافتہ بینکر ہیں ، مگر اپنے ہمہ گیر اقتصادی تجربات کے کارن اُن کی نظر عالمی سیاست اور عالمی تصادموں پر بھی رہتی ہے ۔
موصوف نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی میں ایک مفصل آرٹیکل لکھا ہے ۔اُنھوں نے قارئین کو بتایا ہے کہ پاکستان موجودہ (پاک بھارت کشیدگی) کے بحران سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اپنے دیرینہ اور آزمودہ دوست، چین، کی مرکزی پالیسی سے سبق حاصل کرے ۔ اور بقول مصنف، چین کی یہ مرکزی سوچ’’غیر تصادمی پالیسی‘‘ ہے ۔ یوسف نذر کے خیالات سے متفق ہُوئے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی تجویز میں کئی نکات قابلِ غور ہیں ۔
یوسف نذر لکھتے ہیں: ’’چین کی طویل عرصے سے اختیار کردہ غیر تصادمی پالیسی نے اسے نوآبادیاتی استحصال کے ملبے سے اُٹھا کر عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد دی ہے۔ سرد جنگ کے پراکسی تنازعات، شام اور یوکرین کی جنگوں، یا حالیہ بحیرہ جنوبی چین کی کشیدگی میں، چین نے ہمیشہ طویل فوجی الجھاؤ سے گریز کیا ہے۔
امریکا کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے دوران چین کا محتاط ردِعمل ( جس میں محدود ٹیرف، عالمی تجارتی تنظیم میں اپیلیں، اور تجارتی شراکت داروں کی خاموشی شامل ہے) اسی پالیسی کا عکاس ہے۔ بیجنگ نے کشیدگی بڑھانے کے بجائے داخلی استحکام، معاشی خودانحصاری اور سفارتی روابط کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ طرزِ عمل ایک طاقتور نمونہ پیش کرتا ہے۔بین الدولی تعلقات محض نظریات سے متعین نہیں ہوتے، جیسا کہ پاکستان اور چین کی گہری دوستی ظاہر کرتی ہے۔ چین، ایک غیر مذہبی اور غیر جمہوری ریاست ہونے ، اور پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود، ایک مضبوط شراکت داری قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ عملی پالیسیاں نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ پاک بھارت دیرینہ تنازعات کی اس وراثت سے باعزت نکل سکتا ہے جس نے اس کے وسائل کو چوسا، معاشی ترقی کو روکا اور عدم استحکام کو جنم دیا؟چینی ترقی کی کہانی پاکستان کے لیے سبق آموز ہے۔ چین نے غیر ملکی تنازعات سے دُور رہ کر اور اندرونی استحکام پر توجہ دے کر اپنے80کروڑ شہریوں کو غربت سے نکالا اور ایک عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کو بھی اسی طرح اپنی اندرونی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
1971کی جنگ میں بنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا ایک قومی سانحہ تھا۔ اس سانحہ میں ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور 20 فیصد جی ڈی پی ختم ہو گئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کی شرکت نے پاکستان میں دہشت گردی کے لامختتم سلاسل کو جنم دیا، جس میں 2001 سے اب تک 80,000 سے زائد جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ اِس عظیم جانی نقصان کو پاکستان کی مختلف حکومتیں بھی تسلیم کر چکی ہیں‘‘۔
یوسف نذر مزید لکھتے ہیں:’’ایسے پس منظر میں چین کی غیر تصادمی حکمتِ عملی، جس میں اندرونی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے ایک واضح سبق ہے۔ چین کی غیر تصادمی پالیسی 1954ء میں وضع کیے گئے ’’پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں‘‘ پر مبنی ہے، جس میں خودمختاری کے احترام، جارحیت سے گریز، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا گیا ہے۔ ’’ذلت کی صدی‘‘ کے تجربے (1839 تا 1949) نے چین میں یہ عزم پیدا کیا کہ خودمختاری کا تحفظ اور بیرونی تنازعات سے بچاؤ ضروری ہے۔
ماؤزے تنگ نے داخلی استحکام پر توجہ دی، جب کہ ڈینگ شیاؤ پنگ نے 1970 کی دہائی کے آخر میں معاشی اصلاحات کے ذریعے غیر تصادمی حکمت عملی کو مکمل طور پر ترقی کا ذریعہ بنایا۔ ڈینگ کا فلسفہ ’’اپنی صلاحیتوں کو چھپاؤ اور وقت کا انتظار کرو‘‘چین کی ترقی کی بنیاد بنا۔چین کی تاریخ میں کئی مواقع پر غیر تصادمی پالیسی واضح طور پر نظر آئی، جیسے کوریا جنگ میں محدود شرکت، ویتنام جنگ میں براہ راست مداخلت سے گریز، اور 1979کی چین-ویتنام جنگ کے بعد مکمل طور پر سفارتی حکمت عملی اپنانا۔کیوبا میزائل بحران، بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ، خلیج فارس کی جنگ، یوگوسلاویہ کی جنگیں، روانڈا نسل کشی، عراق جنگ، اور لیبیا اور شام کے تنازعات میں چین کا کردار بھی غیر تصادمی رہا۔ چین نے ہمیشہ سفارت کاری اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دی۔چین کی اندرونی حکمرانی نے استحکام، ترقی، اور خود انحصاری کو یقینی بنایا۔
1978 کی معاشی اصلاحات نے دیہی آمدنی دگنی کر دی، تعلیم میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور سائنسی تحقیق میں پیشرفت نے مصنوعی ذہانت، 5G اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کو ممکن بنایا۔چین نے فوجی اخراجات کو محدود رکھا ۔ 2023 میں جی ڈی پی کا محض 1.67 فیصد ، جب کہ امریکا اور رُوس جیسے ممالک نے اپنے وسائل جنگوں میں ضایع کیے۔چین کا بحیرئہ جنوبی چین میں کشیدگی پر سفارت کاری کو ترجیح دینا، فوجی تنازعات سے بچاؤ کی حکمت عملی کا مظہر ہے۔
اس کے برعکس امریکا نے عراق اور افغانستان میں کھربوں ڈالر ضایع کیے، جب کہ چین نے تجارتی استحکام کو فروغ دیا۔پاکستان کے لیے، چین کا ماڈل ایک واضح راستہ پیش کرتا ہے: تنازعات سے گریز، وسائل کا داخلی ترقی پر استعمال، اور تعلیم، صحت اور صنعت میں سرمایہ کاری۔ اگر پاکستان نے اس راستے کو اختیار کیا تو وہ معاشی ترقی اور استحکام حاصل کر سکتا ہے۔چین کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی پر توجہ تنازعات سے کہیں زیادہ طاقتور راستہ ہے۔ پاکستان کو یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ترقی اس کی تقدیر بن سکے‘‘۔
یوسف نذر ایسے دانشور کے مذکورہ مشورے مستحسن تو کہے جا سکتے ہیں ، مگر موجودہ پاک بھارت کشیدگی کے لمحات میں شائد اِن پر عمل کرنا اتنا سہل نہیں ہے ۔ غور کرنے میں مگر ہرج بھی کیا ہے ؟ کبھی کبھار ’’مانگے کے اُجالے‘‘ سے بھی روشنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ پچھلے دو ہفتوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف فضا کو جس بُری طرح مشتعل کررکھا ہے، ایسی فضا میں پاکستان کے لیے ایسے مشورے شائد قابلِ عمل نہیں ہیں۔ اِن پر عمل کرنا شائد پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے۔ ’’غیر تصادمی‘‘ پالیسی کے ایسے مشورے بھارت کے ممتاز ترین مسلم دانشور، مفکر ، مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ، مولانا وحید الدین خان مرحوم، بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو دیتے رہے ہیں ۔
اُن کے یہ مشورے مگر ، بوجوہ، پاکستان میں قبولیت نہ پا سکے ۔ یوسف نذر صاحب اور مولانا وحید الدین خان مرحوم مبینہ ’’ غیر تصادمی پالیسی ‘‘ ایسے مشورے بھارت اور بھارتیوں کو دیتے نظر نہیں آتے۔ یہ بھارت ہے جوکبھی افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی BLAاور BRA ایسے دہشت گردوں کے زریعے پاکستان میںخونریزی کا بازار گرم کرواتا ہے۔ بھارت کی پاکستان مخالف شیطانیاں کم ہوں تو جنوبی ایشیا میں امن کی فضائیں آر پار جا سکیں ۔