UrduPoint:
2025-04-25@02:55:01 GMT

پاکستانی نوجوان: بےروزگاری کے مسائل اور نئے مواقع کی تلاش

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

پاکستانی نوجوان: بےروزگاری کے مسائل اور نئے مواقع کی تلاش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مارچ 2025ء) اس وقت پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے۔ یہ کروڑوں نوجوان شہری ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں نتیجہ خیز مواقع درکار ہیں۔ ان مواقع کی کم یا عدم دستیابی سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں خاص طور پر نوجوانوں میں بےروزگاری شدید مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔

پاکستان: خواتین کی اجرتیں مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم، آئی ایل او

سیاسی عدم استحکام، غیر مستحکم اقتصادی پالیسیاں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ملک میں روزگار کے دستیاب مواقع محدود کرتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ناقص نظام تعلیم، محدود رسائی، اور تعلیمی نصاب کا روزگار کی منڈی کی ضروریات سے ہم آہنگ نہ ہونا بھی نوجوان نسل میں بےروزگاری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں نوجوانوں کے حقوق، ان کی ضروریات اور ان کے لیے روزگار کے مناسب مواقع کی وکالت کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم یوتھ ایڈووکیسی نیٹ ورک بھی ہے، جس کے بانی فصاحت الحسن کو حال ہی میں اسلامک کانفرنس یوتھ فورم کی جانب سے اس کا ایشیا کے لیے نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔

ابتدائی تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کی شرح

فصاحت الحسن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان میں ابتدائی تعلیم کی عمر کے 25 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

صرف تقریباﹰ 68 فیصد بچے ہی ابتدائی تعلیم مکمل کرتے ہیں، جب کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی شرح صرف 13 فیصد بنتی ہے، جسے عالمی تناظر میں انتہائی کم تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

لیکن ایسا کیوں ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فصاحت الحسن نے بتایا، ''تعلیمی نصاب اور جاب مارکیٹ کی ضروریات میں بڑی خلیج، روایتی ڈگریوں کو فنی تعلیم پر دی جانے والی ترجیح اور اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام یہ سب مل کر مسئلے کو شدید تر بنا رہے ہیں۔

تکنیکی ترقی نے بھی روایتی ملازمتوں کو کم کر دیا ہے، جس سے نوجوان جدید نوعیت کی نوکریوں کے اہل ثابت نہیں ہو پاتے۔ اس کے نتیجے میں بےروزگاری، غربت، جرائم اور ذہنی صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اوربرین ڈرین تو پاکستانی معیشت کو کمزور کر ہی رہا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تعلیم نظام میں اصلاحات، فنی تربیت کے مواقع، معاشی استحکام، اور نوجوانوں کے لیے خاص طور پر ترتیب دی گئی پالیسیاں ناگزیر ہیں۔

دوسری صورت میں پاکستان آئندہ اپنی نوجوان نسل کی جملہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

جوشوآ دلاور وزیر اعظم یوتھ پروگرام کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں اور آواز پروگرام میں بطور مینیجر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''پاکستانی ادارہ شماریات کی 2023ء کی آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری کے مطابق ملک میں بےروزگاری کی شرح 22 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے، جو انتہائی تشویشناک بھی ہے اور غیر معمولی اضافے کی نشان دہی کرتی ہے۔

اس کے علاوہ یہی سالانہ شرح بےروزگاری پاکستانی تاریخ کی روزگار کے متلاشی شہریوں کی سب سے اونچی شرح بھی ہے۔‘‘ روزگار کے نئے مواقع میں نجی شعبے کا کردار

جوشوآ دلاور کے بقول پاکستان کو اس وقت معاشی عدم استحکام اور روزگار کے محدود مواقع جیسے سنگین حقائق کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا، ''نوجوانوں میں بےروزگاری میں کمی کے لیے سب سے پہلے تعلیمی نصاب کو جاب مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جانا چاہیے اور فنی تعلیم پر بھی زور دیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ ای کامرس،ڈیجیٹلائزیشن، گرین انرجی اور صنعتی پیداوار جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ساتھ ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کو اپنے کاروبار شروع کرنے کے لیے وسائل، تربیت، اور مالی معاونت ملنا چاہییں جبکہ زراعت میں بھی جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جانا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی نوجوانوں کی شمولیت زیادہ ہونا چاہیے، جدید صنعتی تصورات پر توجہ دی جانا چاہیے اور 'اسٹارٹ اپ کلچر‘ کو فروغ دیتے ہوئے نوجوانوں کو روزگار کے دیرپا مواقع کی بنیاد فراہم کیا جانا چاہیے۔

‘‘

اس پاکستانی نوجوان کے مطابق انہوں نے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کمیٹی کے رکن اور ایشیا یورپ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سفیر کے طور پر پاکستان میں نو عمر نوجوانوں کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کیمپ منعقد کروائے، جہاں انہیں'لائف اسکلز‘ کی تربیت دی گئی۔

جوشوآ دلاور نے کہا، ''ایسے اقدامات مستقل اور قابل اعتماد معاشی پالیسیاں تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے روزگار کے مزید مواقع پیدا کریں گی۔

‘‘

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اسی سال جنوری میں 'پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام‘ کے ایک جلاس کی صدارت کرتے ہوئےکہا تھا، ''حکومت بےروزگاری کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تربیت دینے اور اس عمل میں نجی شعبے کی شمولیت میں مزید اضافے پر کام کر رہی ہے۔ اڑان پاکستان منصوبہ، جو پاکستان کو عالمی معیشتوں میں شامل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے، ملک بھر میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔‘‘

پاکستانی حکومت کے ان اردوں کو عملی شکل دینے میں تاہم فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ حکومت جو کہتی ہے، وہ کر بھی دکھائے، اور نتائج ویسے نہ ہوں جیسے گزشتہ حکومتوں کے بےعملی سے عبارت وعدوں کے نکلے تھے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں بےروزگاری کی ضروریات جانا چاہیے کرتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع مواقع کی رہے ہیں

پڑھیں:

اولاد کی تعلیم و تربیت

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)

اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔

ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔

اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔

اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)

آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔

اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔

جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔

بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔

اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔

اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)

            اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔

والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔

آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟

اس نے عرض کیا: نہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘

اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔

اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • سکلز کرکٹ اکیڈمی کے ذریعے نوجوانوں کو مفت کرکٹ سکھائی جائے گی ،سید شجر عباس
  • امریکہ تمام یکطرفہ ٹیرف اقدامات مکمل ختم اور اختلافات کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرے، چین
  • بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، سپریم کورٹ
  • پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
  • ’تعلیم، شعور اور آگاہی کی کمی پاکستانی ماؤں کی صحت مند زندگی کی راہ میں رکاوٹ ہے’
  • پاکستان عالمی اسٹریٹجک مسائل پر تعمیری مکالمے کے لیے پرعزم ہے، جنرل ساحرشمشاد
  • مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کیلئے پرعزم ہیں: وزیراعظم
  • نوجوان قومی اثاثہ‘ فکر اقبال کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنائیں گے: احسن اقبال
  • نوجوان جمہوری اقدار، پارلیمانی روایات ،قانون سازی میں حصہ لیں:محمد احمد خان