اسلام آباد:

وزیرِ اعظم نے بجلی صارفین کو بڑا ریلیف دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حالیہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں سابقہ سطح پر برقرار رکھتے ہوئے اس کا پورا مالی فائدہ بجلی کی قیمتوں میں عوام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدام، ان  بہت سے دیگر  اقدامات میں سے ایک ہے جو  بجلی کے نرخوں میں بامعنی کمی کا باعث بنیں گا۔  بجلی کے نرخوں میں کمی کے حوالے سے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے تحت پیکج تیار کیا جا رہا ہے جس کی تفصیلات کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ردوبدل کے فرق سے پیدا ہونے والی مالی گنجائش اور دیگر اقدامات سے بجلی کی قیمتوں میں عوام کو بڑا ریلیف دینے کا پیکج تیار ہے۔ بجلی کے نرخوں میں کمی کے حوالے سے پیکج کا اعلان آئندہ چند ہفتوں میں کیا جائے گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ حکومت سنبھالتے ہی عوامی ریلیف کو ترجیح دینے کا عہد کیا تھا۔

وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق شہباز شریف اگلے چند ہفتوں میں بجلی کے نرخوں میں کمی کی صورت میں ریلیف اور عوام کے لئے مزید آسانیاں فراہم کرنے کے حوالے سے عزم کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ اس ریلیف سے  نہ صرف بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی بلکہ اسکا اثر مجموعی طور پر مہنگائی پر پڑے گا اور اس میں مزید کمی واقعہ ہوگی۔

اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف جلد ریلیف کے حوالے سے خطاب کر کے قوم کو خود آگاہ کریں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بجلی کے نرخوں میں کے حوالے سے

پڑھیں:

حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار

اسلام آباد:

پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ 

حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29  ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت  46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔

2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔

پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔

توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔

سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔

توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کھانے کے تیل میں ناجائز منافع خوری کا خوفناک اسکینڈل، صارفین سے 150 روپے فی لیٹر زیادہ وصولی
  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • میٹا کا بچوں اور نوجوانوں کے تحفظ کیلیے نئے حفاظتی اقدامات کا اعلان
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
  • غریب بجلی صارفین کو سبسڈی کی مد میں نقد رقم دینے کا فیصلہ
  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری، پیٹرولیم لیوی مزید 10روپے تک بڑھانے پر غور
  • شاپنگ بیگز پر پابندی، سندھ ہائیکورٹ کا عبوری طور پر کام جاری رکھنے کی اجازت دینے سے انکار
  • آڈٹ رپورٹ ابتدائی مرحلے میں ہے، مکمل جانچ باقی ہے، پاور ڈویژن کا مؤقف
  • ماہانہ 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بُری خبر آگئی