مسلمانوں کے خلاف طاقت کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات افسوسناک ہیں، اسد الدین اویسی
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر نے اترپردیش کے بی جے پی کے ایک لیڈر کے تبصرہ کا بھی ذکر کیا، جس نے مشورہ دیا تھا کہ ہولی کے دوران خود کو بچانے کیلئے مسلم مردوں کو ترپال سے بنے حجاب پہننا چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے مسلمانوں کے خلاف طاقت کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت عزت اور وقار بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسد الدین اویسی نے یہ بات ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مہاراشٹر میں ایک مسجد پر حملہ اور مغربی بنگال میں بی جے پی کے لیڈر شوبھندو ادھیکاری کے ریمارکس پر کہی۔ قابل ذکر ہے کہ مغربی بنگال میں اپوزیشن لیڈر شوبھیندو ادھیکاری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر بنگال میں بی جے پی اقتدار میں آئی تو ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے مسلم اراکین اسمبلی کو مغربی بنگال اسمبلی سے باہر نکال کر سڑکوں پر پھینک دیا جائے گا۔
شوبھیندو ادھیکاری یہیں نہیں رکے، بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز باتیں کہتے رہے۔ اسد الدین اویسی نے اترپردیش کے بی جے پی کے ایک لیڈر کے تبصرہ کا بھی ذکر کیا، جس نے مشورہ دیا تھا کہ ہولی کے دوران خود کو بچانے کے لئے مسلم مردوں کو ترپال سے بنے حجاب پہننا چاہیئے۔ ہولی کے موقع پر جمعہ کو گھر پر ہی نماز ادا کرنے سے متعلق اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کے تبصرہ کا ذکر کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے آئین کے آرٹیکل-25 کا حوالہ دیا، جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ وہ مذہب کے بارے میں اترپردیش کے وزیراعلٰی سے نہیں بلکہ مذہبی رہنماؤں سے سیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیا مجھے ان سے مذہب کے بارے میں سیکھنا چاہیئے، یہاں مذہب کی آزادی ہے، ہم مسجد جائیں گے کیونکہ ہمیں مذہبی آزادی کا اختیار ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسد الدین اویسی نے اترپردیش کے بی جے پی
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔