دیرینہ امریکی اتحادی جنوبی کوریا دوراہے پر
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مبصرین کے مطابق ان تعلقات کے استحکام کے بارے میں خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے حکام نے شمالی کوریا کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں اور واشنگٹن اور جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچنے کے امکان کی روشنی میں سیئول کی جوہری ہتھیاروں کی ضرورت کو بارہا اٹھایا ہے۔ اس ساری صورتحال میں امریکی اتحادی ہونیکے باوجود کوریا اور امریکہ کے تعلقات غیر یقینی کا شکار ہیں۔ رپورٹ: خانم الھام موذنی
امریکہ کے ایشائی اتحادیوں کے ساتھ مشکوک رویے پر بات کرتے ہوئے بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک طرف امریکہ نے اپنے اتحادی جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں، وہیں امریکی محکمہ توانائی نے جنوبی کوریا کو "حساس ممالک" کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکا نے حال ہی میں جنوبی کوریا کو حساس ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
امریکی محکمہ توانائی نے رائٹرز کے سوالات کے تحریری جواب میں کہا کہ سابق صدر جو بائیڈن نے اپنی انتظامیہ کے خاتمے سے کچھ دیر قبل گزشتہ جنوری میں جنوبی کوریا کو حساس ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے رکھا تھا۔ محکمہ نے اس بارے میں کوئی وضاحت فراہم نہیں کی کہ ایشیائی اتحادی کو فہرست میں کیوں شامل کیا گیا اور نہ ہی یہ واضح کیا کہ آیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس فیصلے کو واپس لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر یون سیوک یول کے مواخذے، فوج کی مداخلت اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے کوریا میں داخلی طور پر شروع ہونیوالی بات چیت کے بعد امریکا نے ملک کو حساس ممالک کے زمرے میں ڈال رکھا ہے۔ امریکی محکمہ توانائی کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ سیئول سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعاون پر کوئی نئی رکاوٹیں نہیں ڈالے گا۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے ایک سفارتی ذریعے نے یونہاپ نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ سیول واشنگٹن کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت کر رہا ہے اور امریکیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ اس مسئلے کو 15 اپریل (اگلے سال کی 16 اپریل) سے نافذ ہونے سے پہلے منسوخ کر دیا جائے۔ 2017 میں امریکی محکمہ توانائی نے حساس ممالک کی فہرست میں چین، تائیوان، اسرائیل، روس، ایران اور شمالی کوریا کو شامل کیا تھا۔
امریکی محکمہ توانائی کے مطابق ان ممالک کو قومی سلامتی، جوہری عدم پھیلاؤ یا دہشت گردی کی حمایت سے متعلق الزامات کی وجہ سے فہرست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا، امریکہ اور جاپان نے گزشتہ ماہ کے آخر میں مشترکہ فضائی مشقیں کی ہیں، جن میں کم از کم ایک B-1B بمبار استعمال کیا گیا۔ یہ کارروائی شمالی کوریا کی جانب سے ہائپر سونک اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کے حالیہ تجربے کے بعد کی گئی۔
سیئول اور واشنگٹن کے درمیان قریبی اتحاد کے باوجود امریکا کی جانب سے جنوبی کوریا کو حساس ممالک کی فہرست میں شامل کرنے سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جنوبی کوریا اور امریکا نے حال ہی میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ چونکہ جنوبی کوریا اور امریکہ مختلف سیکورٹی اور اقتصادی شعبوں میں قریبی تعاون کرتے ہیں، اس لیے اس اقدام سے دونوں ممالک کے اتحاد پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ان تعلقات کے استحکام کے بارے میں خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے حکام نے شمالی کوریا کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں اور واشنگٹن اور جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچنے کے امکان کی روشنی میں سیئول کی جوہری ہتھیاروں کی ضرورت کو بارہا اٹھایا ہے۔ اس ساری صورتحال میں امریکی اتحادی ہونیکے باوجود کوریا اور امریکہ کے تعلقات غیر یقینی کا شکار ہیں، امریکہ کے تمام اتحادیوں کے لئے اعتبار اور اعتماد کی فضا مفقود ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حساس ممالک کی فہرست میں امریکی محکمہ توانائی جنوبی کوریا کو جنوبی کوریا کے کو حساس ممالک شمالی کوریا کوریا اور امریکہ کے کے مطابق کے ساتھ
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔