26نومبر احتجاج پر درج مقدمہ میں بشریٰ بی بی کی عبوری ضمانت میں توسیع
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چودھری عامر ضیا کی عدالت نے 26نومبر احتجاج پر درج مقدمہ میں بشری بی بی کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی۔گذشتہ رور ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کے دوران بشری بی بی کے وکلا انصرکیانی اور شمسہ کیانی ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے اور بشری بی بی کیجانب سے حاضری سے استثنی اور شامل تفتیش کرنے کی درخواست دائرکی گئی، انصرکیانی ایڈووکیٹ نے کہاکہ بشری بی بی شامل تفتیش ہونا چاہتی ہیں، تفتیشی کو ہدایت کی جائے کہ وہ بشری بی بی کو شامل تفتیش کریں، عدالت نے عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے سماعت 15 اپریل تک کیلئے ملتوی کردی۔بشری بی بی کیخلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی و دیگر دفعات کے تحت تھانہ رمنا میں مقدمہ درج ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بی بی کی
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔