پاک بھارت ترقی کا ایک جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق بھارت میں انتہائی غربت تقریباً ختم ہو گئی ہے صرف ایک فیصد بھارتی گھرانے عالمی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق بھارت میں انتہائی غربت کے خاتمے میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ بھارت کی انوکھی ترقی نے روایتی نظریات کو بھی چیلنج کردیا ہے ۔
جون2024اور جنوری 2025 میں جاری ہونے والے دو سروے نے حیران کن انکشافات کیے ہیں۔ سروے کے مطابق جولائی 2024ء تک بھارت میں صرف ایک فیصد گھرانے عالمی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں ۔ یہ تجزیہ آئی ایم ایف کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور نیویارک کی اسٹیٹ یونیورسٹی کے کرن بھاسن نے کیا ۔ قوت خرید کے لحاظ سے عالمی غربت کی لکیر 2.
جب کہ پاکستان میں اس وقت خط غربت سے نیچے افراد کی تعداد کم از کم 6کروڑ ہے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ جاری ہے کہنے کو تو حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ مہنگائی کی شرح بہت کم ہو گئی ہے ۔ دوسری جانب زمینی حقائق کو دیکھیں تو صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی کا سیلاب بلا خیز روز بروز بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔
ہر چیز چاہے وہ کھانے پینے کی ہو یا پہننے کی روز مرہ استعمال کی دیگر اشیاء ہوں، بجلی گیس پٹرول ہو یا ادویات ہر چیز عام آدمی کی پہنچ اور قوت خرید سے باہر ہے ۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔غربت اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ، تنخواہ دار دیہاڑی دار طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہے ۔ مہنگائی کی شرح کے تناسب سے دیکھاجائے تو اگر کسی گھرانے کی آمدن40ہزارروپے تھی تو موجودہ مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20ہزارروپے رہ گئی ہے ۔ اب آپ ایک چھ افراد پر مشتمل گھرانے کے اخراجات کی فہرست بنا کر دیکھیں تو آپ پریشان ہو جائیں گے کہ یہ سفید پوش افراد کس طرح گزارہ کر رہے ہیں ۔
اسی وجہ سے ہمارے ملک میں بہت بڑی تعداد میں لوگ ہائی بلڈ پریشر ، شوگر، گردے اور دل کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور دن بہ دن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس مہنگائی میں سب سے مظلوم طبقہ سفید پوش لوگوں کا ہے ۔ ان کے لیے اپنی عزت نفس اتنی عزیز ہے کہ وہ مرنا تو گوارہ کر سکتے ہیں لیکن کسی کے سامنے اپنا ہاتھ دراز نہیں کر سکتے ۔ بس دل ہی دل میں دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ یا بارالہ کہیں غیب سے ہماری مدد فرما ۔ خوشحال طبقات کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے رات کی تاریکی میں یا خاموشی سے ان کی ایسی مدد فرمائیں کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے ۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ لوگ جن کی ماہانہ آمدن 50سے 70ہزارروپے ہے اور وہ ماہانہ 20سے 25ہزارروپے گھر کا کرایہ ادا کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بقایا رقم میں بجلی ، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز بھی ادا کر رہے ہیں اور بچوں کے اسکول کالج یونیورسٹی کی فیس بھی ادا کر رہے ہیں ۔
گھر چلانے کے دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہوں ۔یہ تو قسطوں میں مرنے والی بات ہے ۔ اب اشیاء کے تازہ ترین نرخ بھی جان لیں مرغی فی کلو 800روپے یعنی صرف ایک کلو ، بڑا گوشت 11سے 1400روپے فی کلو اور مٹن 2500 روپے صرف ایک کلو ۔چاول درمیانہ 300روپے فی کلو۔ اندازہ کریں ۔ گھی اور تیل کی قیمت 600روپے فی کلو پر پہنچ گئی ہے رمضان کے مقدس مہینے میں ۔ اب عید قریب ہے جب منافع خوروں کی لوٹ مار اپنی انتہاء پر پہنچ جائے گی۔
آئی ایم ایف مشن جو پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے اس کو حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ رائٹ سائزنگ پلان کے تحت گریڈ 17 سے 22تک کی 700جب کہ نچلے درجے کی ہزاروں آسامیاں ختم کی جارہی ہیں۔
اعلیٰ حکام نے بتایا کہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی موجودگی میں سرکاری ملازمین کو فارغ نہیں کیا جا سکتا تھا۔جس میں اب ترمیم کی جارہی ہے ۔ اعلیٰ حکام نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ سرکاری مشینری کا سائز کم اور دس چھوٹے محکمے ضم کرنے سے بمشکل 17ارب روپے کی بچت ہو گی۔ بہرحال اصل معاملہ نچلے درجے کے ہزاروں ملازمین کو ملازمت سے نکالنا ہے ۔ جو ایک بڑے معاشی اور سماجی بحران کو جنم دے گا۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن بند کرنے کی خبر ایک ملازم کو ملی تو اس نے اس صدمے سے خودکشی کر لی ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر رہے ہیں صرف ایک فی کلو گئی ہے
پڑھیں:
’’چائناصنعتی و سپلائی چین’’ عالمی صنعتوں کے لیے راستے ہموار کر رہی ہے ، چینی میڈیا
بیجنگ:تیسری چائنا بین الاقوامی سپلائی چین ایکسپو ختم ہو گئی۔ اس سپلائی چین ایکسپو میں 1200 نمائش کنندگان نے شرکت کی۔ موقع پر تعاون کے 6000 سے زائد معاہدوں اور منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ نمائش کے موقع پر کثیر القومی کمپنیوں کے نمائندوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چین کی سپلائی چین ، ردِ عمل کی رفتار، لاگت کی افادیت، جدت کاری اور ترقی جیسے پہلوؤں میں شان دار برتری کی حامل ہے۔’’چائنا صنعتی و سپلائی چین ‘‘کے بغیر دنیا کا تصور محال ہے۔ یہ اعتماد اور ضرورت کہاں سے آتی ہے؟چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس اقوام متحدہ کی صنعتی درجہ بندی میں تمام صنعتی شعبے موجود ہیں۔ یہ نہ صرف کمپنیوں کو تیزی سے سپلائرز تلاش کرنے میں مدد کر سکتا ہے، بلکہ’’پیچیدہ ضروریات کو بھی پورا کر سکتا ہے‘‘۔ امریکی جنرل الیکٹرک میڈیکل کے نائب صدر چھن حہ چھیانگ کے مطابق، “ایک ہی آرڈر کے ردعمل میں دوسری جگہوں پر ایک سے دو ہفتے لگ سکتے ہیں، جبکہ یہاں صرف تین دن درکار ہوتے ہیں۔”ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ، چین کی سپلائی چین لاگت کا فائدہ بھی نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ متعدد غیر ملکی کمپنیوں کے ایگزیکٹوز نے چین میں قائم’’لائٹ ہاؤس فیکٹریز‘‘ کا تذکرہ کیا۔ جنوری 2025 تک، دنیا بھر میں 189 لائٹ ہاؤس فیکٹریز موجود تھیں، جن میں سے 79 (یعنیٰ 42 فیصد) چین میں واقع ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔چین نے کاروباری ماحول کی بہتری کے لئے سلسلہ وار اقدامات متعارف کرائے ہیں، خدمات کی ضمانت کو مضبوط کیا ہے اور متعلقہ سرگرمیوں کے عمل کو سادہ بنایا ہے، جس کی بدولت غیر ملکی کمپنیوں کو چین میں اپنی تیز رفتار ترقی کا اعتماد اور اطمینان ملا ہے۔ صرف یہی نہیں، موجودہ ذہین لہروں کے تناظر میں، “چینی تخلیق” نے غیر ملکی کمپنیوں کو جدید ترقی کے لئے ایک اہم ذریعہ مہیا کیا ہے۔درحقیقت ، صرف عالمی سپلائی چین کی مشترکہ کوششیں ہی سپلائی چین کی لچک کو حقیقی طور پر بڑھا سکتی ہیں۔ عالمی تجارتی اشیاء کی سب سے بڑی معیشت اور مینوفیکچرنگ طاقت کی حیثیت سے، چین بنیادی ڈھانچے کے باہمی روابط کو بڑھانے اور اعلیٰ سطح کے عالمی کھلے پن کو آگے بڑھانے کے اقدامات کر رہا ہے، جس سے عالمی سپلائی چین کے مستحکم تحفظ کے لئے قیمتی “معاونت” میسر آ رہی ہے۔
Post Views: 13