Express News:
2025-06-09@07:26:37 GMT

ہمیں مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

موجودہ دنیا میں مصنوعی ذہانت انسانوں کےلیے جہاں حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے وہاں ترقی پذیر ملکوں میں خوف و تجسس اور وسوسے بھی پھیلے ہوئے ہیں۔

عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ کیا ترقی پذیر ملکوں میں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے عوام تو متاثر نہیں ہوں گے؟ کیا اُن کے روزگار پر تو فرق نہیں پڑے گا؟ کیا انسانوں کی اہمیت ختم تو نہیں ہوجائے گی؟ کیا انسان کہیں اجنبیت اور تنہائی کا شکار تو نہیں ہوجائیں گے ؟ کیا لیبر فورس کی جگہ روبوٹ تو نہیں لے لیں گے؟ کیا مصنوعی ذہانت دنیا کے انجام کا باعث تو نہیں بنے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔

تیسری دنیا کے لوگوں کی یہ سوچ شروع ہی سے ہے۔ ہم ہر چیز کو اُس وقت اپناتے ہیں جب دنیا اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل کرچکی ہوتی ہے۔ ہم نے ترقی کے ہر عمل کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا اور اپنے ساتھ اپنی جیسی سوچ رکھنے والوں کو ملا کر اس کی مخالفت شروع کردی۔

معروف اداکار دلیپ کمار کی فلم ’’نیا دور‘‘ کی مثال یہاں فٹ آسکتی ہے کہ اُس علاقے کے لوگ سڑک بنانے کے مخالف تھے جبکہ دلیپ کمار اور ان کے ساتھ چند لوگ سڑک کو ترقی کا راستہ سمجھتے تھے اور آخر میں ہیرو کی جیت ہوئی اور سڑک بنا لی گئی۔ ہمارے ہاں بھی ایسا سوچنا، سمجھنا معمول ہے۔ 

مثال کے طور پر آج بھی لوگ موٹر وے کے مخالف ہیں۔ آج بھی لوگ سی پیک کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آج بھی لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آج بھی لوگ ترقی کے اُس راستے پر کانٹے بچھاتے ہیں جن کی وجہ سے عوام کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ جیسے پیپلز پارٹی کے پاک، ایران گیس لائن کے منصوبے کو سبوتاژ کیا گیا، گوادر میں ترقی کے عمل میں مسلسل روڑے اٹکائے جارہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ٹرمینیٹر میں بھی اچھے اور برے مصنوعی ذہن کے کیریکٹر دکھائی دیے، جس میں ایک کیریکٹر اچھائی اور دوسرا برائی کی طرف داری کرتا ہے۔ جب اس طرح کی فلمیں منظر عام پر آئیں تو یوٹوپیائی لگتی تھیں کہ کیا کبھی کوئی کار بغیر ڈرائیور کے چل سکتی ہے؟ کیا کوئی انسان کا تخلیق کیا ہوا روبوٹ، عام انسانوں کی طرح حرکات و سکنات کرسکتا ہے؟ کیا کوئی دوسرے سیارے کی مخلوق زمین پر انسانوں کے درمیان رہ سکتی ہے؟ کیا کبھی ڈرون کے ذریعے بھی حملے کیے جاسکتے ہیں؟ کیا کبھی مرد اور عورت کے ملاپ کے بغیر اُن کی نسل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟ کیا کبھی عورت اور مرد کسی تیسری عورت کی کوکھ سے اپنا بچہ پیدا کرسکتے ہیں؟ لیکن آپ موجودہ صدی میں ان تمام چیزوں کا بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ 
سائنس کی بدولت دنیا میں ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیے گئے ہیں کہ کم فہم اور کم ذہن رکھنے والے انسانوں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ڈاکٹر جیفری ہنٹن کو مصنوعی ذہانت کا بانی تصور کیا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ بھی مصنوعی ذہانت کے پھیلاؤ سے پریشان ہیں اور وہ اسے مستقبل کےلیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

مصنوعی ذہانت ہے کیا؟ مصنوعی ذہانت سے متعلق قیاس رائے کی جاتی ہے کہ انسانوں کا کام مصنوعی انسانوں سے کروایا جائے گا اور وہ زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوں گے۔ اس طرح انسانوں کی ضرورت کم ہوتی چلی جائے گی۔ یاد رہے کہ ایسا ہی پروپیگنڈہ کمپیوٹر کی آمد پر بھی کیا گیا تھا لیکن آپ دیکھیں کہ کیا کمپیوٹر خود کچھ کرسکتا ہے۔ اس کو چلانے اور اُس کو بنانے کےلیے بھی ایک انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔ موٹر سائیکل، گاڑی اور جہاز چلانے کےلیے بھی ایک انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔ گو کہ خودکار ٹرانسپورٹ متعارف ہوچکی ہیں لیکن اُن کو چلانے اور روکنے کےلیے بھی تو کسی انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔

ڈرایا جارہا ہے کہ کچن سے لے کر کھیتوں میں کام کرنے تک مصنوعی انسانوں سے کام لیا جائے گا۔ جیسے کراچی میں ایک مصنوعی ٹیچر جسے ’’اے آئی ٹیچر‘‘ کانام دیا گیا ہے، نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اس سے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارے مددگار تو ہوسکتے ہیں، ہمارے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔

اگر ہم اس کو مثبت انداز سے دیکھیں تو جہاں پر مصنوعی ذہانت سے انسان کام کریں گے وہاں پر کام کرنے والے انسان اُن سے مقابلے کی فضا کو قائم کر کے اپنی کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ خوش اخلاقی اور اپنے کام کو ایمانداری سے کرنے کی عادت پختہ ہوجائے گی۔ انسان ایک دوسرے کو احترام دیں گے اور اپنی اپنی سطح پر کام بہتر طریقے سے سر انجام دیں گے۔

ہمیشہ ہی دنیا میں ترقی کی نئی ایجادات سے ترقی کا عمل شروع ہوا ہے۔ جیسے پہلے کتابیں لکھنے کا کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا، پھر ٹائپ رائٹر آیا اور پھر ٹائپ رائٹر کا دور ختم ہوا تو اس کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی۔ اب دنیا میں اور ترقی ہوئی کہ آپ جو الفاظ اپنے منہ سے ادا کریں گے وہ الفاظ ٹائپ ہوجائیں گے اور پھر ان الفاظ کو آپ مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ ترقی کے اس عمل میں انسان کی توقیر کم نہیں ہوئی بلکہ جس قوم نے اس ٹیکنالوجی کو اپنایا وہ دنیا میں دیگر قوموں اور ملکوں سے آگے نکل گئی۔

آج ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ جو قومیں ٹیکنالوجی اور مہارتوں سے لیس ہوں گی وہی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں گی۔ اس لیے مصنوعی ذہانت سے خائف ہونے کے بجائے اور اس کو مسترد کرنے کے بجائے ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے، اس کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہنا چاہیے اور اسے اپنا کر ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔

ٹیکنالوجی کو اپنانے سے آپ دیکھیں کہ ہمارے ہاں کتنی چیزیں بہتر ہوئی ہیں، جیسے سیکیورٹی کے نظام میں جدت لانے سے اور سیکیورٹی کیمروں کی وجہ سے ملک کے ہر ادارے نے اپنی سیکیورٹی کے نظام کو بہتر بنایا ہے اور پوری دنیا کے ساتھ ہمارے ملک کا سیکیورٹی نظام بھی بہتر ہوا ہے اور یہ آج کے دور میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمارے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔ آپ دیکھیں کہ سی سی ٹی وی کیمرے اسکول، اسپتال، ریلوے اسٹیشن، ائیرپورٹ، مذہبی عبادت گاہوں اور گھروں تک کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اسی طرح موبائل فون بھی ہمارے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔ جس سے انسان اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بناتا جارہا ہے۔ دنیا کے بیشتر کاروبارِ زندگی موبائل فون سے جڑے ہوئے ہیں اور اب اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کو بھی مثبت معنوں میں لیں اور اس کو مسترد کرنے کے بجائے اس کو اپنائیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ ٹیکنالوجی کے منفی اثرات بھی معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں جیسے موبائل فون سے نوجوان نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ انٹرنیٹ پر نئی نسل غیر اخلاقی مواد دیکھنے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ ٹیکنالوجی کی بہت زیادہ دلچسپی سے نئی نسل کھیلوں اورکتابوں سے دور ہوگئی ہے۔

لیکن ان تمام عوامل کے باوجود ہمیں مصنوعی ذہانت کے مثبت پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے معاشرے میں قبول کرنا ہے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس سے خائف نہیں ہونا بلکہ یہ سوچتے ہوئے اسے قبول کرنا ہے کہ مصنوی ذہانت کو کنٹرول ایک انسان نے ہی کرنا ہے کیونکہ موجودہ دور میں اس کو اپنانے کے ساتھ ہی ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت سے کرسکتے ہیں ا ج بھی لوگ انسانوں کی ہمارے لیے کی ضرورت انسان کی دنیا میں کیا کبھی ترقی کے کے ساتھ تو نہیں دنیا کے رہے ہیں لیکن ا اور اس

پڑھیں:

آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟

جب دشمن یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈے سے سچ کو دبا لیں گے، تب قدرت خود سچ کو آواز بخشتی ہے۔

کچھ ایسا ہی ہوا جب بھارت نے ایک بار پھر بغیر ثبوت کے پاکستان پر حملے کا جواز گھڑا اور میزائلوں کی بارش کرنے کی کوشش کی۔ مگر یہ 1965 یا 1971 کا پاکستان نہیں تھا — یہ وہ پاکستان تھا جس نے نہ صرف دشمن کے طیارے مار گرائے، بلکہ دنیا کو اپنی دفاعی حکمتِ عملی سے حیران کر دیا۔

بھارت کی جنگی مہم جوئی کا آغاز پہلگام واقعہ سے ہوا، جسے بنیاد بنا کر وہ ایک اور فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے عالمی ہمدردی سمیٹنا چاہتا تھا۔ لیکن جب پاکستان نے بروقت اور کرارا جواب دیا تو بھارت کو اپنا چہرہ چھپانا مشکل ہو گیا۔

پاکستان کی جرات مندانہ کارروائیوں نے محض چند گھنٹوں میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، یہاں تک کہ دہلی کے ایوانوں میں گھٹن طاری ہو گئی۔

جب قومیں بکھرتی ہیں تو ایک لیڈر ابھرتا ہے۔ پاکستان کے فیلڈ مارشل نے مودی کو واضح پیغام دیا: ’کشمیر ہماری شہ رگ ہے، اور تمہاری شرارتوں کا ایسا جواب دیا جائے گا کہ تمہاری نسلیں یاد رکھیں گی‘۔ اس ایک جملے نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اعصاب ہلا دیے۔

جہاں بھارت کو صرف اسرائیل کی حمایت حاصل تھی، وہیں پاکستان کے ساتھ چین، ترکیہ، آذربائیجان، ایران، اور دیگر مسلم ممالک کھڑے دکھائی دیے۔

دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نہ صرف دفاعی طور پر طاقتور ہے بلکہ سفارتی میدان میں بھی متحرک اور مؤثر ہے۔ چین کے دفاعی تجزیہ کار نے بھارتی جنرل بخشی کو ’تاریخ پڑھنے‘ کا مشورہ دے کر دنیا کو یاد دلایا کہ حقیقت پراپیگنڈے سے بڑی ہوتی ہے۔

پاکستانی میڈیا نے جس طرح بھارتی گودی میڈیا کو آئینہ دکھایا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ارناب گوسوامی جیسے پروپیگنڈہ ماسٹرز کی زبانیں بند ہو گئیں، اور بھارتی عوام کو اپنی اصل حیثیت کا اندازہ ہونے لگا۔

سچائی ہمیشہ بولتی ہے، جب پاکستانی نوجوان دشمن کی گولی سے ڈرنے کے بجائے شہادت کو گلے لگانے کی بات کرے، تو وہ قوم ناقابلِ شکست بن جاتی ہے۔

آج جب پاکستان بیک وقت بھارت، اسرائیل، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور افغان سرزمین سے ہونے والی کارروائیوں سے نبرد آزما ہے، تب ہمیں 313 کی یاد آتی ہے۔ وہ 313 جو بدر میں تھے، جن کے ساتھ اللہ کی مدد تھی۔

آج بھی امت مسلمہ کو اسی جذبے، ایمان، اور قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم اگر متحد ہو جائے تو یہ وقت کا سپر پاور بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سوال نہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف لڑ کر دکھایا بلکہ دشمن کو مجبور کیا کہ وہ سیزفائر کی بھیک مانگے۔ جب نظریہ اور ایمان غالب آ جائے، تو ہتھیار پیچھے رہ جاتے ہیں۔

پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ ایک نہیں، بلکہ 13 سو دشمنوں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے پیچھے صرف فوج نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک قوم، اور ایک عقیدہ کھڑا ہے۔

آج کا پاکستان، کل کے پاکستان سے مختلف ہے۔ اب دشمن صرف سرحد پر حملہ نہیں کرتا، وہ ذہنوں، بیانیے اور معیشت پر بھی وار کرتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے: ’جب قومیں نظریے سے جُڑتی ہیں، تب ان کی طاقت کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی‘۔

پاکستان کو صرف ہتھیاروں سے نہیں، یقین، اتحاد، قربانی اور ایمان سے جیت حاصل کرنی ہے۔ اور یہی وہ روح ہے جس سے غزوۂ ہند کی خوشبو آتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چوہدری خالد عمر

انڈیا پاکستان طیارے

متعلقہ مضامین

  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہوکر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے: عمر ایوب
  • وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہو کر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے، عمر ایوب
  • ’بدقسمتی‘، خواجہ آصف کا غزہ سے متعلق مسلم دنیا کی خاموشی پر اظہار افسوس
  •   یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا، شہباز شریف کا عید پر قوم کے نام پیغام
  • ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ دوم)
  • آپ نے ہمیں ٹرین دی، اب ریاستی درجہ بھی واپس دیجیئے، عمر عبداللہ کا مودی سے مطالبہ
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
  • کراچی؛ عید پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، متعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ