اسرائیلی انتٰلیجنس کے برطرف سربراہ کی نتن یاہو کو بے نقاب کرنیکی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عبرانی میڈیا کے مطابق شاباک کے سابق سربراہ نداو ارگمان نے اسرائیلی چینل 12 ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بنجمن نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اس طرح سے برتاؤ کرتے رہے جو قانون کے خلاف ہے تو وہ ان کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اسے میڈیا پر ظاہر کریں گے۔ اسرائیلی حکومت کی شاباک انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ ناداو ارگمان نے بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے رونن بار کی برطرفی کے ردعمل میں میں یہ دھمکی دی ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی داخلی سلامتی سے متعلق ایجنسی شاباک کے سابق سربراہ نے دھمکی دی کہ اگر نیتن یاہو نے اپنی لاقانونیت جاری رکھی تو وہ اسے بڑے پیمانے پر بے نقاب کریں گے۔ عبرانی میڈیا کے مطابق شاباک کے سابق سربراہ نداو ارگمان نے اسرائیلی چینل 12 ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بنجمن نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اس طرح سے برتاؤ کرتے رہے جو قانون کے خلاف ہے تو وہ ان کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اسے میڈیا پر ظاہر کریں گے۔ اسرائیلی حکومت کی شاباک انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ ناداو ارگمان نے بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے رونن بار کی برطرفی کے ردعمل میں میں یہ دھمکی دی ہے۔
عبری میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو کے آغاز میں ارگمان نے میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا شاباک کے سربراہ رونن بار کو گھر بھیجنا چاہیے، رونن بار نے ذمہ داری قبول کی اور (ناکامی کی ذمہ داری قبول بھی کرنی چاہیے) گھر بھی جانا چاہیے، لیکن یہ تمام تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہونا چاہیے تھا، جس میں وزیراعظم کے دفتر کے حوالے سے جاری کیس بھی شامل ہے، انہیں کابینہ میں ردوبدل اور نیا شاباک چیف منتخب ہونے کے بعد گھر جانا چاہیے، میرا ماننا ہے کہ 7 اکتوبر کو ناکام ہونے والی اور ویسے بھی پر اسٹریٹجک پلان میں ناکام کابینہ شاباک کا نیا سربراہ مقرر کرنے کا حق نہیں رکھتی اور نہ ہی سربراہ کو برطرف کر سکتی ہے۔
مجھے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ کابینہ اور خود وزیراعظم کی جانب سے کی گئی تقرری پیشہ ورانہ نہیں بلکہ سیاسی تقرری ہوگی۔ آئیے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں، قانونی طور پر وزیراعظم اور کابینہ کو شاباک کا اگلا سربراہ مقرر کرنے کا حق ہے اور وہ اسے کسی بھی وقت برطرف کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہ آرمی چیف آف سٹاف کو برطرف کر دیا گیا اور جنگی وزیر کو بھی تبدیل کر دیا گیا،شاباک کے سربراہ کو کیوں نہ برطرف کیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ پبلک سیکیورٹی سروس کے پاس طاقت کی صلاحیت بہت وسیع ہے، اور موجودہ کابینہ، جو غیر جمہوری پولرائزیشن کی شکل ہے، ان صلاحیتوں کو اپنے خطرناک مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اسرائیلیوں کی جاسوسی کے لیے سروس کا سربراہ مقرر کر رہے ہیں، کسی کو بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس تنظیم کے پاس کتنی طاقت ہے اور اس کے پاس کتنے اوزار ہیں اور اگر کوئی ان آلات کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہے تو وہ اپنی طاقت اور تسلط اور اسرائیلی حکمرانی کے ڈھانچے میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ان کا کس حد تک غلط استعمال کر سکتا ہے۔ عبری چینل نے پوچھا کہ رونن بار نے شاباک کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں اعلان کیا کہ وہ اپنے نائبوں کے علاوہ کسی کو اپنی جگہ پر تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
لیکن شاباک نے ایک سرکاری بیان میں سربراہ کے عہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ شاباک کے سربراہ کی تقرری کئی سالوں سے ایک عام پریکٹس کے طور پر ہوئی ہے،کیا آپ کے خیال میں شاباک کے سربراہ کے لیے اس طرح کا مسئلہ اٹھانا درست تھا؟ انہوں نے کہا کہ یہ اس طرح نہیں کہا گیا تھا، رونن بار نے جو کہا وہ یہ تھا کہ عام طور پر شاباک ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے امیدواروں کا انتخاب سابقہ ڈپٹی ڈائریکٹرز میں سے ہوتا ہے اور یہ انتخاب وزیراعظم کرتے ہیں۔ عبری چینل نے پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایک دن میں ہزاروں لوگ ایک ہی وقت میں غزہ کی جانب موجود حفاظتی دیوار کی طرف بھاگتے ہیں، لیکن شاباک کو اس کا علم نہیں ہے، کیا غزہ میں کوئی ہماری مدد نہیں کر رہا؟۔
اس کے جواب میں شاباک عہدیدار نے کہا کہ نہیں، نہیں، میں نہیں جانتا کہ اس سوال کا جواب کیسے دیا جائے کہ یہ دعویٰ کہ شاباک کے پاس غزہ کی پٹی میں جاسوس نہیں تھے، بالکل بے بنیاد اور لغو ہے، شاباک کے پاس ایک یا دو نہیں بلکہ بہت سے جاسوس تھے، لیکن انہوں نے صحیح وقت پر معلومات فراہم نہیں کیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پاس درجنوں جاسوس ہیں۔ عبری چینل نے سوال کیا کہ کیا آپ کو سرنگوں کے بارے میں کوئی معلومات ہیں؟۔ انہوں نے بتایا کہ ہم سب کو سرنگوں کے بارے میں مکمل معلومات تھیں، کوئی کسی چیز کے پیچھے چھپ نہیں سکتا تھا۔
عبری چینل نے سوال اٹھایا کہ کابینہ ناکامی کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے باضابطہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے کی مخالفت کیوں کرتی ہے؟ جواب میں اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کے عہدیدار نے کہا کیونکہ سچائی تلاش کرنے والی کمیٹی کو ان معاملات کی چھان بین کرنی چاہیے جن کی وجہ سے 7 اکتوبر کو حماس نے آپریشن مکمل کیا۔ عبری چینل نے پوچھا کہ وضاحت کریں کہ شاباک نے اعلان کیا تھا کہ حماس کو آپریشن میں تکلیف دہ ضربیں لگیں، لیکن حماس تو اس جنگ کو اپنے لیے دو محاذوں پر قابو پانے کے لیے ایک واضح فتح ثابت کر رہی ہے۔
انہوں نے جواب میں کہا کہ نہیں، یہ متضاد باتیں نہیں ہیں، کیونکہ ایک طرف اسرائیل کو حماس کے ہتھیاروں کی تیاری کے ڈھانچے کو نشانہ بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور ان کے زیادہ تر ماہرین مارے گئے ہیں جبکہ یحییٰ سنوار کا نقطہ نظر اور احساس یہ تھا کہ یہ آپریشن بعد میں ہونے والی کارروائیوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے، جو کہ غلط ثابت ہوا ہے۔ عبری چینل نے پوچھا کہ مغویوں کے بارے ہم دوسرے مرحلے میں داخل کیوں نہیں ہوئے، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اب اپنی زندگیوں کو پیچیدہ کرنا بند کر دینا چاہیے کیونکہ ہم ایک طرف جنگ بندی میں ہیں اور دوسری طرف ہم نے حماس کو ایک ایسا دھچکا لگانا ہے جس کے بعد ممکن ہو سکے کہ ہمارے خلاف کوئی طاقت باقی نہ رہے۔
اسرائیلی انٹیلیجنس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمیں غزہ کی پٹی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہم فلاڈیلفیا میں ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس علاقے کے نیچے کوئی سرنگ نہیں ہے، اور ہم نے رفع کے ذریعے اسمگلنگ روکنے کی کارروائی مکمل کر لی ہے، میرے خیال میں اسرائیل کو جنگ ختم کرنی چاہیے، اس کا باضابطہ اعلان کرنا چاہیے، اور ہمیں مغربی کنارے میں یہودیہ اور سامریہ کے ماڈل کو نافذ کرنا چاہیے، یعنی میری نظر میں، صرف ٹیکنوکریٹس ہی یہ کام انجام دے سکتے ہیں، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے حکام اور بین الاقوامی شخصیات بھی حماس کی جگہ لینے میں مدد کریں گی۔
اینکر نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کچھ کم کہہ رہے ہیں جو آپ جانتے ہیں، آپ کو پورا سچ کہنے سے کیا روک رہا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ شاباک سیکیورٹی سروس کے سربراہ اور وزیر اعظم کے درمیان قریبی، خاص اور اہم تعلقات ہیں، اس لیے میں وزیراعظم کے ساتھ اپنے تعلقات کو خفیہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن انہی وجوہات کی بنا پر میں اس وقت ان رازوں کو ظاہر کرنے سے انکار کر رہا ہوں اور اگر میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ وزیراعظم نے قانون کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو میں ایسا کروں گا اگر میں دیکھتا ہوں کہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے تو میں وہ سب کچھ ظاہر کروں گا جو میں جانتا ہوں اور جو کچھ میں نے اب تک خفیہ رکھا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شاباک کے سربراہ انہوں نے کہا کہ کے سابق سربراہ دھمکی دی ہے کے بارے میں نیتن یاہو کہ شاباک جواب میں کی جانب نہیں ہے سروس کے تھا کہ کے لیے کے پاس ہے اور
پڑھیں:
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔