قانون سازی کے باوجود مضر فضلہ پاکستان میں لایا جارہا ہے، شیری رحمان
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ قانون سازی کے باوجود مضر فضلہ پاکستان میں لایا جا رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائےماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس سینیٹر شیری رحمان کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس سے خطاب میں شیری رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 2021 میں قانون سازی کے بعد مصر فضلہ کی پاکستان آمد نمایاں کم ہوئی ہے تاہم قانون سازی کے باوجود مضر فضلہ پاکستان میں لایا جا رہا ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان میں انفارمل سیکٹر بڑا ہونے کی وجہ سے ری سائیکلنگ کا تناسب کم ہے۔ مضر فضلہ کی روک تھام کے لیے صوبوں اور صوبائی چیف سیکرٹری سے رپورٹ لی جاتی ہے۔ صوبوں کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے بعد کہ فضلہ کام میں لانے کے لیے درآمد کیا جارہا ہے وفاقی حکومت این او سی جاری کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں 9 فیصد فضلہ ری سائیکل ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ تناسب ایک فیصد ہے۔ کاربن کے اخراج اور آلودگی پھیلانے والی سیمنٹ فیکٹری کو بند کروایا اور اس پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ صوبائی حکومتوں کے پلاننگ ڈپارٹمنٹ اور چیف سیکریٹریز کو بھی سبز معیشت پر آن بورڈ لیا جائے۔ سبز معیشت ایک امکان ہے اسے چیلنج نہ سمجھا جائے۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ میں صوبوں کی حمایت حاصل کرنا عوامی سپورٹ کے لیے ضروری ہے۔ اسٹیٹ بینک گرین ٹیکسونومی پر اراکین قومی اسمبلی اور کابینہ کو بریف کریں۔ گرین ٹیکسںو نومی کو کونسل آف کامن انٹرسٹ میں زیر غور لایا جایے گا۔
شیری رحمان نے کہا کہ سبز معیشت کے تصور کو ممکن بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے گا۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی معاونت حاصل کی جائے۔ صوبائی حکومتوں کے تمام اداروں اور صنعت و تجارت کو بھی کاربن میں کمی کے اقدامات پر جواب دہ ہونا ہوگا۔ عوامی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے لیے اگہی مہم چلائی جائے۔
شیری رحمن نے اسٹیٹ بینک میں منعقد اجلاس کے دوران پلاسٹک کی بوتلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ میں پلاسٹک کی بوتلوں کا بائیکاٹ کرتی ہوں۔ آئندہ کسی اجلاس میں پلاسٹک کی بوتلیں نہ رکھی جائیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک
گورنراسٹیٹ بینک جمیل احمد نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اسٹئٹ بینک گرین فنانسنگ میں مدد فراہم کرتا ہے۔ہم اسٹیک ہولڈرزسے اس حوالےسےمعلومات کاتبادلہ بھی کرتےہیں۔
ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک کی قائمہ کمیٹی ماحولیات کو بریفنگ
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللّہ نے گرین ٹیکسونومی کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی ماحولیات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سبز ٹیکسونومی ایک درجہ بندی کا نظام ہے جو یہ تعریف کرتا ہے کہ کون سی اقتصادی سرگرمیاں اور اثاثے "سبز" یا ماحولیاتی طور پر پائیدار ہیں۔ ٹیکسو نومیز کا مقصد سبز سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کو بڑھانا اور مالیاتی شعبے میں گرین واشنگ کا پتا لگانے کے ذریعے شفافیت کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمپنیاں، ریگولیٹرز اور مالیاتی مارکیٹ کے اداکار (سرمایہ کار، قرض دہندگان اور بیمہ کنندگان) سبز اقتصادی سرگرمیوں پر باخبر فیصلے کرنے کے لیے ٹیکسونومیز کا استعمال کرتے ہیں۔ گرین ٹیکسونومی کا مقصد کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہے۔ گرین ٹیکسونومی سفارشات میں انفرااسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانا بھی شامل ہے۔ گرین ٹیکسونومی کا مسودہ اپریل تک تیار کرلیا جائے گا ۔ 25 مارچ کو مشاورتی اجلاس ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گرین ٹیکسونومی قانون سازی کے پاکستان میں اسٹیٹ بینک مضر فضلہ کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان کی ایک اور کامیابی; 2 غیر ملکی بینکوں سے 1ارب ڈالر کے اہم مالیاتی سمجھوتے طے پاگئے
پاکستان اور دو غیر ملکی کمرشل بینکوں کے درمیان ایک ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے اہم مالیاتی سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ قرض سات اعشاریہ چھ فیصد شرح سود پر حاصل کیا جائے گا اور اس کی حتمی وصولی ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کی پچاس کروڑ ڈالر کی گارنٹی سے مشروط ہوگی۔ معاہدے کے تحت یہ پہلا غیر ملکی تجارتی قرض ہوگا جس پر پانچ سال کے لیے دستخط کیے جائیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے گارنٹی کی منظوری منیلا میں 28 مئی کو متوقع ہے، جس کے بعد قرضے کے اجرا کا باضابطہ عمل شروع کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق بینکوں کے ساتھ بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور گارنٹی کی منظوری کے بعد غیر ملکی بینک قرض کی رقم پاکستان کو منتقل کریں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ قرض وسط جون میں پاکستان کو جاری کر دیا جائے گا۔ حکام کے مطابق اس معاہدے سے رواں مالی سال کے اختتام سے قبل پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ فی الوقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی سطح پر ہیں، جبکہ حکومت کی کوشش ہے کہ جون کے آخر تک یہ ذخائر چودہ ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ قرض وقتی ریلیف تو فراہم کرے گا، لیکن اس کے پائیدار اثرات کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کو مزید استحکام دینے کے لیے بنیادی اصلاحات پر توجہ دی جائے۔