ترک صدر کی پارٹی کو شکست دینے والے استنبول کے میئر گرفتار؛ ہنگامے پھوٹ پڑے
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
استنبول کے میئر اکرم امام اعوغلو کی گرفتاری پر عوام ہر پابندی کو توڑتے ہوئے سٹرکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اکرم امام اعولو کو اُس وقت گرفتار کیا جب انھوں نے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔
سیکولر جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم امام اعولو ترک صدر رجب طیب اردوان کے سخت حریف ہیں۔
رپبلکن پیپلز پارٹی 23 مارچ کو اکرم امام اعولو کی صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کا اعلان کرنے والی تھی۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ استنبول کے میئر اکرم امام کو بدعنوانی اور دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
حکومت نے میئر اکرم امام کو صدارتی الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے ان کے ڈپلومہ کی ڈگری کو منسوخ کردیا۔
ڈگری منسوخ ہونے سے استنبول کے میئر اکرم امام کے صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
ادھر میئر کی گرفتاری کے بعد استنبول میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ترک صدر کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر میئر کی گرفتاری پر ترک صدر طیب اردوان پر تنقید کرنے والوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
جس کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف احتجاج کو سلسلہ شروع ہوگیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
شہریوں نے ایئرپورٹس، ٹرین اسٹیشن اور بڑی شاہراؤں پر مظاہرے کر رہے ہیں جس سے معمولات زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے۔
پولیس نے مختلف کارروائیوں میں 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ جن میں سیاست دان اور بعض حکومتی حکام بھی شامل ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: استنبول کے میئر میئر اکرم امام
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی