Express News:
2025-09-18@10:28:59 GMT

بلوچستان میں محکمہ زکوٰۃ کے خاتمے کا مثبت فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے محکمہ زکوٰۃ کی ناقص کارکردگی پر برہم ہو کر محکمہ زکوٰۃ کو ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی برہمی کی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت بلوچستان اپنے صوبے میں غریبوں میں زکوٰۃ تقسیم کرنے کے لیے تیس کروڑ روپے سالانہ فراہم کرتی ہے مگر یہ زکوٰۃ تقسیم کرنے والے محکمہ زکوٰۃ بلوچستان پر حکومت سالانہ ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔

محکمہ کے پاس 80 سرکاری گاڑیاں ہیں اور محکمے نے دو سال سے صوبے کے غریبوں کو زکوٰۃ تقسیم ہی نہیں کی۔ایک محاورہ ہے کہ ٹکے کی گڑیا اور ایک آنہ منڈوائی کا مگر بلوچستان میں اس محکمے کا حال یہ ہے کہ تیس کروڑ زکوٰۃ تقسیم کرنے والا محکمہ اپنے اوپر سالانہ ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے خرچ کرا کے بھی دو سال سے صوبے کے غریبوں میں زکوٰۃ تقسیم نہیں کر سکا ہے۔

یہ حال ملک کے سب سے زیادہ غریب صوبے کا ہے جس کے عوام کی غربت کے باعث حکومت صرف تیس کروڑ روپے مختص کرتی ہے مگر بلوچستان کا اس قدر نااہل محکمہ زکوٰۃ دو سال سے غریبوں میں تیس کروڑ روپے بھی تقسیم نہیں کر سکا اور حکومت نے دو سالوں میں اس بے کار محکمے پر تین ارب بیس کروڑ روپے خرچ کر دیے اور محکمے کے افسران 80 سرکاری گاڑیوں میں گھومتے اور غریب حصول زکوٰۃ سے بھی محروم رہ گئے۔

زکوٰۃ کی سرکاری تقسیم کا یہ معاملہ صرف بلوچستان صوبے کا نہیں بلکہ سندھ، پنجاب اور کے پی میں بھی اور جب سے حکومت نے زکوٰۃ سرکاری طور پر تقسیم کرانے کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا یہ تب سے ہی کرپشن کا شکار ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں زکوٰۃ کی سرکاری تقسیم شروع ہوئی تھی۔ جنرل ضیا خود نمازی پرہیزگار شخص تھے جو طویل عرصہ اقتدار میں رہے مگر ان پرکرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اور وہ غریبوں کا خیال بھی کرتے تھے اور غریبوں کی مدد کے لیے انھوں نے زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے زکوٰۃ کمیٹیاں بنوائی تھیں اور یہ زکوٰۃ کمیٹیاں لوگوں کے ووٹ سے منتخب کرائی جاتی تھیں۔

جنرل ضیا الحق مذہبی شخص تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ زکوٰۃ مذہبی معاملہ ہے جس کی پکڑ بہت سخت ہے اس لیے زکوٰۃ کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان غریبوں میں زکوٰۃ کی تقسیم حقیقی اور منصفانہ بنائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ زکوٰۃ کمیٹی والوں نے زکوٰۃ کی تقسیم کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ زکوٰۃ کمیٹیوں کے الیکشن ہی خون ریز بنا دیے گئے جہاں لڑائی جھگڑے بلکہ قتل تک کی متعدد وارداتیں ہوئیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس مذہبی معاملے سے کتنے مخلص تھے۔زکوٰۃ کمیٹی والوں نے مستحقین کی بجائے اپنے ملازموں اور جاننے والوں میں زکوٰۃ تقسیم کی اور مستحقین تک زکوٰۃ نہ پہنچی بلکہ غیر مستحقین نے زکوٰۃ کو بھی سرکاری مال سمجھ کر خوب خرد برد کی اور جنرل ضیا کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہوا تھا۔

زکوٰۃ شرعی طور پر حقیقی طور پر صرف غریبوں اور مستحقین کا حق ہے اور غریبوں کی مدد کے لیے ہی استطاعت رکھنے والوں پر فرض کی گئی ہے جو خوف خدا رکھنے والے افراد ہی اپنے مال کی زکوٰۃ شرعی طور پر نکالتے اور اپنی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں جس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر حکومت نے بینکوں کے ذریعے ہر سال لوگوں کے سیونگ اکاؤنٹس سے جبری طور پر زکوٰۃ کٹوتی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ زکوٰۃ اس رقم پر کٹنی چاہیے جو ایک سال تک بینک میں پڑی ہو۔ سیونگ اکاؤنٹ زیادہ تر تاجروں کے نہیں بلکہ عام لوگوں کے ہوتے ہیں جو بچت یا گھریلو ضرورت کے لیے وہ بینکوں میں جمع کراتے ہیں اور سیونگ اکاؤنٹ اب اسلامی بینکنگ میں بھی ہیں جہاں منافع فکس نہیں ہوتا اور کمی بیشی کے ساتھ ملتا ہے مگر حکومت نے اسلامی یا غیر اسلامی نفع کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور لوگوں کو دونوں طرح سے جو منافع ملتا ہے اس پر حکومت ہولڈنگ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔

بینکوں میں ہر سال زکوٰۃ غیر شرعی طور جبری طور کاٹی جا رہی ہے، یہ اگر سال پر جمع رہنے والی رقم پر کاٹی جائے تو جواز بنتا ہے مگر ایک ماہ جمع رہنے والی رقم پر بھی زکوٰۃ حکومت وصول کر لیتی ہے اور یہ زکوٰۃ جبری طور پر کاٹ کر حکومت جس طرح یہ تقسیم کرتی ہے وہی وجہ کرپشن ہے کہ بلوچستان میں تیس کروڑ روپے زکوٰۃ تقسیم کرنے والوں کو تنخواہ اور مراعات کی مد میں ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔دیگر صوبوں میں بھی یہی حال ہے تو غریبوں تک یہ زکوٰۃ پہنچتی ہی نہیں بلکہ خرد برد اور ضایع کرائی جا رہی ہے اور حکومت بدنام ضرور ہوتی ہے۔

ملک میں غریبوں کی مدد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام چل رہا ہے جس کے تحت ضرورت مندوں کی تعداد اور صرف ایک ہزار روپے تین ماہ بعد بڑھانے کا اعلان وزیر اعظم نے کیا ہے اور اس پروگرام کی جو تفصیلات گزشتہ سالوں میڈیا میں آئیں وہ نہایت شرم ناک تھیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے افسروں کی بیگمات اور عزیزوں نے جو کچھ کیا وہ ان بڑے افسروں کے لیے بھی ڈوب مرنے کا مقام تھا اور مزید مذاق حکومت نے کیا۔ جن افسروں کے گھر والوں نے غریب بن کر رقم وصول کی ان افسروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ ان افسروں کو کہا گیا کہ وہ وصول کی گئی رقم واپس کر دیں۔

غریبوں کا حق کھانے والے ان افسروں کو برطرف اور ان کی بیگمات کو اس شرم ناک جرم پر گرفتار ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے جبری طور پر ہر سال بینکوں کے ذریعے یہ زکوٰۃ کٹوتی اور تقسیم مذاق بنا رکھی ہے اور زکوٰۃ کی رقم ضایع ہو رہی ہے اور مستحقین تک نہیں پہنچ رہی تو اس کا کیا فائدہ۔ زکوٰۃ لوگ اپنی مرضی سے شرعی طور پر نکالتے ہیں تو یہ انھی کا حق ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ اپنی مرضی سے تقسیم بھی کریں اور وہ مستحق تک پہنچانا بھی انھی کی ذمے داری ہے حکومت کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زکو ۃ تقسیم کرنے تیس کروڑ روپے محکمہ زکو ۃ میں زکو ۃ جنرل ضیا حکومت نے زکو ۃ کی یہ زکو ۃ نے زکو ۃ کرتی ہے رہی ہے دو سال ہے مگر ہے اور

پڑھیں:

بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی

اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے شفافیت پر زور دیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین رحمت صالح بلوچ، غلام دستگیر بادینی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، زابد علی ریکی، صفیہ بی بی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل نورالحق، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جاوید رحیم، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف اچکزئی، ڈائریکٹر آڈٹ ثناء اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گرداری لعل، مجیب قمبرانی کمشنر رخشان ڈویژن، ڈی سی آواران عائشہ زہری، منیر سومرو ڈی سی خاران، عظیم جان ڈی سی کوہلو، عبداللہ کھوسہ ڈی سی بارکھان، محمد حسین ڈی سی نوشکی، بہرام سلیم ڈی سی مستونگ، جمیل احمد ڈی سی قلات، مہراللہ جمالدینی ڈی سی کوئٹہ، و دیگر ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز شریک ہوئے۔

اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17 میں نان ڈویلپمنٹ فنڈز کی مد میں 3,336.1 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 2,595.47 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ 740.6 ملین روپے کی بچت کو سرنڈر نہیں کیا گیا، جو کہ کمزور مالی نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح 2019-20 اور 2020-21 کے دوران بورڈ آف ریونیو کے مختلف دفاتر کی جانب سے 33.736 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جس کے باعث اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ممکن نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 اور 2021-22 میں مختلف ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 19,144.236 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جو قواعد و ضوابط کے منافی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 2019-21 کے دوران عشر، آبپاشی ٹیکس (ابانہ) اور زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 1,101.469 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ مزید انکشاف ہوا کہ 2019-22 کے دوران مختلف کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 228.964 ملین روپے کے اخراجات ڈی ڈی اوز کے نام پر چیک جاری کیے گئے، بجائے اس کے کہ ادائیگی براہ راست وینڈرز کو کی جاتی۔ یہ عمل بھی قواعد و ضوابط کے برخلاف قرار دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجٹ کی بچت بروقت سرنڈر کرنا لازمی ہے اور آئندہ ایسی غیر شفاف مالی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

اراکین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ریکارڈ فوری طور پر آڈٹ اور پی اے سی کو برائے تصدیق فراہم کیا جائے، غیر قانونی طور پر روکے گئے فنڈز کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کئی کیسز میں انکوائری کا حکم جاری کیا گیا۔ پی اے سی ممبرز نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2020 میں کیے گئے پی اے سی کے احکامات پر تاحال متعدد ڈپٹی کمشنرز نے عملدرآمد نہیں کئے۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر پرانے اور نئے کیسز پر دیئے گئے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تو مذکورہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ قواعد و ضوابط کے بغیر مالی نظم و نسق بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • بلوچستان کو 2021-22ء میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 11 ارب 15 کروڑ کم ملنے کا انکشاف
  • حکومت بلوچستان کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم، بحران کا خدشہ
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • بلوچستان میں محکمہ خوراک کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم
  • محکمہ خوراک کے پاس ذخیرہ ختم، بلوچستان میں گندم کا بحران شدت اختیار کر گیا
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • بلوچستان کے محکمہ ریونیو میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • خیبر پختونخوا، انسداد پولیو فنڈز کی تقسیم سے متعلق آڈٹ رپورٹ میںبے ضابطگیوں کا انکشاف
  • بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی