وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کلائمیٹ فنڈ پر مثبت بات چیت ہوئی، جلد ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کےلیے فنڈ کا نظام لائیں گے، موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لئے اہم مسئلہ ہے اسے حل نہ کیا تو معیشت کو نقصان ہوگا۔

وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے عالمی یوم گلیشئیر پر تقریب سے خطاب میں کہا کہ گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کا سامنا ہے، پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا کرنا ہوگا۔

وزیرخزانہ نے خطاب میں کہا کہ آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہمیں کلائمیٹ کے لیے نئے منصوبے لانے ہوں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ کلائمیٹ فنڈ پر مثبت بات چیت ہوئی، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کےلیے فنڈ کانظام لائیں گے، لاہور میں دھند کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے 2 ارب روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی منظوری

بعد ازاں، اسلام آباد میں وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ای سی سی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے 2 ارب روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ منظوری دی گئی۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ای سی سی کا اجلاس میں میڈیا ہاؤسز کے واجب الادا اشتہارات کی ادائیگی کے لیے فنڈز جاری کر دیے گئے۔

ای سی سی کے اجلاس میں وزارت دفاع کے لیے 430 ملین روپے کی گرانٹ کی بھی منظوری دی گئی جبکہ پنجاب میں ایس اے پی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص کیے گئے۔

اجلاس میں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر کے لیے 250 ملین روپے کی منظوری بھی شامل تھی۔

ای سی سی نے 1,000 بستروں پر مشتمل جدید طبی مرکز کے قیام کے لیے حکومتی سرمایہ کاری، اور اسٹیٹ بینک کے لانگ ٹرم فنانسنگ فیسلٹی کے مرحلہ وار خاتمے کا فیصلہ کیا۔

وفاقی وزیر خزانہ کی زیر صدارت اجلاس میں ایکسِم بینک کو 330 ارب روپے کا ایل ٹی ایف ایف پورٹ فولیو منتقل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا اورایک ارب روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کے احکامات پر آسٹریلوی کمپنی کو 24.

556 ملین روپے کی ادائیگی کی منظوری بھی دی گئی۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: محمد اورنگزیب اجلاس میں ارب روپے روپے کی کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی

اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے شفافیت پر زور دیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین رحمت صالح بلوچ، غلام دستگیر بادینی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، زابد علی ریکی، صفیہ بی بی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل نورالحق، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جاوید رحیم، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف اچکزئی، ڈائریکٹر آڈٹ ثناء اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گرداری لعل، مجیب قمبرانی کمشنر رخشان ڈویژن، ڈی سی آواران عائشہ زہری، منیر سومرو ڈی سی خاران، عظیم جان ڈی سی کوہلو، عبداللہ کھوسہ ڈی سی بارکھان، محمد حسین ڈی سی نوشکی، بہرام سلیم ڈی سی مستونگ، جمیل احمد ڈی سی قلات، مہراللہ جمالدینی ڈی سی کوئٹہ، و دیگر ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز شریک ہوئے۔

اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17 میں نان ڈویلپمنٹ فنڈز کی مد میں 3,336.1 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 2,595.47 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ 740.6 ملین روپے کی بچت کو سرنڈر نہیں کیا گیا، جو کہ کمزور مالی نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح 2019-20 اور 2020-21 کے دوران بورڈ آف ریونیو کے مختلف دفاتر کی جانب سے 33.736 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جس کے باعث اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ممکن نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 اور 2021-22 میں مختلف ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 19,144.236 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جو قواعد و ضوابط کے منافی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 2019-21 کے دوران عشر، آبپاشی ٹیکس (ابانہ) اور زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 1,101.469 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ مزید انکشاف ہوا کہ 2019-22 کے دوران مختلف کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 228.964 ملین روپے کے اخراجات ڈی ڈی اوز کے نام پر چیک جاری کیے گئے، بجائے اس کے کہ ادائیگی براہ راست وینڈرز کو کی جاتی۔ یہ عمل بھی قواعد و ضوابط کے برخلاف قرار دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجٹ کی بچت بروقت سرنڈر کرنا لازمی ہے اور آئندہ ایسی غیر شفاف مالی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

اراکین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ریکارڈ فوری طور پر آڈٹ اور پی اے سی کو برائے تصدیق فراہم کیا جائے، غیر قانونی طور پر روکے گئے فنڈز کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کئی کیسز میں انکوائری کا حکم جاری کیا گیا۔ پی اے سی ممبرز نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2020 میں کیے گئے پی اے سی کے احکامات پر تاحال متعدد ڈپٹی کمشنرز نے عملدرآمد نہیں کئے۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر پرانے اور نئے کیسز پر دیئے گئے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تو مذکورہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ قواعد و ضوابط کے بغیر مالی نظم و نسق بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سرکاری ملازمین کیلئے پنشن کا پرانا نظام بحال
  • آزاد کشمیر پولیس کے لیے اینٹی رائیٹ کٹس اور یونیفارم الاؤنس کی منظوری، کروڑوں روپے مختص
  • فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید
  • زائد پالیسی ریٹ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے،امان پراچہ
  • سپریم کورٹ: تہرے قتل کے مجرم اورنگزیب کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
  • بلوچستان کے محکمہ ریونیو میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب سے پولینڈ کے سفیر ملاقات کررہے ہیں
  • بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ
  • انسانیت کو جنگ و جدل سے بچانے کیلئے اللہ کی مرضی کا نظام قائم کرنا ہوگا، حافظ نعیم الرحمن