چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط ہفتم)
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
فلسطین کی قسمت پر تقسیم کی پہلی مہر لارڈ ولیم پیل کی سربراہی میں نومبر انیس سو چھتیس میں لندن سے یروشلم آنے والے چھ رکنی رائل کمیشن نے لگائی۔ یہ کمیشن پچھلے کئی برس سے لگی آگ بجھانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر کمیشن کی آمد کے آٹھ ماہ بعد سات جولائی انیس سو سینتالیس کو اس کی حتمی سفارشات سامنے آئیں تو آگ مزید بھڑک اٹھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو فلسطین کی جو عملداری امانتاً سونپی تھی اس کے مقاصد پورے نہ ہو سکے۔فریقین ( عرب اور یہودی) کے اختلافات ناقابلِ حل ہیں۔ایک مشترکہ ریاست میں دونوں کا پرامن طریقے سے رہنا مشکل ہو گا۔لہٰذا بہتر حل تقسیم ہے۔( دس برس بعد ہندوستان کی تقسیم کے لیے بھی برطانیہ نے یہی دلیل دی )۔
کمیشن نے سفارش کی کہ یروشلم کو بین الاقوامی انتظام میں رکھا جائے اور اس شہر تک رسائی کے لیے جافا کے ساحل تک گذرگاہ بنائی جائے۔باقی فلسطین کا ایک تہائی یہودی آبادکاروں کو الاٹ کر دیا جائے۔
( بظاہر اس تجویز کے تحت فلسطینیوں کو چھیاسٹھ فیصد علاقہ مل رہا تھا مگر بیشتر رقبہ بنجر تھا۔البتہ یہودیوں کے لیے وادیِ گلیلی سمیت جو علاقے تجویز کیے گئے وہ رقبے میں کم ہونے کے باوجود زرخیز تھے اور فلسطین کے مشہور سنگتروں کی بیاسی فیصد پیداوار اسی زرخیز رقبے سے حاصل ہوتی تھی )۔
پیل کمیشن کی سفارشات کے مطابق یہودی آبادکار ریاست خود مختار علاقہ ہو گی جب کہ فلسطینی ریاست کی ٹرانس اردن کے ساتھ کنفیڈریشن بنے گی۔جو علاقہ یہودیوں کو ملے گا اس میں آباد دو لاکھ پینتیس ہزار فلسطینیوں کو منتقل کرنا پڑے گا۔جب کہ فلسطینیوں کو الاٹ ہونے والے علاقے سے بارہ سو پچاس یہودی آبادکاروں کو نکلنا پڑے گا۔
اردن کے شاہ عبداللہ اور بااثر فلسطینی نشیشیبی خاندان کے سوا ان تجاویز کو سب نے مسترد کر دیا۔ منصوبے کے کٹر مخالف مفتیِ اعظم امین الحسینی تھے جن کی اردن کے بادشاہ اور اسٹیبلشمنٹ نواز نشیشیبی خاندان سے کبھی نہیں بنی۔اردن کے ساتھ مجوزہ کنفیڈریشن میں نشیشیبی خاندان کو اپنا سیاسی عروج اور الحسینی خاندان کو زوال نظر آ رہا تھا۔جب کہ شاہ عبداللہ کو اضافی علاقہ مل رہا تھا۔
ان تجاویز کے شایع ہونے کے دو ماہ بعد آٹھ ستمبر کو شام کے شہر بلودان میں پہلی بین العرب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فلسطینی مندوبین کے علاوہ لبنان ، شام ، اردن ، عراق ، کویت ، مصر ، تیونس ، الجزائر اور مراکش کے نمایندوں نے شرکت کی۔ اکثر نمایندوں کی حیثیت غیر سرکاری تھی۔عرب کانفرنس نے پیل کمیشن کی سفارشات کو جھٹکتے ہوئے ایسی متحدہ فلسطینی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا جس میں یہودی آبادکار ٹھوس دستوری ضمانتوں کے ساتھ مساوی شہری کے طور پر رہ سکیں۔
کانفرنس کے بعد فلسطینی تنظیموں کا بند کمرے کا اجلاس ہوا جس میں مزاحمتی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے تازہ حکمتِ عملی پر غور ہوا۔
پیل کمیشن کی سفارشات پر غور کے لیے بیس اگست انیس سو سینتیس کو منعقد ہونے والی بیسویں عالمی صیہونی کانفرنس نے برطانیہ کو یاد دلایا کہ بیس برس پہلے بالفور ڈیکلریشن کی شکل میں پورے فلسطین اور ٹرانس اردن پر مشتمل ایک یہودی قومی وطن کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب برطانیہ یہودیوں کو محض ایک چھوٹا سا علاقہ دے کر بہلانا چاہتا ہے۔
صیہونی کانفرنس کو اطمینان دلاتے ہوئے فلسطین کی جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے کہا کہ پیل کمیشن کی سفارشات مستقبل کی ریاست کی جانب پہلا قدم ہے۔بن گوریان اور خائم ویزمین نے بلاواسطہ انداز میں یقین دلایا کہ پیل کمیشن نے اپنی سفارشات میں ایک خود مختار ریاست کے لیے جو سرحدات متعین کی ہیں انھیں ’’ عارضی طور پر ‘‘ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مارچ انیس سو اڑتیس میں برطانوی حکومت نے فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین علاقائی حدبندی کی ذمے داری وڈ ہیڈ کمیشن کے سپرد کی۔مگر اس کمیشن نے پیل کمیشن کی سفارشات کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔کیونکہ پیل منصوبے کے تحت قائم ہونے والی فلسطینی ریاست معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔اس کے علاوہ آبادی کی بڑے پیمانے پر جبری منتقلی خون خرابے کے بغیر ممکن نہ تھی۔
برطانوی حکومت نے بالآخر پیل کمیشن کے پارٹیشن منصوبے کو اس خدشے کے پیشِ نظر سردخانے میں ڈال دیا کہ ایسے وقت جب کہ ہٹلر کی وجہ سے یورپ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں عرب دنیا کی دشمنی مول لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
مگر تب تک تیر بدزنی کی کمان سے نکل چکا تھا۔فلسطینیوں کا اپنے مستقبل کے بارے میں برطانیہ پر رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہا۔جب کہ صیہونیوں کو برطانیہ اس لیے برا لگنے لگا کہ ان کے خیال میں برطانیہ اپنے علاقائی مفادات کی قیمت پر کبھی بھی وہ یہودی ریاست نہیں دے گا جس کا بالفور ڈیکلریشن میں وعدہ تھا۔
نوآبادیاتی انتظامیہ بھی بھانپ چکی تھی کہ دوغلی پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔چنانچہ ممکنہ تشدد پر قابو پانے کے لیے بطور حفطِ ماتقدم نوآبادیاتی انتظامی قوانین کو سختی سے لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
چھبیس ستمبر کو تشدد کی تازہ لہر اٹھی جب مسلح فلسطینیوں نے ضلع گلیلی کے یہود نواز کمشنر لوئس اینڈریو کو قتل کر دیا۔اس واقعہ کے بعد برطانوی انتظامیہ نے حاجی امین الحسینی سے مفتیِ اعظم کا خطاب اور بیت المقدس وقف کمیٹی کی رکینت چھین لی۔سیاسی جماعتوں کے اتحاد عرب ہائر کمیٹی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔گرفتاری سے بچنے کے لیے امین الحسینی اور ان کے بڑے بھائی جمال الحسینی علی الترتیب شام اور لبنان فرار ہو گئے۔جب کہ عرب ہائر کمیٹی کے پانچ دیگر رہنماؤں کو ملک بدر کر کے بحرِ ہند کے جزیرے سیشلز پہنچا دیا گیا۔
فلسطین کی سرحدیں بند کر دی گئیں۔بین الاقوامی ٹیلی فون رابطے منقطع ہو گئے۔میڈیا سنسرشپ لاگو ہو گئی اور ایکر کے ضلع میں ایک نیا نظربندی کیمپ کھول دیا گیا۔فوجی عدالتیں قائم ہو گئیں۔مصر سے اضافی برطانوی فوجی کمک منگوائی گئی۔پولیس کا کنٹرول فوجی کمانڈروں کے حوالے کر دیا گیا۔
شہروں پر تو کسی نہ کسی طور بظاہر قابو پالیا گیا البتہ دیہی علاقوں کو لگام دینا خاصا مشکل ثابت ہوا۔دیہات کنٹرول کرنے کے لیے کیا کیا انتہائی متشدد حربے استعمال ہوئے۔ان کی تفصیلات اگلے مضمون میں۔
(جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطین کی دیا گیا اردن کے یہودی ا کر دیا کے لیے
پڑھیں:
ریاست نئے مالیاتی معاہدے کی کھوج میں
وطن عزیز میں نئے صوبے قائم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ازسرنو طے کیا جائے جس کے ذریعے وفاق اور صوبے آپس میں وسائل وآمدن کی تقسیم کرتے ہیں۔ ایسا پہلا ایوارڈ 1951 ء میں آیا تھا۔ اب تک سات ایوارڈ بنائے جا چکے۔آخری ایوارڈ پندرہ سال قبل 2010ء میں بنا تھا۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے آٹھواں ایوارڈ بنانے کے لیے گیارہواں قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا ہے۔
یہ خوش آئند علامت ہے کہ اس کمیشن کا قیام عمل میں آ چکا ۔ اُمید ہے کہ یہ پندرہ سال بعد باہمی اتفاق رائے سے آٹھواں ایوارڈ پیش کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اس کو موجودہ اقتصادی بحران، پسماندہ علاقوں کی محرومی ،جی ڈی پی اور آبادی کے تناسب جیسے نئے عوامل زیادہ معقول انداز میں مدنظر رکھتے تشکیل دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے قابل تقسیم آمدن میں سے صوبوں کا حصہ کم از کم 10 فیصد کم کرنے کی تجویز دی ہے کیونکہ وہ مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے لیے فنڈز مختص کرنے پر غور کر رہی ہے جو اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
وفاق خوش نہیں
وفاق جو صوبوں کو آمدن دے کر تقریباً خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، اب چاہتا ہے کہ وفاقی ٹیکسوں کو تعلیم، صحت، آبادی کے نظم و نسق اور ماحولیاتی اشاریوں میں بہتری سے مشروط کیا جائے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وفاق میں قائم مخلوط حکومت اپنے ہی سیاسی اتحادیوں کو جو تین صوبوں میں اقتدار میں ہیں،اس ضمن میں کس حد تک قائل کر پائے گی۔
قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ طویل عرصے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازع کا باعث رہا ہے کیونکہ وفاق موجودہ وسائل کی تقسیم کے فارمولے سے خوش نہیں۔ وفاقی قابل تقسیم محاصل کا 57.5 فیصد حصہ صوبوں کو دیا جاتا ہے جبکہ وفاق بدستور قرضوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔
امید ہے، نیا کمیشن امدادی گرانٹس کے سلسلے میںمفید تجاویز دے گا ۔نیز وفاقی و صوبائی حکومتوں کی قرض لینے کی صلاحیت کا بھی ازسرنو جائزہ لے گا۔ ریاست پاکستان جو بڑھتے قرضوں اور آبادی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے،اس کو اب ایک نئے مالیاتی معاہدے کی ضرورت ہے۔کمیشن کو چاہیے کہ وہ اصلاحات اور مردم شماری کو غیر سیاسی بنانے اور کارکردگی پر مبنی وسائل کی تقسیم کی طرف پیش رفت کرے۔وہ مجموعی قومی پیداوار (GNP) اور ٹیکس وصولی کو بنیاد بنائے نہ کہ صرف آبادی کو۔
آخر میں یہ کہ اگر قومی مالیاتی کمیشن غیر سیاسی ماہرینِ معیشت، ماہرینِ قانون اور باوقار بیوروکریٹس پر مشتمل ہو، تو یہ غربت اور زوال کی کھائی سے معاشرے کو نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔بہرحال وفاقی خسارے کا رجحان تشویشناک ہی نہیں بلکہ ناقابلِ برداشت ہے۔اس لیے اب صوبوں کو بھی قرض اور دفاع میں اپنا منصفانہ حصہ ڈالنا ہوگا۔
پاکستان پہ چڑھا قرض
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا عوامی قرضہ مجموعی قومی پیداوار کے 71 فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو مالیاتی ذمے داری اور قرضہ حد بندی ایکٹ (FRDLA) کے تحت مقررہ 60 فیصد کی قانونی حد سے تجاوز کر چکا ۔ یہ بات وزارتِ خزانہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو بتائی۔
رپورٹ کے مطابق سید نوید قمر کی زیرِ صدارت اجلاس میں بتایا گیا کہ مجموعی عوامی قرضہ تقریباً 80.5 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے، جو گزشتہ ایک دہائی میں’’ قرضہ بالموازنہ جی ڈی پی تناسب‘‘ میں 10 فیصد سے زائد اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔
حکام کے مطابق مالی سال 2025 ء کے اختتام تک مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 70.8 فیصد کے برابر ہو گیا جو 2016 ء میں 60.1 فیصد تھا۔ بتایا گیا کہ بیرونی قرضہ جو 2016 ء میں 6 ہزار کھرب روپیتھا ، اب بڑھ کر 2025 ء میں 26 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ ملکی قرضہ اسی عرصے میں 13.6 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 54.5 ہزار ارب روپے ہو گیا۔
مالی سال 2025 ء میں قرضوں کی ادائیگی پر خالص وفاقی محصولات کا 89 فیصد خرچ ہو چکا جس کے بعد دیگر تمام وفاقی اخراجات بشمول دفاع، پنشن، ترقیاتی منصوبے اور سبسڈیز کے لیے صرف 11 فیصد باقی بچتا ہے۔
ماہرینِ معاشیات نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو 2035 ء تک پاکستان کا قرضہ بالموازنہ جی ڈی پی تناسب 85 فیصد تک پہنچ سکتا ہے، جو FRDLA کی مقررہ حد سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ جاپان کا قرضہ تناسب تقریباً 200 فیصد ہے، لیکن پاکستان زیادہ مالیاتی دباؤ میں ہے کیونکہ اس کی محصولات کی بنیاد محدود ہے اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
گہرے ہوتے مالی خطرات
کمیٹی کے سامنے ‘‘پاکستان کا عوامی قرضہ: حرکیات، چیلنج اور ہم آہنگ اصلاحات کی ضرورت’’ کے عنوان سے ایک پالیسی دستاویز بھی پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ غیر پائیدار قرض لینے کے طریقے اور کمزور ادارہ جاتی ہم آہنگی مالی خطرات کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں ‘‘مالیاتی غلبے کے ایک تباہ کن چکر’’ (a vicious cycle of fiscal dominance ) کی نشاندہی کی گئی جس میں حکومت کے وسیع پیمانے پر قرض لینے سے نجی شعبے کو قرض کی فراہمی محدود ہو جاتی ہے، مرکزی بینک کو لیکویڈیٹی (نقدی کی دستیابی) بڑھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بینکوں کو سرکاری بانڈز پر بلند منافع حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ رپورٹ نے خبردار کیا کہ اس عمل سے مالیاتی پالیسی کا مؤثر پن کمزور ہوتا، مہنگائی برقرار رہتی اور سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
ماہرین نے تجویز دی کہ پاکستان کو ایک ہم آہنگ مالیاتی اور زری (monetary) حکمتِ عملی اپنانی چاہیے جو معتبر اداروں اور شفاف اصولوں کی بنیاد پر ہو۔ انہوں نے سفارش کی کہ وزارتِ خزانہ کے اندر ایک ماڈل پر مبنی نظام (in-house, model-based framework ) قائم کیا جائے، جو شرحِ سود اور یِیلڈ کَرو (yield curve) کی پیش گوئی کر سکے۔ ساتھ ہی باقاعدگی سے قرض کی پائیداری کے تجزیے (debt-sustainability assessments) اور ہنگامی منصوبے ( plans contingency) شائع کیے جائیں تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو جائے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر حکومت 1.5 فیصد کا پرائمری سرپلس ( surplus primary ) برقرار رکھے اور سالانہ مجموعی قومی پیداوار ( GDP nominal) میں تقریباً 5 فیصد اضافہ حاصل کرے، تو قرض کی پائیداری بحال کی جا سکتی ہے۔ متبادل طور پر اگر مجموعی قومی پیداوار کی شرحِ نمو کم از کم شرحِ سود سے تین فیصد زیادہ رہے، تو مالی سال 2035 ء تک قرضہ بالموازنہ جی ڈی پی تناسب بتدریج 60 فیصد سے کم ہو سکتا ہے ۔ لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وزارتِ خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پارلیمنٹ کے درمیان مضبوط ہم آہنگی قائم ہو۔
کمیٹی کے ارکان نے ملک کی قرض منیجمنٹ حکمتِ عملی، بیرونی قرضوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کردار سے متعلق سوالات اٹھائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ طویل المدتی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ مالیاتی نظم و ضبط مضبوط کیا جا سکے، غیر بینک ذرائع سے مالی اعانت میں وسعت پیدا کی جا ئے اور کم شرحِ سود والے طویل مدتی قرضوں کی طرف منتقلی ہو سکے۔
زیادہ منصفانہ انتظام
ماہرین معاشیات یہ بھی کہتے ہیں کہ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا موجودہ ڈھانچا توڑنے کے بجائے اسے برقرار رکھتے ہوئے ایک زیادہ منصفانہ انتظام متعارف کرایا جائے… ایسا نظام جس میں صوبے بھی قومی قرض کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے مالیاتی خرچ میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
ساتویںقومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ نے صوبوں کا حصہ تقسیم شدہ محاصل (divisible pool ) میں 47.5 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا تھا۔مگر اس کا افقی فارمولا جو 82 فیصد آبادی کی بنیاد پر، 10.3 فیصد غربت اور پسماندگی پر، 5 فیصد محاصل کی پیداوار پر اور 2.7 فیصد آبادی کی معکوس کثافت پر مبنی ہے، وقت کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھاری بھرکم مجموعی خسارے’’44 ہزار ارب روپے‘‘ (2010 ء سے 2024 ء تک ) میں دھکیل چکا ۔اگر یہ رجحان نہ روکا گیا تو خسارہ 2035 ء تک بڑھ کر تقریباً ’’200 ہزار ارب روپے‘‘ تک جا سکتا ہے۔
خطرے کی گھنٹی
وفاقی خسارے کا یہ رجحان صرف پریشان کن نہیں ناقابلِ برداشت ہے۔ وجہ یہ کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سراسر غیر پائیدار ہے۔
وفاقی بجٹ برائے 2025-26 ء میں ایف بی آر کے ٹیکس محاصل 14 ہزار ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن 5 ہزار ارب روپے متوقع ہیں ۔ اس طرح کل وفاقی آمدن 19 ہزار ارب روپے ہوگی۔
اس رقم میں سے 8 ہزار ارب روپے صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت منتقل کرنے لازمی ہیں۔جبکہ 8.2 ہزار ارب روپے صرف سود کی ادائیگی کے لیے مختص ہیں۔ گرانٹس اور سبسڈیز نکالنے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس مؤثر طور پر کچھ بھی نہیں بچتا۔
خزانہ خالی ہو جانے کا نتیجہ ہے، وفاقی حکومت کو اپنے اخراجات کی خاطر قرض لینا پڑتا ہے جن میں نمایاں یہ ہیں: دفاعی امور (2.5 ہزار ارب روپے)، پنشن (1 ہزار ارب روپے)، ترقیاتی اخراجات (1.3 ہزار ارب روپے)، سول حکومت کے انتظامی امور (971 ارب روپے) اور ہنگامی صورتحال کے لیے مختص فنڈ (389 ارب روپے)
درج بالا حساب کتاب صاف ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا انتظام مالی طور پر ناقابلِ برداشت ہے۔
مالیاتی دباؤ کی جڑ
وفاقی حکومت جس مالیاتی دباؤ کا شکار ہے، اس کی جڑ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات میں موجود ہے۔
۔نکتہ نمبر 1: قرضوں کی ادائیگی اور دفاع وفاقی حکومت کی عیاشی نہیں ہے۔
۔نکتہ نمبر 2: سود کی ادائیگی کے لیے مختص 8.2 ہزار ارب روپے دراصل وہ قرض ہیں جو پاکستان کے تمام چاروں صوبوں اور ریاست کے لیے اور ان پر خرچ کیے گئے۔وہ صرف اسلام آباد کے لیے مختص نہ تھے۔
۔نکتہ نمبر 3: دفاعی امور کے لیے مختص 2.5 ہزار ارب روپے پاکستان کے 8,81,913 مربع کلومیٹر کے رقبے کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر خرچ ہوں گے۔ان کا تعلق صرف اسلام آباد کے 906 مربع کلومیٹر رقبے سے نہیں۔
پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک زیادہ سادہ اور عملی راستہ واضح ہے… صوبوں کو بھی قومی قرض اور دفاع کے اخراجات میں اپنا منصفانہ حصہ ڈالنا ہوگا، بالکل اسی تناسب سے جس کے ذریعے وہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ فارمولے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس بندوبست کو ’’تناسبی شراکت ماڈل‘‘ (Proportional Sharing model)کہا جا سکتا ہے۔
درج بالا ماڈل کے تحت قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کو قومی سطح پر اولیّں ترجیح (first charge) سمجھا جائے … یعنی ان اخراجات کو کل وسائل میں سے کاٹ کر باقی رقم تقسیم شدہ محاصل میں ڈالی جائے۔ اس طریق کار کے تحت وفاقی حکومت قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کا 42.5 فیصد بوجھ اٹھائے گی جبکہ صوبے اجتماعی طور پر 57.5 فیصد برداشت کریں گے۔
وسائل کا بقیہ صوبائی حصہ پھر موجودہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ فارمولے کے مطابق یوں تقسیم ہوگا:
٭ پنجاب: 51.74%
٭ سندھ: 24.55%
٭ خیبر پختونخوا: 14.62%
٭ بلوچستان: 9.09%
مثبت دلائل
حقائق سے آشکارا ہے، تناسبی شراکت ماڈل کے تحت صوبوں کا خالص حصہ مثبت ہی رہے گا جس سے وہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں گے۔
۔…یہ کسی صوبے کو سزا دینے کا معاملہ نہیں، یہ انصاف کا معاملہ ہے۔
۔…یہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ فارمولا برقرار رکھنے کا گر ہے۔
۔…یہ اٹھارہویں ترمیم سے حاصل کردہ ثمرات کو محفوظ رکھنے کی بات ہے۔
۔…یہ نئے صوبوں کی سرحدیں یا نیا فارمولے دوبارہ بنانے کے انتشار سے بچنے کا راستہ ہے۔
۔…یہ قومی مالیاتی نظم و ضبط کو لاگو کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کا نسخہ ہے۔
۔…یہ مالیات کو سیاسی تماشا بنائے بغیر مستحکم کرنے کی بات ہے۔
۔…یہ بوجھ بانٹنے کی بات ہے نہ کہ پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی!
صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت 11ویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں قائم اس نو رکنی کمیشن میں صوبائی وزرائے خزانہ اور ہر صوبے سے ایک ماہر شامل ہے۔ یہ یاد رہے، تاریخی نوعیت کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد تین کمیشن … آٹھواں (2015ء )، نواں (2016ء) اور دسواں (2019ء ) تشکیل دیے گئے لیکن کوئی بھی نیا اتفاق رائے قائم نہ کر سکا اور پرانا فارمولہ ازخود نافذ العمل رہا۔
ہر بار وفاق نے قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور سبسڈیز کے لیے زیادہ حصہ مانگا جب کہ صوبوں نے مزاحمت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ 18ویں ترمیم کے بعد انہیں صحت، تعلیم اور مقامی ترقی کے لیے زیادہ فنڈز درکار ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی، وزرائے خزانہ کی بار بار تبدیلی اور جی ڈی پی کے مقابلے میں تقریباً 11 فیصد کی مستقل کم شرحِ ٹیکس وصولی نے بھی پیش رفت کو روکے رکھا۔
جمود توڑنے کی کوشش
فارمولے میں ڈھانچہ جاتی خامیاں یعنی کارکردگی کے بجائے آبادی کے حجم اور غربت کو مدنظر رکھنا اصلاحات کی حوصلہ شکنی کرتی رہیں۔ نتیجتاً پچھلے 15 برسوں سے کوئی نیا ایوارڈ طے نہیں ہو سکا۔ 11واں کمیشن اسی جمود کو توڑنے کی ایک اور کوشش ہے۔ کاغذ پر یہ ایک معمول کی آئینی مشق دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں 11واں قومی مالیاتی کمیشن پاکستان میں آج کے سب سے متنازع سیاسی مباحثوں میں سے ایک کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
2010 ء میں منظور ہونے والا ساتواں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ اْس وقت ایک "تاریخی کامیابی" قرار دیا گیا تھا۔ اس نے وسائل کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر کرنے کی پرانی روایت توڑ دی، ایک کثیر الجہتی فارمولا متعارف کرایا اور سب سے بڑھ کر صوبوں کے حصے میں وفاقی ٹیکس آمدن کا 10 فیصد اضافی حصہ شامل کیا۔ وفاق کے لیے یہ ایک بڑی رعایت دینا تھی جب کہ صوبوں کے لیے یہ ایک دیرینہ کامیابی تھی۔
تقسیمِ وسائل میں عمودی حصے کے مطابق صوبوں کو 57.5 فیصد اور وفاق کو 42.5 فیصد دیا گیا۔ افقی تقسیم میں فارمولا درج بالا بیان ہو چکا۔لیکن جو کبھی کامیابی سمجھی گئی تھی، اب اسے بڑھتی ہوئی حد تک ڈھانچہ جاتی طور پر ناقص مانا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت شدید مالی دباؤ کا شکار ہے اور قرضوں کی واپسی، دفاعی ضروریات نیز ترقیاتی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو چکی۔ ناقدین کا کہنا ہے، اگرچہ صوبوں کا حصہ بڑھ گیا لیکن ان کی ذمے داریاں نہیں بڑھیں۔ اسلام آباد تو وسائل بڑھانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے جب کہ صوبائی حکومتیں اپنے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی سنجیدہ کوششیں کیے بغیر وفاقی منتقلیوں پر انحصار کرتی چلی آ رہی ہیں۔
سیاسی چیلنج بھی اتنا ہی کٹھن ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اصرار ہے ، صوبوں کو فنڈز سے محروم نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب 18ویں ترمیم کے بعد انہیں زیادہ ذمے داریاں سونپی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی قیادت کا مؤقف ہے کہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبے کو اضافی وسائل ملنے چاہیں، جو ان کے مطابق نہیں دیے گئے۔ چونکہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں صوبائی حکومتیں چلا رہی ہیں، اس لیے یہ توقع کہ وہ اپنے حصے سے ازخود دستبردار ہو جائیں گی، غیر حقیقت پسندانہ معلوم ہوتی ہے۔
فارمولے کی خامیاں
تاہم اگر اہل پاکستان اصلاحات لانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو آبادی پر مبنی فارمولا لازمی طور پر بدلنا ہوگا۔ جیسا کہ بتایا گیا، موجودہ فارمولے میں 82 فیصد وزن آبادی کو دیا گیا ہے۔ یہ اشاریہ صوبائی حکومتوں کو آبادی پر قابو پانے کی کون سی ترغیب دیتا ہے؟ منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال بجا طور پر کہتے ہیں کہ صوبے آبادی پر قابو پانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ زیادہ آبادی کا مطلب زیادہ مالی حصہ ملنا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ خیبر پختونخوا کی حکومت اس سوچ کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے وزیر خزانہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آبادی اور پسماندگی ،فارمولے سے ان دونوں اشاریوںکا وزن ختم کر دینا چاہیے۔
عملی طور پر صوبوں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کا ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب تقریباً 11 فیصد پر جمود کا شکار ہے، جو خطے کے دیگر ممالک سے کہیں کم ہے۔ صوبے بمشکل جی ڈی پی کا 1 فیصد سے بھی کم ٹیکس جمع کرتے ہیں جب کہ ایف بی آر 10 فیصد سے زائد اکٹھا کرتا ہے۔ ساتویں ایوارڈ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ 2015ء تک ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب 15 فیصد تک بڑھایا جائے گا، جس میں صوبوں کا حصہ 2.5 فیصد ہوگا۔ لیکن ایک دہائی گزر جانے کے باوجود کچھ نہیں بدلا۔
یہی منطق غربت و پسماندگی کے اشاریے پر بھی صادق آتی ہے جو اس وقت این ایف سی فارمولے میں 10.3 فیصد وزن رکھتا ہے۔ اگر صوبوں کو صرف غریب رہنے پر انعام دیا جائے گا تو انہیں غربت کم کرنے کی کیسے ترغیب ملے گی؟ یہ اشاریے تو کارکردگی کے بجائے خامیوں اور خرابیوں کو فروغ دینے کا بندوبست رکھتے ہیں ۔
فارمولا اس طرح ازسرِنو بنایا جانا چاہیے کہ ترقی کرنے والے صوبوں کو انعام دیا جائے…معنی یہ کہ جو صوبے غربت کم کرنے، صحت و تعلیم بہتر بنانے یا ماحولیاتی لچک پیدا کرنے میں کامیاب ہوں، انہیں زیادہ وسائل ملنے چاہیں۔ اصلاحات کی فوری ضرورت بالکل واضح ہے: عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 2010 ء میں 36.8 فیصد تھی لیکن 2025ء تک بڑھ کر 44.7 فیصد ہو گئی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ انتظامی و مالیاتی نظام پاکستانی معاشرے میں کوئی معنی خیز اور عوام دوست تبدیلی نہیں لا سکا۔
اب آتی ہے محصولات کی وصولی جس کا حصہ محض 5 فیصد ہے۔ قبل ازیں ذکر ہوا کہ عملی طور پر صوبوں نے اس میں بھی کچھ خاص کردار ادا نہیں کیا۔ پاکستان کا ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب وہی 11 فیصد کے قریب اٹکا ہوا ہے، صوبے ایک فیصد سے بھی کم اکٹھا کرتے ہیں۔ گویا سنجیدہ مالیاتی اصلاحات کے بغیر قومی مالیاتی ایوارڈ ہمیشہ ایک "بے معنی نظام" ہی رہے گا۔
ساتواں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ اتفاقِ رائے سے اس لیے بن سکا تھا کہ پنجاب اور سندھ نے قومی ہم آہنگی کی خاطر قربانی دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ لیکن آج کا سیاسی ماحول کہیں زیادہ سخت ہے۔ ہر جماعت اپنے صوبائی دائرے سے چمٹی ہوئی ہے۔ مرکز خالی خزانے کے ساتھ بیٹھا ہے۔ صوبے مطمئن اور بے پروا ہیں اور قومی معیشت گھمبیر بحران کا شکار ہے۔
11واںقومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ صرف پیسوں کی تقسیم کا معاملہ نہیں ، یہ پاکستان کو ان تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے پر مجبور کرنے کے بارے میں ہے… کہ آبادی میں بے قابو اضافہ روکنا ہوگا، غربت کو حقِ موروثی کے طور پر نہیں لیا جا سکتا اور صوبوں کو اسلام آباد کے سکڑتے وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی آمدن خود پیدا کرنی ہوگی۔
یہ کمیشن کامیاب ہوتا ہے یا اپنے پیش روؤں کی طرح ناکام ہوجاتا ہے، دونوں صورتوں میں یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ آیا پاکستان کی سیاسی قیادت تنگ نظری سے بالاتر ہو کر وفاق کے مفاد میں فیصلے کر سکتی ہے یا نہیں۔ یہاں صرف مالی توازن ہی داؤ پر نہیں لگا بلکہ ایک فعال ریاست کے بقا کا سوال بھی ہم سب کے سامنے ہے۔